جب اس نے اپنی روئداد ختم کی تو تورج کچھ دیر بے حس و حرکت بیٹھا اس کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’سین اگر میں اس وقت خواب نہیں دیکھ رہا اور تم واقعی میرے سامنے بیٹھے ہو… اگر قیصر کا کوئی ایلچی تمہارے پاس تھا اور قیصر سے تمہاری ملاقات ہوئی تھی اور اگر تم مجھے اپنا دوست اور خیر خواہ سمجھتے ہو تو میرا مشورہ ہے کہ تم جس راستے سے یہاں آئے ہو اسی راستے واپس چلے جائو۔ میں بھی تمہاری طرح جنگ جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہوں۔ ہم قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لیے جتنے سپاہیوں کی قربانی دیں گے وہ ہمارے لیے کئی اور ملک فتح کرسکتے ہیں، لیکن کسریٰ کے سامنے امن اور صلح کی تجاویز پیش کرنا ایک حماقت ہے۔ کاش تمہیں یہ معلوم ہوتا کہ اس میں کتنی تبدیلی آچکی ہے، وہ اپنی مرضی کے خلاف کوئی نصیحت یا مشورہ سننا پسند نہیں کرتا۔ یہاں اجازت کے بغیر تمہاری آمد بھی اس کے لیے ناقابل برداشت ہوگی‘‘۔
سین نے اُٹھتے ہوئے جواب دیا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ میں نے یہاں آکر آپ کو پریشان کیا۔ میں اب آپ کو تکلیف دینے کی بجائے مہمان خانے میں قیام کروں گا۔ اور یہ بات کسی پر ظاہر نہیں ہوگی کہ میں یہاں آیا تھا۔ لیکن کسریٰ کے پاس ضرور جائوں گا‘‘۔
تورج زخم خوردہ سا ہو کر اُٹھا اور سین کا ہاتھ پکڑ کر اسے زبردستی کرسی پر بٹھاتے ہوئے بولا۔ ’’میرے دوست! میرا یہ مطلب نہ تھا تم میرے پاس ٹھہرو گے… اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ یہ سمجھتے ہوئے بھی تمہاری تائید کروں گا کہ تم غلطی کررہے ہو‘‘۔
عاصم نے جواب دیا…’’نہیں، ہم صرف اس شرط پر آپ کے پاس ٹھہریں گے کہ آپ اس معاملہ سے بے تعلق رہیں‘‘۔
’’اگر تمہاری خوشی اسی بات میں ہے تو مجھے یہ شرط منظور ہے‘‘۔
تھوڑی دیر بعد یہ لوگ ایک پُرتکلف دسترخوان پر بیٹھے ہوئے تھے اور تورج اپنے دوست کے ساتھ اس زمانے کی باتیں کررہا تھا جب انہوں نے پرویز کے ساتھ فرار ہو کر روم کے ایک سرحدی قلعے میں پناہ لی تھی۔
اگلے دن سین شاہی ابوان کے ایک کشادہ کمرے میں اپنے فرمانروا کی مسند کے سامنے کھڑا تھا پرویز کے دائیں ہاتھ دو حسین و جمیل لونڈیاں سونے کی صراحی اور ساغر اُٹھائے کھڑی تھیں۔ محل کا داروغہ چند اہل کار اور مسلح سپاہی سین سے چند قدم پیچھے دروازے کے قریب کھڑے تھے۔ پرویز نے کچھ دیر اپنی سفاک نگاہوں سے سین کی طرف دیکھا۔ پھر اس نے دائیں طرف دیکھ کر ہاتھ سے اشارہ کیا اور ایک لونڈی نے سنہری طشت جس میں ارغوانی شراب کا ساغر چھلک رہا تھا، آگے بڑھادیا۔ پرویز نے جواہرات سے مرصع ساغر اُٹھا کر شراب کے چند گھونٹ پئے اور اسے دوبارہ طشت میں رکھتے ہوئے سین کی طرف متوجہ ہوا۔
’’جہاں تک ہمیں علم ہے تمہیں قسطنطنیہ فتح کرنے سے پہلے اپنا محاذ چھوڑنے کی اجازت نہ تھی۔ اگر ہماری حکم عدولی کی وجہ یہ ہے کہ تم کوئی خوشی کی خبر لائے ہو تو تمہیں کل یہاں پہنچتے ہی ہمارے سامنے پیش ہونا چاہیے تھا‘‘۔
سین نے جھجکتے ہوئے کہا۔ ’’عالیجاہ! یہ غلام آپ کی حکم عدولی کا خیال بھی اپنے دل میں نہیں لاسکتا۔ میں ایک اہم خبر لایا ہوں۔ میں نے یہ محسوس کیا تھا کہ میرا کسی تاخیر کے بغیر حضور کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے‘‘۔
پرویز نے کہا۔ ’’قسطنطنیہ کی فتح کے سوا ہمارے لیے کوئی اور خبر اہم نہیں ہوسکتی‘‘۔
’’عالیجاہ! میں شرمسار ہوں کہ میں قسطنطنیہ کی فتح کا مژدہ لے کر نہیں آیا۔ لیکن میں آپ کو یہ خوشخبری دے سکتا ہوں کہ ہم نے جس مقصد کے لیے تلوار اٹھائی تھی وہ حاصل ہوچکا ہے۔ قیصر ہار مان چکا ہے اور وہ مزید تباہی سے بچنے کے لیے ہماری ہر شرط ماننے کے لیے تیار ہے۔ اگر اس کے لیے دست گرد کا راستہ مسدود نہ ہوتا تو وہ بذات خود یہاں پہنچ کر آپ سے صلح کی بھیک مانگتا۔
کسریٰ کی حالت اس درندے کی سی تھی جو زخم کھانے کے بعد گہری نیند سے بیدار ہوا ہو۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’ہم نے تمہیں قیصر کو پابہ زنجیر یہاں لانے کا حکم دیا تھا اور تم اس کے ایلچی بن کر آگئے ہو۔ تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی؟‘‘
’’عالیجاہ! میں کئی سال کی ناکام کوششوں کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوںکہ ہم آبنائے باسفورس کا پانی ایرانی سپاہیوں کے خون سے سرخ کیے بغیر قسطنطنیہ پر قبضہ نہیں کرسکتے۔ اگر اس جنگ کا مقصد ایران کا لوہا منوانا ہے تو ہمیں یہ مقصد حاصل ہوچکا ہے۔ اگر قیصر ایران کے ایک ادنیٰ باجگزار کی حیثیت سے آپ کی پناہ میں آجائے اور اسے آپ کی شرائط منظور ہوں جو کسی شکست خوردہ دشمن کی شہ رگ پر تلوار رکھ کر منوائی جاسکتی ہے تو مجھے ایسی جنگ جاری رکھنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا جس کے نتائج کے متعلق سردست کوئی بات پورے یقین کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی۔ رومیوں کی موجودہ بے بسی کی وجہ یہ ہے کہ ان کی شمال مغربی سرحدوں پر وحشی قبائل نے تباہی اور بربادی کا ایک طوفان برپا کر رکھا ہے اور وہ ہلاکت سے بچنے کے لیے ہماری پناہ میں آنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ وحشی ہمیشہ کے لیے ان کے دشمن بنے رہیں۔ قیصر ہم سے مایوس ہو کر ان کی طرف دیکھے گا اور یہ ممکن ہے کہ کسی دن وہ آپس میں صلح کرلیں اور ہمیں ان کی متحدہ قوت کا سامنا کرنا پڑے۔ شاید آپ کو یہ علم نہ ہو کہ ایرج جو خاقان کے پاس دوستی کا پیغام لے کر گیا تھا۔ ان کے ہاتھوں قتل ہوچکا ہے‘‘۔
کسریٰ نے اضطراب کی حالت میں ساقی کے طشت سے شراب کا جام اُٹھایا اور جلدی سے خالی کرنے کے بعد کہا۔ ’’یہ ناممکن ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا، خاقان میں یہ جرأت نہیں ہوسکتی‘‘۔
’’عالیجاہ! اگر آپ کو یقین نہیں آتا۔ تو میں اس شخص کو آپ کے سامنے پیش کرسکتا ہوں جس نے اپنی آنکھوں سے اسے قتل ہوتے دیکھا تھا‘‘۔
’’تم یہ سمجھتے ہو کہ ایرج کے قتل کی خبر سن کر ہم مرعوب ہوجائیں گے؟‘‘
’’نہیں عالیجاہ! میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ رومی اگر ہماری شرائط مان لیں تو ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے لیکن آوار کسی کے دوست نہیں بن سکتے‘‘۔
پرویز نے سوال کیا۔ ’’تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ ہرقل ہماری تمام شرائط مان لے گا‘‘۔
’’عالیجاہ ہرقل کے ایلچی حضور کی قدم بوسی کے لیے یہاں پہنچ چکے ہیں اور وہ صلح کی شرائط طے کرنے کے لیے مکمل اختیارات لے کر آئے ہیں‘‘۔
کسریٰ کی رگوں کا سارا خون سمٹ کر اس کے چہرے میں آگیا اور اس نے غصے اور اضطراب سے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ ’’وہ کس طرح یہاں پہنچ گئے… وہ کہاں ہیں؟‘‘
سین نے اطمینان سے جواب دیا۔ ’’عالیجاہ! وہ میرے ساتھ آئے ہیں اور شاہی مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے ہیں‘‘۔
کسریٰ کی نگاہیں سین سے ہٹ کر اس سے چند قدم پیچھے محل کے داروغہ پر مرکوز ہوگئیں۔ وہ لرزتا ہوا آگے بڑھا اور سراپا التجا بن کر چلایا۔ ’’عالیجاہ! میں بے قصور ہوں۔ مہمان خانے کے ناظم نے مجھے صرف یہ بتایا تھا کہ سپہ سالار کے ساتھ چند متمول تاجر آئے ہیں اور وہ جہاں پناہ کو تحائف پیش کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
کسریٰ کی قوت برداشت جواب دے چکی تھی۔ وہ کچھ دیر بے حس بیٹھا سین کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے سوال کیا۔ ’’تم کب سے قیصر کے ساتھ صلح کی بات کررہے تھے اور تمہارے پاس اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اسے ہماری ہر شرط قبول ہوگی‘‘۔
’’عالیجاہ! اگر صرف قیصر کے ایلچی میرے پاس آتے تو میں انہیں منہ لگانے کی جرأت نہ کرتا۔ میں اس لیے یہاں حاضر ہوا ہوں کہ قیصر بذاتِ خود آپ کے اس ادنیٰ غلام کے پاس حاضر ہوا تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں نے اس کا پیغام آپ تک پہنچانے میں کوتاہی کی تو آپ شاید مجھے قابل معافی نہیں سمجھیں گے‘‘۔
کسریٰ اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ساقی نے جلدی سے آگے بڑھ کر شراب کا جام پیش کیا لیکن اس نے غصے سے ہاتھ مارا اور سنہری جام چند قدم دور جاگرا۔ چند ثانیے بعد وہ دوبارہ مسند پر بیٹھ گیا اور بولا۔ ’’ہرقل تمہارے پاس آیا تھا؟‘‘
’’ہاں عالیجاہ! میں جھوٹ نہیں کہتا۔ میری روانگی سے تین دن قبل سمندر کے کنارے ہماری ملاقات ہوئی تھی‘‘
’’جب وہ تمہارے پاس آیا تھا تو ہماری فوج کہاں تھی؟‘‘
’’فوج پڑائو میں تھی عالیجاہ! اور ہماری ملاقات پڑائو سے کچھ دور سمندر کے کنارے ہوئی تھی‘‘۔
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے ہرقل کے ساتھ پہلے سے خفیہ ملاقات کا انتظام کر رکھا تھا‘‘۔
’’عالیجاہ! میں نے اس کے ایلچیوں کے ساتھ ملاقات کرنا قبول کیا تھا اور ہر قتل کو اس ملاقات کے بعد میرے پاس آنا تھا، لیکن وہ انتظار نہ کرسکا اور رات کے وقت جب اس کے ایلچی میرے پاس پہنچے تو ہرقل ان کے ساتھ تھا‘‘۔
’’اور تم اسے گرفتار نہ کرسکے، تمہیں ہمارا یہ حکم یاد نہ رہا کہ ہم اسے پابہ زنجیر دیکھنا چاہتے ہیں‘‘۔
’عالیجاہ! وہ اپنے ہتھیار پھینک کر میرے پاس آیا تھا اور میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ان حالات میں آپ اس کی گرفتاری پسند فرمائیں گے‘‘۔
’’اسے یہ اطمینان تھا کہ تم اسے گرفتار نہیں کرو گے؟‘‘
’’عالیجاہ! وہ یہ جانتا تھا کہ مٰں ایک شہنشاہ کا خادم ہوں اور میرا شہنشاہ ایک گرے ہوئے دشمن پر ہاتھ اٹھانا پسند نہ کرے گا‘‘۔
’’تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ ایک عیسائی عورت کے شوہر سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ ہرقل کی محبت نے تمہیں ہمارا غدار بنادیا تھا۔‘‘
’’عالیجاہ!‘‘
’’خاموش، تم ہمیں دھوکا نہیں دے سکتے، ہم جانتے ہیں کہ قسطنطنیہ اب تک صرف تمہاری غداری کے باعث فتح نہیں ہوا۔ تم ابتدا سے اس جنگ کے مخالف تھے۔ ہم نے مقدس کاہنوں کے مشورہ کے خلاف تم پر اعتماد کیا اور تم نے ہمیں رعایا کے سامنے شرمسار کیا۔ اب تم واپس جا کر ہمارے دشمن سے اس غداری کا صلہ حاصل نہیں کرسکو گے‘‘۔
(جاری ہے)