ٹوئٹر، فیس بک، یوٹیوب بدستور اِس ہفتے بھی ’بھاری لوڈشیڈنگ‘ کا شکار رہے۔ لوگوں کو جب نشہ لگ جائے تو ایسے نہیں چھوٹتا۔ پابندی کا توڑ نکالنے میں دیر کہاں لگتی ہے! ویسے بھی عمران خان کی حمایت بیرونِ ملک پاکستانیوں میں کہیں زیادہ ہے اور وہ سارے فارغ بھی اتنے ہیں کہ مت پوچھیں۔ ایسی پابندیوں کے لیے وی پی این کا استعمال یعنی سادہ الفاظ میں آپ اپنے انٹرنیٹ برائوزر میں ایک ’ایڈ آن ایپلی کیشن شامل کرکے‘اپنی لوکیشن تبدیل کرلیتے ہیں، اور حکومت نے جس پلیٹ فارم تک رسائی پر پابندی اپنے ملک کی حدود میں لگائی ہوتی ہے، آپ اُس سے باہر جاکر وہ پلیٹ فارم استعمال کرلیتے ہیں۔ اس کو ’ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک‘کہتے ہیں۔ ایک VPN آپ کو کسی بھی ڈیوائس پر خفیہ طریقے سے بھیجتا ہے بشمول فون، لیپ ٹاپ، یا ٹیبلٹ۔ مطلب یہ آپ کو ایک مصنوعی محفوظ سرنگ کے ذریعے ایسی سہولت دیتا ہے کہ آپ جس سائٹ تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں اس کی طرف آپ کو بھیج دیا جاتا ہے۔ VPN آپ کے آلات کو سائبر مجرموں اور کسی کی نظروں سے بچانے کے لیے بھی ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس سے کسی کا یہ جاننا ممکن نہیں رہتا کہ آپ کن سائٹوں پر جارہے ہیں اور کون سا ڈیٹا منتقل کررہے ہیں۔ دنیا کے 10 بڑے وی پی این سروس پرووائیڈر نے بتایا ہے کہ پاکستان میں اس ماہ وی پی این استعمال کنندگان میں 846 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے علاوہ بھی دنیا بھر میں مجموعی طور پر وی پی این کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جس میں ترکی میں 99 فیصد صرف اس ہفتے الیکشن کی وجہ سے۔ اپریل کے آخری ہفتے میں برازیل میں قانونی تنازعات کی وجہ سے 192 فیصد، اور اٹلی میں 678فیصد اپریل کے پہلے ہفتے میں رہا ہے۔ امریکا میں مئی میں یہ اضافہ ممنوعہ/فحش ویب سائٹ تک رسائی کے لیے 1047فیصد رہا۔
یہ بھی بتادوں کہ وی پی این سائبر سیکورٹی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔وی پی این کا استعمال آپ کی رازداری کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اپنی آن لائن سرگرمی کو ایک طرح سے محفوظ رکھنے کا ایک طریقہ بھی ہے۔ حالیہ برسوں میں عالمی خطرات، بڑھتے ہوئے سائبر کرائم اور دور دراز کے کام کی طرف شفٹ ہونے کی وجہ سے افراد اور کاروبار دونوں ہی سائبر سیکورٹی اور پرائیویسی کے بارے میں بہت زیادہ فکرمند ہوگئے ہیں۔ اس وقت سب سے مقبول وی پی این سروس ساڑھے 3ڈالر ماہانہ پر نارڈ وی پی این کی ہے، اور سب سے سستی ڈھائی ڈالر ماہانہ پر ’صرف شارک‘ کی ہے۔
آپ کی آن لائن سرگرمی آپ کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کرسکتی ہے، بشمول حساس معلومات جو شناخت کی چوری یا ہیکنگ کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں۔ غلط ویب سائٹ پر کلک کرنے سے مال ویئر یا رینسم ویئر آپ کے سسٹم پر خودبخود ڈاؤن لوڈ ہوسکتا ہے۔ ایک ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک آپ کو انٹرنیٹ براؤز کرتے ہوئے آپ کے ٹریفک کو ماسک کرکے، اور آپ کے منتقل کردہ ڈیٹا کی حفاظت کرتا ہے۔
اس ہفتے جو کچھ سوشل میڈیا کی پوسٹوں میں چلتا رہا وہ یہی ثابت کررہا تھا کہ ’عمران خان کی اقتداری جدوجہد کا محور و مرکز پاکستانی قوم پرستی بن چکی ہے، جس میں اِسلام کا ہلکا سا تڑکا بھی شامل ہے‘۔ عمران کی مردانہ وجاہت، تقریری بڑھکیاں، کرکٹ سے وابستگی کے علاوہ ایک عوامی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ پی ڈی ایم جماعتوں کی طرح کسی خاندان کے نمائندے ہیں اور نہ ہی آنے والے دنوں میں ان کا خاندان کسی طرح اس سیاست پر راج کرسکے گا۔ عمران خان نے اپنے اقتدار کی خاطر موجودہ حکمرانوں پر کرپشن کے اتنے الزامات تواتر سے اور اس طرح (مطلب جلسوں، الیکٹرانک، پرنٹ و سوشل میڈیا کی مدد سے) عوام کے اذہان میں اُنڈیلے، پھر بعد ازاں اُنہوں نے خود وہ ’ریڈلائن‘ عبور کی، اسٹیبلشمنٹ کو جس طرح تنقید کا نشانہ بنایا تو ایسی بے باک ’حق گوئی‘ کی وجہ سے وہ اِس نظام کے نجات دہندہ بن کر سامنے آگئے۔ اب وہ پاکستانی اور ساتھ ساتھ اسلامی قوم پرستی کو بھی اپنے اقتدار کی تکمیل کے لیے استعمال کررہے ہیں۔
توشہ خانہ، القادر یونیورسٹی، زنا، غیر اخلاقی آڈیو لیکس سمیت جتنے بھی کرپشن کیسز آئے ہیں، عوام نے سب رد کردیے۔ ہمارے ایک دوست اِسی ہفتے عمرے کی ادائیگی کے بعد واپس آئے، انہوں نے بتایا کہ مکہ میں کئی ’ایلیٹ کلاس‘ فیملیز ملیں جو عمران خان کے لیے بڑے خلوص سے دُعائیں کررہی تھیں اور مزید پاکستانیوں کو کنونس بھی کررہی تھیں۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ عمران خان نے اپنی مقبولیت پاکستان کی مخصوص کلاس میں پیدا کی ہے جو کبھی بھی سیاسی عمل میں شامل نہیں ہوتی تھی۔ اب وہی مخصوص کلاس گھروں میں اپنے بااثر عہدوں پر فائز شوہروں، بھائیوں، باپوں پر کس طرح اثر ڈالتی تھی، اس کا صاف اشارہ سوشل میڈیا کی بے شمار پوسٹوں، تجزیوں میں ہمیں نظر آیا۔ تحریک انصاف کا اقتدار صوبے میں ہو یا مرکز میں، عمران خان کی ناکام لیڈرشپ کا مظہر رہا ہے۔ اس لیے کہ ان کی کوئی تنظیم نہیں ہے جو ان کے فیصلوں کو منوا سکے اور قابل عمل کرکے ان پر عمل درآمد کروا سکے۔ اِس لیے وہ برملا کہتے ہیں کہ وہ اقتدار کے باہر ایک طاقتور لیڈر ہیں، اور یہ اُنہوں نے بہت حد تک ثابت کیا ہے۔ عمران خان کی گرفتاری پر جو احتجاج ہوئے اور جس طرح پاک فوج، یہاں تک کہ ’اہم گھر‘ تک عوام پہنچ گئے، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ فوج یا پولیس وغیرہ اِس کے خلاف کوئی ردعمل کیوں نہ دے سکے؟ سوشل میڈیا بند رہا مگر اُس پر ’ویل اسکرپٹڈ‘ کی صدائیں گونجتی رہیں، یہ خبریں بھی گرم رہیں کہ فوج کی صفوں میں بھی خاموش رہنے سے انتشار ہوا۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ’اصل میں جنگ اندر کی ہے‘، بس اب یہ باتیں مستقل سوشل میڈیا کی بدولت زبان زدِ عام ہورہی ہیں۔ تحریک انصاف پر پابندی کی گونج مستقل کسی نہ کسی بہانے ٹاپ ٹرینڈ کی صورت سوشل میڈیا کا حصہ بنی رہی۔ دوسری طرف ’پاکستان کا فیصلہ عمران خان، زمان پارک پہنچو، آپریشن ردالفتنہ، عمران خان کو ہم لائیں گے، سانحہ 9 مئی کا مجرم عمران، شیریں مزاری، فواد چودھری، آئین بچاؤ پاکستان بچاؤ، عمران ریاض کی جان کو خطرہ، عمران ریاض کو رہا کرو، جیسے ٹرینڈ چلتے رہے۔ عدلیہ نے ویسے تو 10 مئی کو یعنی اگلے ہی دن عمران خان کو رہا کردیا، اس پر معاملہ اور گمبھیر ہوگیا۔ ہفتہ بھر بعد حکومت نے 9 مئی کے واقعے کے خلاف سخت ایکشن کا فیصلہ کیا تو گرفتاریوں سے ایک نئی ہلچل مچ گئی۔ گرفتاریاں اپنی جگہ، مگر فوج کے خلاف مستقل عمران کا بیانیہ زور پکڑتا رہا۔ رہائی کے بعد موصوف نے جو خطابات کیے، وہ اپنی مثال آپ تھے، جن میں یہ جملہ خاصا مقبول رہا کہ ’’آئی ایس پی آر صاحب جب آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے میں تب سے ملک کی نمائندگی کررہا ہوں۔‘‘ سوشل میڈیا تبصروں کے مطابق پنجاب جہاں فوج کی مخالفت ناممکن تھی وہاں عمران خان نے ’ریڈلائن کراس‘ کے نام پر وہ کچھ کر دکھایا کہ اب ہر سال 9 مئی کو ’یوم سیاہ‘ مناکر اس واقعے کو ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔سیاہ ‘ مناکر اس واقعے کو ہمیشہ یاد کیا جائیگا ۔ اس سے کم از کم یہ تو ظاہر ہو رہا ہے کہ اگلے سال 2024 میں کم از کم عمران خان کی حکومت سے تو یہ یوم سیاہ نہیں منوایا جائےگا۔ عمران خان شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کا اگلا دور خاصا مضبوط اور اسٹیبلشمنٹ پر قابو کا دور ہوسکتا ہے۔ ویسے یہ بھی پہلی دفعہ ہوا ہے کہ پاکستان میں فوج براہِ راست حکمرانی کے بغیر عوام میں اِنتہائی غیر مقبول ہوئی ہے۔
عمران خان کی گرفتاری اور رہائی کا واقعہ جس طرح رونما ہوا اس پر علاقائی قوم پرست جماعتوں نے فوری طور پر سوشل میڈیا پر بھرپور قسم کا ردعمل ظاہر کیا اور ایک منظم تشہیری مہم چلائی کہ اگر فوج پر یہ حملے کسی چھوٹے صوبے کے لیڈر نے کیے ہوتے تو فوج کا رَدعمل کچھ اور ہوتا۔ الطاف حسین نے اُس سے کم مخالفت کی تھی مگر مہاجر ہونے کی وجہ سے سیکڑوں مہاجرین کو قتل کردیا گیا اور الطاف حسین کو ملک بدر کردیا گیا۔ یہی نہیں عدالتی احاطے سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے پر جماعت اسلامی بلوچستان کے رہنما مولانا ہدایت الرحمٰن کے حوالے سے بھی سوشل میڈیا پر بیانیہ بھر دیا گیا۔ مولانا ہدایت الرحمٰن پر بھی عتاب اِتفاق سے فوج کے خلاف بے باک بیانیہ استعمال کرنے پر ہے، مگر وہ بیانیہ صرف گوادر کے مظلوم مچھیروں اور اہلِ بلوچستان کے ساتھ زیادتیوں اور ناانصافیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جماعت اسلامی نے اس ضمن میں سوشل میڈیا پر مستقل آواز بلند کی اور سپریم کورٹ کو رہائی کے آرڈر دینے پڑگئے۔
عمران خان کوئی انقلابی شخصیت نہیں ہیں، وہ تو اس نظام ہی کی اصلاح کے دعوے دار ہیں اور یہ کام سیاسی جدوجہد کے ذریعے کررہے ہیں۔ معاشی بدحالی، مہنگائی، ریاستی عدم اِستحکام، یہ وہ عوامل ہیں جو کسی بھی ریاست کی کمزوری کی علامت بن جاتے ہیں۔ عمران خان اپنے مفادات کے حصول کے لیے سیاست اور ریاست کو غیر مقبول، اور ریاستی اداروں کی کمزوریوں کو عیاں کررہے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ اسلامی تحریکوں کے لیے سنہری موقع ہے کہ وہ ایسے تضادات اور اداروں کے شدید ٹکراؤ کو اللہ کے قہر کا نتیجہ گردانیں، دینی حمیت کی بنیاد پر اِسے نظام کی خرابی کے فطری نتائج کے طور پر پیش کریں، سرمایہ دارانہ اداروں کو بدنام کریں اور اپنا اسلامی ماڈل پیش کریں جو کہ عملی طور پر پاکستان کو اِس معاشی دلدل سے بھی نجات دلائے۔ پاکستانی عوام کو باور کروائیں کہ اِسلام ہی میں اِن کی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے، اور ثابت کریں کہ پاکستان کا موجودہ نظام غیر اسلامی نظام ہے جس کے تحت زندگی گزارنا اور اِس پر مطمئن ہونا اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اِس پوری صورت حال میں اسلامی جماعتوں کا ردعمل بہت محتاط رہا ہے اور وہ اِس صورت حال سے اپنے مخالفین کے خلاف اور اپنے حق میں کوئی بیانیہ لانے میں ناکام رہی ہیں۔ ہاں یہ بیانیہ دینا کہ ’’ہم ہی اس نظام کی انتہائی ایمان داری سے، دیانت داری سے خدمت کرسکتے ہیں اور ہم نے ماضی میں جب موقع ملا تو ایسی خدمت کرکے بھی دکھائی ہے‘‘ اس کو مزید ترویج دینے کی ضرورت محسوس ہوئی، کیونکہ اسلامی قیادت اس نظام میں اپنے صاف کردار، ریاستی کرپشن میں ملوث نہ ہونے کی وجہ سے مقبول ضرور ہوئی ہیں، جس کی تائید کئی بار مخالفین نے بھی کی ہے، مگر بہرحال عوام میں اب تک مقبول نہیں ہوسکے۔ جمعیت علمائے اسلام کے پاس اسٹریٹ پاور ہے مگر اس نظام میں شریک ہونے کی وجہ سے اِن پر کرپٹ حکمرانوں کا ساتھ دینے اور کرپشن میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ جماعت اسلامی جو کہ اسلامی جماعتوں میں سب سے منظم جماعت ہے، اس کی اسٹریٹ پاور 2000ء کی دہائی تک مانی جاتی تھی اور ہر تحریک کا ہراول دستہ ہوتی تھی۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی محسوس ہوتی ہے کہ غیر سیاسی اسلامی جماعتوں کو غلبہ دین کے مقصد کے لیے یکجا کیا جائے، سیکولر و اسلام دشمنی پر مبنی اقدامات کے خلاف بھرپور مؤقف اپنایا جائے تاکہ اسلامی حمیت پیدا ہوسکے۔ سوشل و الیکٹرانک میڈیا نے جہاں دیگر معاشرتی اثرات مرتب کیے ہیں، وہیں سب سے خطرناک بات معاشرے سے دینی حمیت کو ختم کرنا ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر پوسٹوں کا جائزہ لیں تو یہی بات سامنے آئے گی کہ سیاسی و غیر سیاسی اسلامی جماعتوں کے ایجنڈے پر دینی اقدار، دینی حمیت، دینی شعائر کسی بھی ترجیح میں نہیں ہیں، اور لوگ اُن سے اگر توقع رکھتے ہیں تو اِسی کی رکھتے ہیں۔
اس ہفتے ترکیہ کے انتخابات کا پہلا دور بھی چلا، صدر اردوان 49 فیصد ووٹوں کے ساتھ خاصا آگے رہے، مگر 50 فیصد ووٹ لینا فتح کےلیے لازمی ہے، اس لیے اب دوبارہ صرف 2 امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ 28 مئی کو ہوگا۔ امکان یہی ہے کہ صدر اردوان اس مرحلے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے کیونکہ پہلے مرحلے میں ووٹوں کا فرق 5 فیصد سے زائد رہاتھا۔ سوشل میڈیا پر پاکستانیوں کی طرف سے صدر اردوان کی بھرپور حمایت کا سلسلہ جاری رہا۔ مجلسِ ملت (قومی اسمبلی ) کی 600 نشستوں میں صدر اردوان کی انصاف و ترقی پارٹی نے 323 نشستں جبکہ حزب اختلاف کے قومی اتحاد نے 212 نشستوں پر کامیابی حآصل کی ہے۔ ترک آئین کے مطابق ریاستی معاملات میں مذہب کا دخل ایک بغاوت جانا جاتا ہے جس کی سخت سزائیں ہیں۔ سیکولرازم اس مملکت کی بنیاد ہے جسے کسی صورت تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہے خلافت سے ریاست میں تبدیل ہونے کے بعد کا جبر، جس کو سمجھنے کی ضرورت ہر اُس باشعور مسلمان کو ہونی چاہیے جو دین کا غلبہ چاہتا ہو۔