تین دن گزر چکے تھے، لائن میں کھڑے رہ کر بھی آٹا نہیں مل رہا تھا۔ آج بھی گھر بغیر آٹے کے جانا پڑے گا۔
یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹا ختم ہوچکا تھا۔ کیوں کہ وہ سارا آٹا ٹرک بھر بھر کر امدادی کیمپ میں پہنچایا جارہا تھا جہاں مفت آٹا تقسیم کیا جارہا تھا۔ اسی لائن میں راشد تین دن سے خوار ہورہا تھا۔ کچھ لوگ روزے کی حالت میں بے ہوش ہورہے تھے۔ کچھ چکرا کر گررہے تھے۔ لیکن پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے دوبارہ لائن میں لگ رہے تھے۔
’’جی آپ اس کے اہل نہیں!‘‘ ایک بڑی سی مونچھوں والے شخص نے راشد کی باری آنے پر اسے دوٹوک جواب دے دیا۔
’’جی یہ آٹا اُن کو ملے گا جن کا کوئی روزگار نہیں۔ آپ تو کسی کمپنی میں ملازم ہیں۔‘‘
’’جی ملازم ہوں، لیکن میری تنخواہ کا آدھا حصہ بجلی وگیس کے بل، بچوں کی فیس اور مکان کے کرائے پر لگ جاتا ہے۔ میں عام دکانوں سے اتنا مہنگا آٹا نہیں خرید سکتا۔ ایک یوٹیلٹی اسٹور سے لیتا تھا وہاں سے بھی آپ لوگوں نے آٹا غائب کردیا… اور یہاں مفت کے نام پر آٹا دے رہے ہیں وہ بھی اتنی ذلت اٹھاکر کہ کسی کو مل رہا ہے اور کسی کو نہیں۔‘‘ راشد نے تین دن کا غصہ اس آدمی پر نکال دیا۔
’’ارے بھائی! ٹائم برباد نہ کریں۔ ہم تو ملازم ہیں، ہمیں جو کہا جائے گا وہی کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر ملازم دوسرے افراد کی طرف متوجہ ہوگیا۔
راشد مایوسی سے قدم اٹھاتے کیمپ سے باہر نکل گیا۔ آج پھر خالی ہاتھ جانا پڑے گا۔ مہینے کے آخر میں تو اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ آٹا خرید سکوں۔ تین دن سے بیوی بچے دال پکا کر کھا رہے ہیں۔ راشد کی سوچیں اس کے قدموں کو مزید بھاری کررہی تھیں۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے اسے شرم آتی تھی۔ بس ایک اللہ سے ہی اپنی حاجات پیش کررہا تھا۔
اچانک کانوں میں ایک آواز آئی ’’باجی سوکھی روٹی دے دوں۔‘‘ راشد نے آتی ہوئی آواز کی جانب دیکھا، جہاں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک نوعمر لڑکا کندھے پر باسی روٹی کا تھیلا لٹکائے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ راشد سرعت سے اس کی جانب لپکا اور اس سے پوچھا کہ ’’یہ باسی روٹی تم کتنے کی دو گے؟‘‘
نوجوان نے اسے سر سے پاؤں تک حیرت سے دیکھا اور پوچھا ’’کیا! تم باسی روٹی لو گے؟‘‘
’’ہاں مجھے ضرورت ہے۔‘‘ راشد نے اپنے تاثرات چھپاتے ہوئے کہا۔
’’اچھا اگر یہ بات ہے تو ایسے ہی لے لو۔‘‘ لڑکے نے تھیلا اس کی طرف کھول کر آگے رکھ دیا۔
راشد نے اس لڑکے کی جانب حیرت سے دیکھا جس کے روزگار کا سارا دارومدار ان ٹکڑوں کو جمع کرنے پر تھا۔ وہ راشد کو ایسے ہی دینے پر تیار تھا۔
’’نہیں تم مجھے اس کی قیمت بتاؤ، میں خرید لوں گا۔‘‘
’’بھائی! ایسے ہی لے لو… میں دوبارہ جمع کرلوں گا۔ آپ کو زیادہ ضرورت ہے تب ہی تو آپ باسی روٹی لینا چاہتے ہیں۔‘‘ اس لڑکے نے دو تیں تھیلیاں راشد کی جانب بڑھادیں اور فوراً وہاں سے چلتا بنا۔
راشد تشکر بھری نظروں اسے جاتے دیکھتا رہ گیا۔ یہ روٹی ہی اس کے بیوی بچوں کی بھوک کو مٹا سکتی تھی، لیکن ساتھ ہی اس کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا کہ بوسیدہ کپڑوں میں ملبوس دل کا امیر شخص پہلی بار دیکھا تھا۔