چاچا فضلو کی باتیں

366

گزشتہ کئی برسوں سے چاچا فضلو چوری کا مقدمہ بھگت رہا ہے۔ کل بیٹے کی پیشی سے واپسی پر میری ملاقات چاچا فضلو سے ہوئی۔ اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی، وہ انتہائی دلبرداشتہ دکھائی دے رہا تھا۔ چاچا کو دیکھ کر میں نے عدالتی کارروائی کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو وہ آبدیدہ ہوگیا، کہنے لگا:

”بیٹا! لگتا ہے میری ساری زندگی کچہری میں ہی گزر جائے گی۔ دس سال قبل بنے چوری کے جھوٹے مقدمے سے ابھی جان چھوٹی نہ تھی کہ بیٹے پر جھگڑا کرنے کی نئی مصیبت گلے پڑ گئی۔ اب ایک پیشی اپنے خلاف بنے جھوٹے مقدمے کی اور دوسری بیٹے پر شریکوں کی طرف سے لگائے گئے الزام پر بھگتنی پڑ رہی ہے۔ بس ہم دونوں باپ بیٹا اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سوچتا ہوں کچہری کے سامنے کوئی خوانچہ یا ریڑھی لگا لوں، اس طرح روزی روٹی کا بندوبست ہوجائے گا اور تاریخ آنے پر حاضری بھی لگ جایا کرے گی۔ بچپن میں اسکول سے غیر حاضر رہتا تھا اس لیے پڑھ نہ سکا، یہاں پر اسکول کی طرح غیر حاضر نہیں ہوسکتا۔ نہ جانے زندگی کی کتنی بہاریں کچہری کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے گزارنی پڑیں گی۔ ساری جمع پونجی ختم ہوگئی ہے، گھر میں دو وقت کی روٹی کا بندوبست بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔ ظاہر ہے یہ کوئی نہیں جانتا کہ مقدمات کا سامنا کب تک کرنا پڑے گا۔ مقدمے بازی ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ وکیلوں کی فیسیں، گاؤں آنے جانے کا کرایہ…. سب سے بڑھ کر زندگی کا سکون برباد ہوجایا کرتا ہے۔ اس صورتِ حال میں کیا کیا جا سکتا ہے! کوئی کام نہیں ملتا، اگر کہیں مزدوری مل بھی جائے تو پیشی پر چھٹیاں کرنی پڑتی ہیں، ایسے میں بھلا کون کام پر رکھتا ہے! اور ویسے بھی ذہن پر بوجھ ہو تو بندہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرسکتا۔ مجھے انصاف نہیں مل رہا۔ کدھر جاؤں، کس سے فریاد کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میں نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو مجھے پھانسی پر لٹکا دیا جائے لیکن یوں رسوا نہ کیا جائے۔ یہ مقدمات تو میری جان کو آگئے ہیں، لگتا ہے یہ میری سانسوں کے ساتھ ساتھ چلیں گے۔ ہمارے ملک میں قانون و انصاف نام کی کوئی چیز نہیں۔ عدالتوں میں جاؤ تو پتا چلتا ہے کہ ہر دوسرا آدمی پریشان ہے، تمام سہولتیں بڑے لوگوں کے لیے ہیں۔ حکمرانوں کو ہر قسم کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ قاتل، چور اور ڈاکو دندناتے پھرتے ہیں، عوام کا پیسہ کھانے والے اور درجنوں افراد کے قاتل ضمانتوں پر رہا ہیں، اس قسم کے جرائم پیشہ افراد عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے، جب کہ ہم جیسے غریبوں کو تاریخ پر تاریخ دے کر پابند کیا جاتا ہے، ہماری بات کوئی نہیں سنتا، بس ایک ہی ذات سننے والی ہے، اسی کے سامنے ہم اپنی فریاد پیش کرتے ہیں۔ میرا ایمان ہے میرا رب اس نظام کو ایک دن ضرور پلٹ کر رکھ دے گا جس میں انسانیت کی توہین کی جاتی ہے، جس میں مجرم دندناتے پھرتے ہیں، جہاں ”چمک“ کے سامنے اربابِ اختیار کی گردنیں جھک جاتی ہیں۔ میں انصاف دینے والے اداروں سے مایوس ہوچکا ہوں، بس اپنے رب سے امید لگائی ہوئی ہے۔ بے شک وہی بہترین انصاف کرنے والا ہے۔“

چاچا فضلو مستقل بولے جارہا تھا۔ میں نے بھی درمیان میں اُسے روکنے یا ٹوکنے کی کوشش نہیں کی۔ اپنی آپ بیتی سناتے ہوئے چاچا کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور اس کی زبان بھی خشک ہورہی تھی۔ خاصی دیر اس کی باتیں سننے کے بعد میں نے اسے تسلی دی اور پانی پینے کا مشورہ دیا تاکہ اس کے غصے میں کمی آسکے۔ اُس کی باتیں سننے کا واحد مقصد میرے لیے اِس سے زیادہ کچھ نہ تھا کہ کسی طرح اُس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے اور ملک میں رائج نظامِ انصاف کے خلاف اُس کے ذہن میں ابھرتے سوالات جو اُسے بددل کررہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ شدید غم و غصے کا شکار تھا، اس میں کمی آجائے۔

چاچا اپنی باتیں سنانے کے بعد گھر جانے کی ضد کرنے لگا۔ اس حالت میں جب کہ چاچا ہمارے عدالتی نظام پر کئی سوالات اٹھا چکا تھا میں کس طرح اُسے رخصت کرسکتا تھا! اب میرا فرض تھا کہ میں آئین اور قانون کے تحت ہونے والے فیصلوں کے بارے میں بتا کر اُس کا اعتبار عدالتوں پر بحال کروں۔ میرے نزدیک کسی بھی شخص کا نظامِ انصاف کے خلاف یوں گلے شکوے کرنا اچھا شگون نہیں۔ سب سے بڑھ کر کسی بھی معاشرے میں اس قسم کی سوچ کا پیدا ہونا انتہائی خطرناک ہوا کرتا ہے۔

بس اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے دنیا کے کئی ممالک میں ہونے والے فیصلوں، خصوصاً ہمارے ملک کی عدالتوں سے ملنے والے انصاف کی مثالیں دینا شروع کردیں۔ پہلے تو وہ میری بات سننے کے لیے تیار نہ ہوا، پھر مشروط طور پر راضی ہوگیا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ میری باتوں کے درمیان سوال ضرور کرے گا اور جہاں اختلاف ہوگا وہاں بھرپور طریقے سے اپنا مؤقف پیش کرے گا۔

خیر میں نے اپنی بات کی سچائی ثابت کرنے کے لیے اُسے پاکستان کی عدلیہ کی جانب سے دیے گئے انصاف پر مبنی چند فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا:

”جب جب دنیا میں عدلیہ کی تاریخ لکھی جائے گی پاکستان کا شمار انصاف کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہوگا، یعنی دنیا میں ہمارا واحد ملک ہوگا جہاں ایک وزیراعظم کو مجرم ٹھیراتے ہوئے سزائے موت سنائی گئی۔ نہ صرف سزا سنائی گئی بلکہ اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔ یہ واحد ملک ہے جہاں عدلیہ کے فیصلوں میں نہ صرف انصاف ہوتا ہے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آتا ہے۔ مجرم چاہے جتنا بھی بااثر اور طاقتور ہو، چاہے کسی بھی منصب پر فائز ہو، سزا سے نہیں بچ سکتا۔ عدل کی اس سے بڑی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ سوچو، جس ملک کی عدلیہ اپنے ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز شخص کو سزائے موت سنا دے اس ملک کے نظامِ انصاف پر کس طرح شک کیا جا سکتا ہے!“

ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزا کا ذکر سن کر چاچا فضلو تو جیسے آگ بگولہ ہوگیا، کہنے لگا:

”کیا مجھے پاگل سمجھتے ہو؟ میں بھی انسان ہوں، روٹی کھاتا ہوں، گھاس نہیں۔ سب جانتا ہوں کہاں کی مثال کہاں دے رہے ہو، میں بے وقوف نہیں۔ میاں تم ابھی بچے ہو، جس وزیراعظم کی سزا کی بات تم کررہے ہو اُس زمانے میں تمہاری دودھ پینے کی عمر ہوگی۔ میں خوب جانتا ہوں کہ کس طرح اور کیونکر ایک منتخب وزیراعظم کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ وہ سب مجھے یاد ہے۔ یہ فیصلہ نہیں بلکہ بین الاقوامی سازش تھی، سیاسی قتل تھا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔“

میں نے چاچا فضلو کو ٹوکتے ہوئے پوچھا:

”کیا وہ عدالتی فیصلہ نہیں تھا؟“

وہ انتہائی جذباتی ہوتے ہوئے کہنے لگا:

”جن کی جماعت کا وہ قائد تھا ذرا جاکر اُن سے پوچھو، تمہاری عقل ٹھکانے آجائے گی۔ وہ اسے ”عدالتی قتل“ کہتے ہیں۔ تم اگر اسے انصاف کہتے ہو تو اپنا نظریہ اپنے پاس ہی رکھو، میرا خون مت جلاؤ۔“

اس پر میں نے کہا:

”تمہارے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا، تاریخ تو اسے عدلیہ کا انصاف پر مبنی فیصلہ ہی لکھے گی۔“

اس کے بعد میں نے اُس وزیراعظم کا ذکر کردیا جسے توہینِ عدالت کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ اس مرتبہ بھی آئین کی خالق جماعت کے وزیراعظم کے خلاف مقدمہ تھا جس کا فیصلہ انصاف کے عین مطابق دیا گیا۔ یہ بھی تاریخی فیصلہ ہے جس میں چند منٹوں کے دوران ہی انصاف ہوتا ہوا دکھائی دیا جس کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی کو کرسیِ اقتدار سے الگ ہونا پڑا۔ یہ فیصلہ بھی ہمارے ملک میں انصاف کی حکمرانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس فیصلے میں نہ صرف عدل ہوتا ہوا نظر آتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں تخت نشینوں سے لے کر عام آدمی تک قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔“

اِس مرتبہ میری باتوں پر چاچا ناراض ہوا نہ کچھ بولا، بلکہ جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکا کر لمبا قہقہہ لگاتے ہوئے سگریٹ جلانے لگا۔ اُس کی اِس حرکت پر میں جل بھن کر رہ گیا، لیکن میں نے طے کرلیا تھا کہ اس سب کے باوجود میں اپنے ملک کی عدلیہ کی جانب سے دیے گئے تاریخی فیصلے اسے سناتا رہوں گا تاکہ اس کو یقین آجائے کہ یہاں آئین اور قانون کے مطابق ہی فیصلے ہوتے ہیں۔ میں نے اپنی بات جاری رکھی، اس سے پہلے کہ میری بات ختم ہوتی، وہ کہنے لگا:

”بیٹا! پرانی باتوں کو چھوڑو، یہ بتاؤ پانامہ سے اقامہ کیسے بنا؟ بڑی بڑی باتیں کررہے ہو یہ بتاؤ کرپشن پر چلائے جانے والے مقدمے سے کتنی رقم برآمد کی گئی؟ پانامہ میں تو سیکڑوں افراد کا نام آیا تھا، قصوروار ایک ہی ٹھیرایا گیا، باقی کے لوگ فرشتے اور دودھ کے دھلے ہوگئے؟ اگر اس خاندان نے کرپشن کی تھی تو اِس مرتبہ اقتدار پھر اُن کی جھولی میں کیوں ڈال دیا گیا؟ اب تم ہی بتاؤ اسے انصاف کہوں یا کچھ اور؟ میرے نزدیک تو یہ بھی سیاسی نوعیت کی سزا ہی ہے۔“

چاچا فضلو کی باتوں سے میرا خون کھولنے لگا تھا، اس سے پہلے کہ میں مزید غصے میں آتا، میں نے اسے جانے دیا۔ لیکن اس کی طرف سے کی جانے والی باتیں میرے ذہن میں کئی سوالات چھوڑ گئیں، مثلاً میں سوچ رہا تھا کہ اگر مجرم ثابت ہونے والے شخص کو اقتدار میں رہنے کا حق نہیں تو جس پر کرپشن کے الزامات ہوں وہ کس طرح حکمرانی کا اہل ہوسکتا ہے؟

یہاں مجھے محترم سراج الحق کا لاہور میں کیا گیا وہ خطاب یاد آ گیا جس میں انہوں نے غریب آدمی کو انصاف کی فراہمی میں درپیش مسائل کا ذکر کیا تھا، ان کا کہنا تھا:

”ہمارے ملک میں غریب اور عام آدمی کا مسلسل استحصال ہورہا ہے، غریب کے لیے تعلیم،صحت اور روز گار کے مواقع ہیں نہ عدالتوں سے اسے انصاف ملتا ہے۔ انصاف ملتا نہیں خریدا جاتا ہے۔ انصاف وہی خرید سکتا ہے جس کے پاس لاکھوں، کروڑوں روپے ہوں، یہی وجہ ہے کہ ایک عام آدمی ساری زندگی عدالتوں کے چکر لگاتا رہتا ہے۔ اس گمبھیر صورت حال کا واحد علاج نظامِ شریعت کا نفاذ ہے۔ یقیناً اسی نظام کے نفاذ سے ہمارے تمام مسائل خودبخود حل ہوسکتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں قرآن و سنت کا نظام ہو۔ ہم منصفین کے ہاتھ میں قرآن دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب قرآن کے مطابق فیصلے ہوں گے تو کوئی کسی پر ظلم نہیں کرسکے گا۔ لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم نے عوام کو شودر اور اشرافیہ کو برہمن اور پنڈت بنایا ہے۔ پاکستان میں آج بھی ہزاروں لوگ فٹ پاتھوں پر سونے پر مجبور ہیں، یہاں کے پھولوں جیسے بچے اسکول جانے کے بجائے ہوٹلوں میں گندے برتن دھونے، ورکشاپوں میں کام کرنے اور سائیکلوں کی دکانوں پر پنکچر لگانے پر مجبور ہیں۔“

واقعی معاشرے سے لاقانونیت اور جرائم کے خاتمے کا واحد حل فوری انصاف ہے۔ یقیناً نظامِ شریعت کا نفاذ ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ سیّدنا علیؓ کا فرمان ہے کہ کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ قومیں عدل کی بنیاد پر مستحکم ہوتی ہیں اور ظلم و تعدی انہیں برباد کردیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری پیغمبر جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے ہر حال میں عدل و انصاف کے احکامات دیے ہیں، اور قوموں کی بقا کی ضمانت بھی اسی وصفِ عالیہ میں مضمر ہے۔ آج ہمارے ہاں عدل و انصاف کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور ہر طرف ظلم و تعدی کا بازار گرم ہے، اگر ہم اپنی قوم کا استحکام اور بقا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلامی نظام عدل پر عمل پیرا ہونا ہوگا، وگرنہ ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عدل و انصاف کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ ہمارا ملک مستحکم و ترقی یافتہ ہو اور ہر طرف امن و اطمینان کی فضا قائم ہو۔

حصہ