یا بڑھ کے تھام لو مجھے مانندِ جامِ مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو میں نشے میں ہوں
جب سے دنیا قائم ہوئی ہے تب سے بنی نوعِ انسان نشے کا عادی رہا ہے۔ نشے سے میری مراد صرف شراب، چرس یا افیم نہیں ہے بلکہ ’’اور بھی نشّے ہیں زمانے میں ان کے سوا‘‘ مثلاً کسی کو مال و دولت اکٹھا کرنے کا نشہ چاہے وہ کسی بھی طرح حاصل کی جائے، کسی کو آثارِ قدیمہ کی چھان بین کرنے کا نشہ، کسی کو میدانِ سیاست میں اُچھل کود کرنے کا نشہ… غرضیکہ ہر شخص اپنے اپنے شوق اور ظرف کے مطابق نشہ اختیار کرتا ہے اور ساری زندگی اسی میں مست رہتا ہے۔
شاعر کو شعر کہنے کا نشہ… شاعر حضرات جب تک شعر نہیں کہہ لیتے ان کا نظام ِہضم صحیح کام نہیں کرتا۔ اردو شاعری میں شعرا حضرات کا دوسرا محبوب موضوع ’مے نوشی‘ رہا ہے، یعنی نشہ ہی نشہ… اس موضوع پر اتنے اشعار کہے گئے ہیں کہ اگر سارے اشعار اکٹھے کرلیے جائیں تو ایک نہیں بلکہ کئی کلیّاتِ مے مرتب ہوسکتی ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ شعرا حضرات نے اپنی اس شئے دل پذیر کو مختلف القابات سے نوازا ہے…
خُم صراحی جام و مینا ساغر و پیمانہ مے
یا الٰہی اک بلا کے اتنے سارے نام ہیں
اب اس کو آپ بلا کہہ لیں یا بلائے جاں کہہ لیں، بہرحال کچھ شعرائے کرام اس کے اتنے زیادہ رسیا رہے ہیں کہ جب تلک یہ بلائے جاں ان کے حلق سے نیچے نہ اتر جائے اشعار کی آمد ممکن ہی نہیں، مرزا غالب کا بھی یہی حال رہا ہے، اتنی پی لی کہ اب ہاتھوں میں اتنی بھی سکت نہ رہی کہ جام اٹھا سکیں، بڑی حسرت سے فرماتے ہیں …
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
حضرات اب میں اپنے اصل مقصد کی طرف آتا ہوں جس کے لیے میں نے اس مضمون کا آغاز کیا ہے۔ نشہ بہرحال نشہ ہے چاہے کسی بھی طرح کا ہو۔ سرکاری اہلکار کو ناجائز آمدنی حاصل کرنے کا نشہ، ٹی وی آرٹسٹ کو شہرت کا نشہ، شرابی کو شراب اور ہیرونچی کو ہیروئن کا نشہ درکار ہے۔ خواتین کو صرف اور صرف ایک ہی نشہ مطلوب ہے اور وہ ہے میک اپ، چاہے اندرونِ خانہ ہو یا بیرونِ خانہ یعنی بیوٹی پالر۔
دنیا کا قدیم ترین اور خطرناک ترین نشہ، نشۂ اقتدار ہے جو دوآتشہ شراب کے نشے کی مانند ہے، اگر ایک بار چڑھ گیا تو پھر صاحبِ نشہ کسی بھی قیمت پر اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا چاہے اس کے لیے اُسے کتنے ہی لوگوں کی’قربانی‘ کرنی پڑے۔ لوگوں سے میری مراد وہ غریب عوام ہیں جو صاحب اقتدار کے زیرِ سایہ پرورش پاتے ہیں اور اسی کی جے جے کار کرتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں اقتدار کی کرسی پر جو شخص بھی براجمان ہوتا ہے جانے کیا جادو ہے اس کرسی میں کہ اُسے اس کرسی سے اس قدر محبت ہوجاتی ہے کہ اس کی یہی تمنّا ہوتی ہے کہ اس کے سفرِ آخرت میں بھی کرسی اس کی ہم سفر ہو۔ حالانکہ صاحبِ اقتدار کو آخری سفر کی قطعی توقع نہیں ہوتی اور نہ ہی پروا۔ وہ کرسی کو اس قدر مضبوط سمجھتا ہے کہ کوئی بھی طاقت اسے ہلا نہیں سکتی، مگر جب کرسی ہلتی ہے تو ایسی ہلتی ہے کہ چکناچور ہوجاتی ہے اور آئندہ آنے والے صاحبانِ اقتدار کے لیے عبرت کا نشان چھوڑ جاتی ہے، مگر افسوس ہمارے ملک میں کوئی بھی ایسا دیدہ ور پیدا نہ ہوا جو عبرت حاصل کرسکتا۔ اقتدار کی کرسی جس شخص کو بھی حاصل ہوتی ہے وہ نشۂ اقتدار میں اتنا چُور رہتا ہے کہ اسے کسی کا بھی خوف نہیں ہوتا، نہ اوپر والے کا خوف اور نہ ہی نیچے والوںکا خوف۔ وہ بے خوف زندگی گزارتا ہے۔ فرعون بھی اقتدار کے نشے میں اتنا چُور تھا کہ حضرت موسیٰؑ کو دیے گئے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی اللہ پر ایمان نہ لایا اور اپنے گھمنڈ میں مبتلا رہا۔ آخرکار اس کا انجام کتنا خوفناک ہوا یہ ساری دنیا نے دیکھا اور قیامت تک کے لیے نشانِ عبرت بن گیا۔ ’’دیکھو ’اسے‘ جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘۔ اقتدار کے حوالے سے مجھے اس وقت پیرزادہ قاسم کا ایک شعر یاد آ گیا، کیا خوب شعر ہے مگرمصرعِ ثانی میں تھوڑی سی تحریف کے ساتھ…
شہر طلب کرے اگر تم سے علاجِ تیرگی
صاحبِ ’اقتدار‘ ہو آگ لگا دیا کرو
ہم پاکستانیوں کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے، ملک کو وجود میں آئے 75 سال ہونے کو آئے، 75سال بہت ہوتے ہیں کسی ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے۔ جاپان اور چین کی مثال ہمارے سامنے ہے، مگر افسوس سوائے لوٹ مار، سیاسی اُکھاڑپچھاڑ اور آپسی نفرتوں میں اضافے کے ہم کچھ نہ کرسکے۔ جہالت ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے، ہم پہلے بھی غلام تھے اور آج بھی غلام ہیں، دیارِ غیر کے سنگِ آستاں پر سجدہ ریزی کرنا ہمارا وتیرۂ خاص ہے، ’’ہاتھوں میں کشکول لیے منتظرِ فردا ہیں‘‘۔ ہمیں تو اتنا بھی شعور نہیں ہے کہ ہم بوقتِ انتخابات اُن لوگوں کا انتخاب کریں جو ہمارے حکمران کم اور خادم زیادہ ہوں۔ ہم مستقل اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، اور اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو… خاک ہو جائیں گے ہم… اور ’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘
یہ خطۂ زمین جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا خودغرضی اور انا پرستی نے اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا اور دنیا والوں کو ہنسنے کا موقع ملا۔ جتنے بھی سربراہانِ مملکت آئے ان میں بیشتر ایسے تھے جنہیں اپنی زمین سے زیادہ اپنے ذاتی مفاد سے محبت رہی ہے۔ جس دل میں اپنے وطن کے لیے محبت نہ ہو وہ وطن کا غدار ہے، اور اس قماش کے اکثر بدقماش یہاں پیدا ہوئے۔ اے بدقماشو… تمہاری ہی وجہ سے آج ملک خستہ حالی اور زبوں حالی کا شکار ہے۔ کرسی چھوڑنے کے بعد وطنِ عزیز سے مجرموں کی طرح فرار اختیار کرکے دیارِ غیر میں پناہ لیتے ہو اور وہیں مر جاتے ہو… مرنا تو ہے… تو…’’اپنی مٹی پہ ہی’مرنے‘ کا سلیقہ سیکھو‘‘ ایسا کام کرتے ہی کیوں ہو کہ ملک سے فرار ہونے کی نوبت آئے اور اہلِ وطن برے ناموں سے تمہیں یاد کریں! کاش وطنِ عزیز کے دستور میں یہ بات شامل کرلی جائے کہ کوئی بھی سرکاری اعلیٰ عہدیدار جن کے پاس ملک کے اہم راز ہوتے ہیں اپنی مدّت مکمل کرنے کے بعد ملک سے باہر نہیں جا سکتا، نہ تو بغرضِ علاج اور نہ ہی سیر و تفریح کے نام پر۔ ہمارے ملک میں سیاسی بازی گروں کی پیداوار اچھی خاصی ہے، ان کی آپسی رنجشیں ملک میں نفرتوں کی آگ بھڑکاتی رہتی ہیں، آج بھی یہی صورت حال ہے ’’روم جل رہا ہے اور نیرو بیٹھا بانسری بجا رہا ہے۔‘‘
شاعرہو یا ادیب، اس کا مشاہدہ عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے، اس کی خردبینی آنکھیں معاشرے پر گہری نظر رکھتی ہیں اور وہ خامیاں جو عام آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں اسے اپنے الفاظ میں پیش کرکے وہ لوگوں سے داد وصول کرتا ہے۔ کبھی کبھی شاعر دو مصرعوں میں اتنی اعلیٰ بات کہہ دیتا ہے کہ اس کی تشریح کے لیے دو صفحات بھی کم ہیں۔ دو مصرعے حاضرِ خدمت ہیں، ان میں شاعر نے پاکستان کی پوری تاریخ سمو دی ہے، ملاحظہ کیجیے…
جو کسی اور کو الزام دے وہ جھوٹا ہے
مرے چمن تجھے ہر باغباں نے لوٹا ہے
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ ایسے بھی صاحبانِ اقتدار گزرے ہیں جنہوں نے قوت رکھنے کے باوجود خدام بن کر عوام کی خدمت کی ہے۔ انہیں اقتدار کا نشہ نہ تھا، انہیں عوام کی خدمت کرنے کا نشہ تھا، وہ اللہ کو راضی کرنا چاہتے تھے، انہیں مال و متاع جمع کرنے میں کوئی دل چسپی نہ تھی اور نہ ہی ان کا کھاتا سوئس بینک میں تھا، وہ انصاف پسند تھے، عدل و انصاف ان کے دستور میں شامل تھا، اپنی رعایا کے دُکھ سکھ میں برابر کے شریک رہا کرتے تھے، کبھی کسی پر ظلم نہ کرتے تھے، انہیں اللہ کا خوف تھا۔ لیکن وطنِ عزیز کے صاحبانِ اقتدار کو اللہ کا خوف کبھی نہ رہا۔دعا ہے وطن عزیز پر کوئی ایسا حکمران اللہ تعالیٰ نازل فرما دیں جو خود بھی سیدھی راہ اختیار کرے اور قوم کو بھی سیدھا رکھے، عادل ہو، اس کا کھاتا کسی بیرونی ملک میں نہ ہو اور نہ ہی اس کی دوسری رہائش گاہ دیار ِغیر میں ہو، اس کا جینا بھی یہیں ہو، مرنا بھی یہیں ہو، وہ ایک سچا اور پکا مسلمان ہو، اپنی سرزمین کے لیے مخلص ہو، دوغلا نہ ہو، اسے کوئی بیرونی طاقت خرید نہ سکے، وہ بکاؤ مال نہ ہو۔ آخر میں احمد ندیم قاسمی کے ایک معرکہ آرا شعر کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں مصرعِ ثانی میں تھوڑی نہیں بلکہ اچھی خاصی تحریف کے ساتھ…
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
’’وہ حکمراں جو کسی اور کا غلام نہ ہو‘‘
(سوائے اللہ کے)