ترکی کے انتخابات کے موقع پر لوگوں کے جذبات دیکھ کر یہ نعرے یاد آگئے:
’’نہ کھپے‘ نہ کھپے… بہاری نہ کھپے۔‘‘
’’افغان مہاجرین ہماری معیشت پر بوجھ ہیں۔‘‘
پاکستان میں مشرقی پاکستان سے آنے والے افراد کو جب سندھ میں بسانے کی بات آئی تو اندرون سندھ کے قوم پرستوں نے یہ نعرے لگائے۔ ان نعرہ لگانے والوں میں سندھی قوم پرست‘ ترقی پسند کہلانے والے وہ لوگ تھے جو میڈیکل کالج‘ انجینئرنگ کالج‘ یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ سندھ کے عام دیہاتی کا ان نعروں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اسی طرح افغان مہاجرین کے آنے پر ترقی پسند قوم پرست پشتو بولنے والوں نے شدید جذبات کا اظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ افغان ہماری معیشت پر بوجھ ہیں‘ یہ اتنی بڑی تعداد میں آگئے ہیں کہ ہم اقلیت میں ہو جائیں گے۔
ان نعروں میںبظاہر حقیقت بھی تھی‘ مثال کے طور پرKilis شہر شام کی سرحد سے چار‘ پانچ کلو میٹر دور واقع ہے میں آج کل اسی شہر میں رہ رہا ہوں‘ شامی مہاجرین جنہیں ’’سوری‘‘ کہا جاتا ہے‘ بڑی تعداد میں اس شہر میں آگئے ہیں۔ کلنس شہر کی آبادی ایک لاکھ ہے‘ اس شہر میں ایک لاکھ بیس ہزار مہاجرین آگئے ہیں۔ عملاً شہر میں رہنے والے مقامی لوگوں کی آبادی کم رہ گئی ہے۔
ترکی میں تقریباً دس لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین ہیں‘ بڑے شہروں میں جیسے استنبول لاکھ سے زیادہ ہیں‘ شامی مہاجرین کلچر اور زبان کے لحاظ سے ترکی کے عوام سے بالکل مختلف ہیں۔ ترکی میں دو ہفتے گزارنے کے بعد یہ تجربہ ہوا کہ شامی مہاجرین میں سے اکثر کو ترکی زبان نہیں آتی۔ ترکی کے شہریوں اور شامی مہاجرین کے درمیان اس فرق کی وجہ سے ترکی کے لوگوںمیں منفی جذبہ ابھر رہاہے۔ ترک عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کو یہاں بسانے میں اردگان صاحب کی حکومت کا مرکزی کردار ہے۔ اس لیے اردگان صاحب کو ووٹ کم ملنے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔ لیکن پڑھے لکھے افراد پر اس کا اثر زیادہ پڑا ہے اس کی وجہ دوسری بھی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اردگان حکومت نے کم آمدنی والے لوگوں کی آمدنی میں بہت بڑا اضافہ کیا ہے جس کا اثر یہ ہوا کہ یونیورسٹی کے پروفیسرز‘ انجینئرز اور اعلیٰ عہدے والوں اور کم گریڈ والوں کی تنخواہ میں بہت کم فرق رہ گیا ہے۔ اس بڑے طبقے کے ووٹ بھی اردگان صاحب کو کم ملے ہیں۔
تیسری بات نوجوانوں کی اکثریت نے پرانا خراب دور نہیں دیکھا اس لیے وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ ترکی کبھی بہت خراب بھی تھا جسے اردگان صاحب نے بے حد خوب صورت بنا دیا ہے۔ نوجوان یورپ کو اپنا ماڈل سمجھتے ہیں اور ماڈرن ازم میں اردگان صاحب کی حکومت کو رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ نوجوانوں میں ایک نعرہ Change کا بھی آیا ہے۔ اب کسی اور کو بھی دیکھتے ہیں۔ یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ وہ یکسانیت سے اکتا جاتا ہے جسے مخالفین نے بھرپور استعمال کیا۔ لیکن نوجوانوںکی ایک بڑی تعداد اردگان صاحب کو ہیرو بھی سمجھتی ہے۔
ان منفی چیزوں کے مقابلے میں وہ مثبت اقدامات جو اردگان صاحب نے کیے ہیں بہت زیادہ ہیں۔ ترکی کو بہترین سڑکوں کا نظام دیا ہے۔ میں نے ترکی کی بسوں میں تقریباً 30 گھنٹے مختلف ہائی ویز پر سفر کیا ہے۔ بہترین سڑکیں ہیں۔ اہم ترین فرق یہ ہے کہ بس میں آپ چائے یا کافی پئیں بالکل بھی نہیں چھلکے گی۔ صاف ستھرا اور قانون کا پابند شہر ہے۔ گندگی نام کی کوئی چیز سڑکوں پر نہیں ملے گی۔ جگہ جگہ ڈسٹ بن ہیں۔ بڑے شہروں میں بھی دن میں دو مرتبہ ڈسٹ بن کو صاف کرنے گاڑی آتی ہے۔ بچوں کے لیے ہر محلے میں خوب صورت پارک اور جھولے ہیں‘ کھیل کے میدان ہیں۔
کرپشن‘ رشوت اور ڈاکہ زنی کا وجود نہیں ہے۔ خواتین رات کو بلا خوف خطر اکیلے سفر کرسکتی ہیں۔ موبائل چھیننا کیا ہوتا ہے اس سے یہاں کے لوگ بالکل لاعلم ہیں۔ ترکی کے لوگوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑی تعداد میں بھیجا جاتا ہے جن میں اکثریت واپس آکر اپنے ملک کی خدمت کرتی ہے۔
انتخابات کو اتنا شفاف بنا دیا گیا ہے کہ دھاندلی کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ جلسے‘ ریلیاں وغیرہ کے بارے میں قوم کو ایسی تربیت کی گئی ہے کہ سب ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں۔
اہم ترین کام جو اردگان صاحب نے کیا کہ مساجد میں امام کی تنخواہ حکومت دیتی ہے۔ علمائے کرام کی تربیت کا بہترین انتظام ہے‘ مسجد کے امام اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کی Selection اور تربیت کا انتظام کیا گیا ہے۔ ہر مسجد میں خواتین کے لیے علیحدہ طہارت‘ وضو خانہ اور نماز کی انتظام ہوتا ہے۔ گزشتہ بیس سال میں جو نسل جوان ہوئی ہے وہ ایک سال کی عمر سے ماں کے ساتھ مسجد جا رہی تھی اس لیے ان کے دل میں اللہ کے گھر کی عزت اور قدر ہے۔ مساجد کے لیے حکومت بہت زیادہ فنڈ دیتی ہے۔ہر مسجد کوخوب صورت‘ آرام دہ‘ ائر کنڈیشن اور ہیٹر سے آراستہ کیا گیا ہے۔ یہ سب چھوٹے شہروں میں بھی کیا گیا ہے۔
انصاف اور پولیس کا نظام سیاست سے بالکل الگ کر دیا۔ فوج صرف اپنا کام کرتی ہے‘ ان کی سیاسی مداخلت کو ختم کر دیا گیا ہے۔
اردگان صاحب نے خدمت اور انصاف کو اپنا مشن بنایا ہے۔
حکمت جسے قرآن نے مومن کی پہچان بتایا ہے‘ ان کو اللہ نے عطا کی ہے۔بین الاقوامی طور پر ترکی کی حیثیت کو بہت اہم کیا گیا ہے۔ اس سے بھی نوجوانوں میں جذبہ پیدا ہوا ہے۔
یہ وہ اہم باتیں ہیں جو ترکی کی انتخابی مہم کو دیکھ کر اور اس کا رزلٹ آنے کے بعد مختلف افراد ڈاکٹر‘ پروفیسر‘ مساجدکے امام‘ این جی اوز کے نمائندوں کی رائے لے کر آپ تک پہنچائی ہیں اور ان سب کی رائے ہے کہ مثبت باتیں اتنی زیادہ ہیں کہ الیکشن کا دوسرا رائونڈ جو کہ 28 تاریخ کو ہے‘ اردگان صاحب کے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر صدر منتخب ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔