انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس( آئی سی آر سی) کے زیر اہتمام سندھ اور بلوچستان سے شائع ہونے والے دینی جرائد اور اخبارات سے تعلق رکھنے والے مدیران کے لیے مقامی ہوٹل میں مسلح تصادم اور ہنگامی حالات میں صحافت کے عنوان سے دو روزہ قومی میڈیا ورکشاپ کاانعقاد کیا گیا۔
ورکشاپ میں کراچی، سندھ اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دینی جرائد کے مدیران اور اخبار کے رپورٹرز اور خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تفصیلات کے مطابق انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس( آئی سی آر سی) کے اشتراک سے16تا17مئی کراچی کے مقامی ہوٹل میں مسلح تصادم اور ہنگامی حالات میںرپورٹنگ اور تجزیہ کرنے والے دینی جرائد کے مدیران کی صلاحیتوں اور استعدادِ کار کو بہتر بنانے کے لیے دو روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔
دو روزہ ورکشاپ میں دینی صحافت کے مشہور جرائد کے مدیران کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ورکشاپ کے مختلف سیشنوں کے درمیان لیکچرز اور شرکا کو بے لاگ تبصرہ کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ شرکا مجلس سے ورکشاپ کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے تاکہ ان کے رجحانات او تجزیاتی صلاحیت کا اِدراک کیا جاسکے۔
ورکشاپ کے انتظامات انتہائی معیاری اور سہولیات سے بھرپور تھے۔ سندھ اور بلوچستان سے آئے ہوئے شرکا کومقامی ہوٹل میں اعلیٰ رہائش طعام کا اہتمام کیا گیا تھا۔
دو روزہ ورکشاپ کے پہلے روز انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے ریسرچ فیلو سید ندیم فرحت نے ورکشاپ سے متعلق شرکا کو آگاہ کیا ،انہوں نے ابتدائی گفتگو میں کہا کہ ورکشاپ کا مقصد قدرتی آفات اور مسلح تصادم کی رپورٹنگ، تجزیہ کے حوالے سے دینی جرائد کی استعداد کو بڑھانا اور اس دوران انسانی خدمات انجام دینے والی تنظیموں کے تعارف کروانا ،مدیران جرائد کو عصر حاضر کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے روشناس کرانا شامل ہے۔
ورکشاپ میں دینی صحافت کے مدیران کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے،پہلے روز کے افتتاحی سیشن سے ریجنل ایڈوائزر برائے شریعہ، انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس( آئی سی آر سی) ڈاکٹر ضیااللہ رحمانی نے ریڈ کراس اور ہال احمر تحریک، انسان دوستی اور بین الاقوامی قانون کے حوالے سے شرکا کو آگاہ کیا۔
پہلے روز کے دوسرے سیشن سے ہیلپنگ ہینڈز فار ریلیف اینڈ ڈیولپمنٹ کے فواد احمد شیروانی نے انسانی المیے کی مختلف صورتیں اور انسانی زندگی کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔
کراچی پریس کلب کے سابق سیکرٹری و سینئر صحافی عامر لطیف نے انسانی المیے اور انسان دوست خدمات کی رپورٹنگ اور تجزیے میں درکار احتیاط کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی انہوں نے ملٹی میڈیا کے ذریعے مسلح تصادم اور ہنگامی حالات میں کی جانے والی رپورٹنگ کے حوالے سے اپنے تجربات پیش کیے۔
دو روزہ ورکشاپ کے پہلے روز کے تیسرے سیشن سے نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر و سینئر صحافی فیض اللہ خان نے پیچیدہ انسانی المیہ، ہمہ جہتی تعارف کے موضوع پر اظہار خیال کیا۔
اسی طرح تیسرے سیشن کے پہلے روز سینئر صحافی شبیر سومرو نے ہنگامی حالات میں معلومات کا حصول، انتخابات اور استعمال کے مختلف پہلو کو اجاگر کیا۔
ورکشاپ کے دوسرے روز کے چوتھے سیشن میں سید ندیم فرحت کے زیر صدارت انسانی خدمات کے ادارے اور ان کے بنیادی اصول کے موضوع پر شرکا کے ساتھ اسٹڈی سرکل کا انعقاد کیا ،جس میں شرکاسے گزشتہ روز ہونے والے سیشن کے بارے میں حاصل مطالعہ کے حوالے سے ڈسکشن کیاگیا۔
چوتھے سیشن سے ڈاکٹر محمد بلال صدیقی نے طبی عملے اور سہولیات کا تحفظ اور ملکی قانون کے حوالے سے شرکا کو آگاہ کیا،اسی طرح سینئر صحافی محمد طاہر نے انسان دوست صحافت کے ذریعے انسانی خدمت پر اپنے خیالات کا اظہارکیا۔
انہوں نے کہاکہ اسلامی رسالوں کو جدید آلات اور رپورٹنگ کے آداب سے لیس کرنے کی ضرورت ہے۔دوسرے روز کے پانچویں سیشن سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کے جی ایم آپریشنز نوفل شاہ رخ اور سید ندیم فرحت نے مسلح تصادم اور ہنگامی حالات سے متعلق مشاہدات اور دی گئی صورت حال سے متعلق خبر اور تجزیہ لکھنے کے حولاے سے عملی مشق کرائی۔
ورکشاپ کے دوسرے اور اختتامی سیشن سے آئی سی آر سی ہیڈ آف ڈیلیگیشن برائے پاکستان نکولا لیمبرٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ میں امریکہ اور افریقہ میں اپنی خدمات پیش کرنے کے بعد پاکستان میں فروری کے مہینے سے آئی سی آر سی ہیڈ کے طور پر کام کررہا ہوں۔
ہمارے خدمت کے بہت سارے کام مسلم ممالک میں ہورہے ہیں،جبکہ ہمارا بہت سارا عملہ مسلمان ممالک پر مشتمل ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم بغیر کسی رنگ ونسل کے انسانیت کی خدمت کا کام سرانجام دے دہے ہیں،ہمارا ادارں کسی پر کوئی زور زبردستی نہیں کرتا ہے،ہم نے اس طرح کی ورکشاپ کے ذریعے سیکھنے اور سیکھانے کے عمل کو جاری رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں لوگوں کی مدد کے لیے ہمارے رضا کار پہنچ جاتے ہیں، میں ورکشاپ میں شریک تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آخر میں شرکا سے ورکشاپ کے حوالے سے تاثرات لیے گئے اورانہیں تحائف و اسناد پیش کیے گئے۔
حضرت عمرؓ کا خطبہ اپنی سختی کے بارے میں
لوگ خوف زدہ ہیں، اور میری درشتیِ طبع سے ڈرتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ عمر اْس وقت بھی ہم پر سختی کرتا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے، اور اْس وقت بھی سختی کرتا تھا جب ابوبکرؓ ہمارے خلیفہ تھے، اب تو تمام اختیارات اس کے پاس چلے گئے ہیں، اب نہ جانے اس کی سختی کا کیا حال ہوگا۔
تو سن لیجیے کہ جس شخص نے بھی یہ بات کہی ہے اس نے سچ کہا ہے۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا تو آپؐ کا غلام اور خادم رہا، یہاں تک کہ آپؐ بحمدللہ مجھ سے راضی ہوکر دنیا سے تشریف لے گئے۔ اور اس معاملے میں مَیں تمام لوگوں سے زیادہ خوش قسمت ہوں۔ پھر ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالی تو میں اْن کا خادم اور مددگار رہا، میں اپنی سختی کو اْن کی نرمی کے ساتھ ملائے رکھتا تھا۔ اور اْس وقت تک ننگی تلوار بنا رہتا تھا جب تک وہ مجھے نیام میں نہ کردیں، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں بھی اس حال میں اٹھایا کہ بحمداللہ وہ مجھ سے راضی تھے، اور میں اس معاملے میں تمام لوگوں سے زیادہ خوش قسمت ہوں۔
اب مجھے تمہارے معاملات سونپے گئے ہیں، یاد رکھو کہ اب اس سختی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، لیکن یہ صرف اْن لوگوں کے لیے ہے جو مسلمان پر ظلم اور زیادتی روا رکھیں۔ رہے وہ لوگ جو دین دار، راست رو اور سلیم الفکر ہیں، میں اْن پر خود اْن سے زیادہ نرم ہوں، ہاں البتہ جو شخص کسی پر ظلم کرنا چاہے میں اْسے اْس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک اْس کا ایک رخسار زمین سے ملاکر اس کے دوسرے رخسار پر پائوں نہ رکھ دوں اور وہ حق کا اعلان نہ کردے۔
لوگو! تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تمہاری اجتماعی آمدنی میں سے ایک حبہ تم سے نہ چھپائوں، اور تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تمہیں ہلاکت میں نہ ڈالوں، اور جب تم مسلمانوں کے کام کی وجہ سے گھر سے باہر ہو تو جب تک تم لوٹ نہ آئو، میں تمہارے بچوں کا باپ بنارہوں۔
یہ کلمات کہہ کر میں اپنے اور تمہارے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں‘‘۔
(مفتی محمد تقی عثمانی۔ تراشے)