آپا کرن کو جب اچانک بچپن کی سہیلی نے ملنے کی دعوت دی تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائیں۔ اپنا سب سے خوب صورت جوڑا نکال کر اس کی ہم رنگ چوڑیاں اور ٹاپس وغیرہ نکال کر رکھے اور بے چینی سے پرسوں کا انتظار کرنے لگیں۔ مگر یہ دیکھ کر کہ ان کی بچپن کی تمام سہیلیاں جو انہی کی ہم عمر تھیں، دبلی پتلی، اپنی ’’اسمارٹ نیس‘‘ کا خیال رکھنے والی اور دنیا کو جاننے والی تھیں، مگر آپا کرن بس کپڑوں، جوتوں میں مگن رہنے والی خاتون تھیں۔
جس چیز نے ان کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی سہیلیوں کا دبلا پن تھا، جسے دیکھ کر آپا کرن نے سوچا کہ محنت سے کیا نہیں ہوسکتا! کیوں نا وہ آج ہی سے اس کے لیے محنت کریں اور خوب صورت اور اسمارٹ نظر آئیں۔ جم وِم جانا اور بھاری بھاری مشینیں اٹھانا… نہ بابا نہ، مجھ سے نہیں ہوگا یہ سب! مگر روز شام میں واک ہوسکتی ہے، بے شک واک کئی مسائل کا تنہا حل ہے، انہوں نے خود سے کہا۔، فیصلہ بہترین تھا۔ آپا کرن نے دن بھر کی مصروفیات میں سے وقت نکالا اور اسمارٹ ہونے کے مشن پر لگ گئیں۔
شام کو چہل قدمی پہلے پہل تو بہت مشکل لگی، کبھی تو لگتا ہمت جواب دے رہی ہے، مگر جب سہیلیاں نظروں میں گھومتیں تو آپا کرن نئے جذبے سے پھر کھڑی ہوجاتیں۔ بالآخر پندرہ دن بعد ان کو محسوس ہوا کہ رتی برابر بھی فرق نظر نہیں آرہا تو انہوں نے ایک مخلص سہیلی کو فون کیا۔
’’کرن! واک کے ساتھ پرہیز بھی کرنا ہوتا ہے، تم واک کے بعد واپسی میں چار سموسے اور نمک پارے اکیلے ہڑپ کرو گی تو کیسے فرق پڑے گا؟‘‘
یعنی آپا کرن نمک پاروں اور سموسوں کے آگے سے گزریں اور خالی ہاتھ رہ جائیں! یہ ناممکن بھی ممکن بنانا تھا۔ سو اس کٹھن آزمائش سے بھی گزرنے کی ٹھانی۔ پھر نئے جوتے پہن کر چہل قدمی کو نکل پڑیں۔ ایک مہینہ مسلسل ریاضت اور پرہیز کے بعد ان کو اپنے وزن میں ڈیڑھ کلو کمی نظر آئی تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ مگر سفر ابھی طویل تھا، یہ منزل نہیں تھی۔ وہ آگے بڑھتی گئیں، راستے میں سموسوں کی دکان نظر آتی، منہ میں کئی دفعہ پانی آتا، کئی دفعہ اس کی طرف قدم بھی بڑھے، مگر پھر آپا کرن نے خود پر جبر کیا، بہت جبر کیا۔
تقریباً تین مہینے بعد واضح فرق نظر آنے لگا، وہ بھی اپنی سہیلیوں کی طرح ’’اسمارٹ‘‘ دِکھنے لگی تھیں۔ اب تو ان کا بھی دل چاہا کہ سہیلیوں کو گھر بلا کر شاندار دعوت کا اہتمام کریں، مگر پھر سوچا ابھی تین مہینے اور رک جائیں اور محنت جاری رکھیں تو زیادہ لطف ملے گا۔ خوب صورتی کی تعریف سننے کا بھی اپنا ہی نشہ تھا۔ وہ اس سے بھرپور طریقے سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں، مگر ابھی دنیا بھی تھوڑی وسیع کرنی تھی، تھوڑا سوشل بھی تو ہونا تھا، یہ بھی تو ایک مشن تھا۔
سو اس کے لیے آپا کرن نے راہ چلتے خواتین کو سلام کرنا شروع کیا، مسکرانا شروع کیا۔ گو اس سے اُن کی چہل قدمی کی رفتار تھوڑی کم ہوجاتی، لیکن دونوں چیزوں کو بیک وقت لے کر چلنا تھا۔ محلے کے ایک گھر میں بی سی بھی ڈالی جس کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی، مگر بی سی میں شامل لوگ جب مل کر دعوت رکھتے ہیں تو میل ملاپ بڑھتا ہے، اور یوں ایک دن انہیں چہل قدمی کے دوران ایک کشمیری سیب جیسے گالوں والا خوب صورت بچہ روتا دکھائی دیا۔ آپا کرن سے رہا نہ گیا، دل کی ہمیشہ سے نرم تھیں، جب اس نے اپنی ننھی منی انگلیوں سے اپنے آنسو پونچھے تو آپا کرن نے چہل قدمی کی رفتار کو گولی ماری اور بچے کے پاس پہنچ گئیں۔
’’کیا ہوا بیٹا!کیوں رو رہے ہو؟‘‘
’’مجھے… مجھے… مما نہیں مل رہیں؟‘‘
’’کہاں ہیں آپ کی مما؟‘‘
’’یہیں پر تھیں، کھو گئیں، اُن کو کوا کھا گیا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر بچّے نے پھر سے رونا شروع کیا۔
’’نہیں بیٹا! کوا نہیں کھاتا مما کو، آؤ میں ڈھونڈتی ہوں، مما کا نام کیا ہے؟‘‘
’’مما نے، مما نے، بتانے سے منع کیا ہے۔‘‘
آپا کرن نے سر پہ ہاتھ مارا، چہل قدمی تو ذہن کے کسی کونے میں بھی نہ رہی اور فوراً بچے کی انگلی پکڑ کر باغ میں نکل گئیں… اور وہاں موجود ہرعورت سے پوچھنے لگیں ’’بہن! یہ بچہ آپ کا ہے؟‘‘
پریشانی اُس وقت بڑھی جب کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا کہ یہ بچّہ کس کا ہے۔
’’آنٹی میں نے کہا تھا نا، مما کو کوا کھا گیا۔‘‘ اور یہ کہہ کر رونے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔
’’وہ رہیں مما!‘‘بچّے نے دور بیٹھی عورت کی طرف اشارہ کیا، جو بیٹھی سموسے اور نمک پارے کھا رہی تھی۔
’’آنٹی! کوے نے وامٹ کردی ہوگی۔‘‘
آپا کرن فوراً بچے کی انگلی پکڑ کر وہاں گئیں، جہاں دو عورتیں بیٹھی کھانے میں مصروف تھیں، نمک پارے اور سموسے دیکھ کر منہ میں پانی آنا تو بنتا ہی تھا، اس بہانے تعلقات میں بھی اضافہ ہوگا، ظاہر ہے میں نے نیکی کی ہے ان کے ساتھ، ان کا بچّہ ڈھونڈ کر دیا ہے اور بچے کو ماں ڈھونڈ کر دی ہے جسے کوا کھا گیا تھا، فون پر بات ہوا کرے گی، تحائف کا لین دین ہوا کرے گا…اور ابھی سموسے اور نمک پارے بھی ملیں گے۔
’’بہن یہ آپ کا بچّہ ہے؟‘‘
توقعات کے بالکل برعکس وہاں سے کوئی شکر گزاری،کوئی مسکراہٹ،کچھ دیکھنے کو نہ ملا۔
’’جی، مگر آپ کو کیسے ملا؟‘‘
’’وہ دراصل میں واک کررہی تھی، یہ رو رہا تھا، اس کو آپ نہیں مل رہی تھیں۔‘‘
آپا کرن سرد رویّے کو خاطر میں نہ لاکر منہ پر مسکراہٹ سجائے کہے جا رہی تھیں۔ سامنے والی خاتون نے زور سے اپنا بچّہ کھینچا۔
’’آپ ہیں کون اور کیوں میرے بچے کو لیے لیے گھوم رہی تھیں، ہمت کیسے ہوئی میرے بچے کو ہاتھ لگانے کی؟‘‘
آپا کرن کی توقعات کا پہاڑ تباہ شدہ عمارت کی طرح ڈھے گیا۔
’’اغوا کاروں کے کسی گروہ کی لگتی ہیں۔‘‘ ساتھ والی خاتون نے سرگوشی کی۔
’’میں…اغواکار…؟ بہن میں نے تو آپ کی مدد کی ہے۔‘‘ آپا کرن رو دینے کو تھیں۔ طرف داری کی خاطر بچے کی طرف دیکھا جو مکمل طور سے آپا کرن سے آنکھیں پھیر چکا تھا۔
’’سب سمجھتی ہوں میں مدد، ابھی پولیس کو بلاؤں؟‘‘آس پاس کھڑے لوگ بھی میدان کے تماشائیوں کی طرح دیکھنے لگے۔
’’جانے دو، رہنے دو…‘‘ساتھ والی خاتون نے غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
آپا کرن ڈر گئیں، ان کی نیت صاف تھی، وہ اکیلی تھیں، بچپن سے سب کی لاڈلی، تیز آواز بھی برداشت نہ تھی، جھگڑا تو کرنا ہی نہیں آتا تھا۔ چھوٹے بھائی کے الفاظ کان میں میں گونجے’’آپا تھوڑی تیز ہوجاؤ ورنہ دنیا تمہیں کھا جائے گی، دنیا میں سیدھے سادے لوگ مشکلات میں گھرے رہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے وہاں سے گزر جانے میں عافیت جانی۔ نمک پارے اور سموسے، تعلّقات، سوشل ہونا،کوے کا کھا جانا، سب جائے تیل لینے۔ وہ گھر آئیں اور تکیے میں منہ دے کر خوب روئیں، بہت بری طرح لینے کے دینے پڑ گئے تھے۔
’’کیا ہوا؟ یہ تو تمہاری واک کا وقت ہے، رو کیوں رہی ہو؟‘‘
آپا کرن کے میاں دفتر سے گھر آگئے تھے۔آپا کرن نے سارا قصّہ گوش گوار کیا۔
ان کے میاں نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولے ’’کوئی بات نہیں، ہمارے معاشرے میں جھوٹ، دھوکہ دہی، بے ایمانی اتنی عام ہے کہ مخلص شخص بھی دھوکے باز نظر آتا ہے، ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ تمہارا کوئی قصور نہیں کرن! اللہ نے تمہاری نرم دلی دیکھ کر تمہاری نیکی قبول کرلی ہوگی، اپنے نیکی کے جذبے کو ختم نہ کرنا، بس احتیاط سے کام لینا، اندھیروں کو بجھانے کے لیے ایک دِیا بھی بہت ہوتا ہے، اب چہل قدمی تو کرو گی نا؟‘‘
آپا کرن کو اندازہ نہیں تھا کہ ان کی چہل قدمی سے نصیر صاحب بھی بہت خوش ہیں، مگر اس باغ میں دوبارہ جانا، یہ بہت مشکل تھا۔
آپا کرن نے دوسرا باغ ڈھونڈا، وہ باغ کیا، ایک چھوٹا باغیچہ تھا، راستے میں نمک پارے، سموسے کچھ نہ تھے، نہ جانے یہ اچھی بات تھی یا بری! پھر انہوں نے اسی طرح چہل قدمی شروع کی۔ وہ کافی محتاط تھیں، جو ملتا اس سے اچھی طرح سے ملتیں، باقی احتیاط کرتیں کہ کہیں پھر کسی وجہ سے لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
اس نئے باغیچے میں چہل قدمی کرتے تقریباً ڈیڑھ مہینہ گزرا تھا،آپا کرن کو پھر ایک بچّہ روتا دکھائی دیا۔
’’میری مما کھو گئیں… میری مما کھو گئیں…‘‘
آپا کرن سے پھر رہا نہ گیا، مگر نصیر صاحب کے الفاظ بھی یاد آئے ’’اپنے نیکی کے جذبے کو ختم نہ کرنا، بس احتیاط سے کام لینا۔‘‘
بچّہ رو رہا تھا، مستقل، بغیر رکے، زور زور سے۔ آپا کرن فوراً باغیچے کی انتظامیہ کے پاس گئیں اور بولیں ’’وہاں ایک بچہ رو رہا ہے، اُس کی مما نہیں مل رہیں، انہیں کوا کھا گیا۔‘‘
’’کوا کھا گیا…؟‘‘ انتظامیہ کے ایک اہلکار نے غائب دماغی سے دیکھا اورحیرت سے پوچھا۔
’’نہیں نہیں، میرا مطلب ہے اس کی مدد کریں، وہ رو رہا ہے!‘‘ گھبراہٹ میں پرانا تجربہ نئے کے ساتھ مل گیا تھا۔
’’جی آپ پریشان نہ ہوں، ہم کچھ کرتے ہیں۔‘‘ انتظامیہ نے بچّے کا نام اور حلیہ بتا کر باغیچے میں اعلان کروایا اور کچھ ہی دیر میں بچہ اپنی ماں کے ساتھ تھا۔
’’بہن آپ کا شکریہ آپ نے میری مدد کی، یہ بہت جلدی رونے لگتا ہے، اللہ آپ کو اجر دے۔‘‘ بچّے کی ماں مسکراہٹ سجائے شکر گزار تھیں۔
’’کوئی بات نہیں،یہ تو میرا فرض تھا۔‘‘
اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ بچّے کی ماں سے آپا کرن کی دوستی ہوگئی، تحائف کا لین دین بھی ہوا، تعلقات بھی بڑھنے لگے۔ دنیا میں سب برے نہیں ہوتے، بعض اچھے ہوتے ہیں اور بعض بہت اچھے، ہر دفعہ لینے کے دینے نہیں پڑتے۔
جب سات آٹھ مہینے بعد آپا کرن نے سہیلیوں کی دعوت کی تو سب کچھ پہلے سے مختلف تھا، وہ دبلی پتلی اسمارٹ سی خاتون بن گئی تھیں، سب تعریف کررہے تھے اور بچپن کی سہیلیوں کے ساتھ باغیچے کی سہیلیاں بھی مدعو تھیں، جو پہلی دفعہ آپا کرن کے گھر آکر بہت خوش تھیں۔ بالآخر آج آپا کرن نے سموسے اور نمک پارے بھی کھا ہی لیے۔ زندگی میں مشکل وقت کچھ سکھانے کے لیے آتا ہے، برے تجربے انسان کو پہلے سے بہتر اور مضبوط بناتے ہیں۔ وہ اپنے چہل قدمی کے اس سفر کے بارے میں سوچ کر مسکرانے لگیں۔
زندگی اور موت کا سوال
اب اگر اپنی قوم اور مملکت کی وحدت کا سوال ہمارے لیے درحقیقت زندگی اور موت کا سوال ہے تو یہ بات مشرقی اور مغربی پاکستان کے ہر مسلمان کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم کسی دوسرے مسئلے کو اِس مسئلے سے زیادہ، یا اِس کے برابر اہمیت نہیں دے سکتے۔ یہاں کوئی ایسا نادان دوست، یا دانا دشمن برداشت نہیں کیا جانا چاہیے ، اور نہیں کیا جاسکتا، جو اپنی حماقتوں سے، یا اپنی چالوں سے ہماری وحدت کو خطرے میں ڈالے۔ ہروہ شخص جو یہاں بنگالی، پنجابی، سرحدی اور سندھی کے درمیان تفریق کرتا ہے ، اور اِن تعصبات کو اپنی زبان یا عمل سے اْبھارتا ہے، وہ دراصل پاکستان کی جڑ کاٹتا ہے۔ اِسی طرح ہروہ شخص پاکستان کے ساتھ دشمنی کر رہا ہے جو یہاں مقامی اور مہاجر آبادی کے درمیان فرق و اختلاف پیدا کرتا ہے، یا خود مہاجرین میں یوپی اور بہاری اور دہلوی وغیرہ کی عصبیتیں بھڑکاتا ہے۔ اِسی طرح ایسے تمام لوگ بھی اپنی قوم اور ملک کے ساتھ بدخواہی کر رہے ہیں جو مغربی پاکستان میں بیٹھ کر یہ سوچتے ہیں کہ مشرقی پاکستان ہمارے لیے ایک بوجھ اور ایک ذمہ داری کا پشتارہ ہے، یا مشرقی پاکستان میں بیٹھ کر یہ سوچتے ہیں کہ ہم چونکہ کثیرالتعداد ہیں اس لیے محض ووٹوں کے بل پر ہم اپنی ہربات منوا لیں گے، خواہ مغربی پاکستان والے اس پر راضی ہوں یا نہ ہوں۔ یہ تمام باتیں نہ صرف جاہلیت کی باتیں ہیں جو مسلمانوں کے شایانِ شان نہیں، بلکہ یہ سخت خطرناک بھی ہیں، کیونکہ ان سے ہماری اْس وحدت کو نقصان پہنچتا ہے جس پر ہماری قومی زندگی کا انحصار ہے۔ جو قوم کٹ پھٹ کر پہلے ہی ۵/۳ رہ گئی ہو، اور وہ ۵/۳ بھی آدھوں آدھ کے حساب سے سیکڑوں میل کے فاصلہ پر بٹ گئے ہوں، اور اس کے دونوں حصوں کے درمیان ایک طاقت ور ہمسایہ معاندانہ جذبات لیے ہوئے حائل ہو، وہ اگر اِس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتی ہے تو دراصل اپنی شامت کو دعوت دیتی ہے۔
(’’اشارات‘‘ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ترجمان القرآن)