ابھی جمال اور کمال اپنی بات اور محسوس ہونے والے کچھ اندازوں پر غور ہی کر رہے تھے کہ سامنے والی میز پر بیٹھے لوگوں کو اپنی اپنی نشستوں پر کسی کی آمد پر احتراماً کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا۔ جمال اور کمال نے ان کی نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے دیکھا تو انھیں ایک ایسی شخصیت دکھائی دی جس کی جانب انھیں غور سے دیکھتے چلے جانے پر مجبور ہونا ہی پڑا۔ وہ اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کے ساتھ ساتھ مطلوبہ میز تک آجانے تک مسلسل دیکھتے رہے اور کچھ دیر کے لیے یہ بات بھی بھول گئے کہ ان کے ساتھ ان کے والد صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں اور آنے والے کو مسلسل دیکھے جانے پر وہ جمال اور کمال کا بڑے بھر پور طریقے سے جائزہ لے رہے ہیں۔ جیسے ہی جمال اور کمال کی نظر اس آنے والے کی جانب سے ہٹی، اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ جمال اور کمال کے والد نے ان کی جانب سے ہٹائی اور پانی کی اس بوتل کی جانب ہاتھ بڑھادیا جو ان کی میز پر ان کی آمد سے بھی پہلے کی رکھی ہوئی تھی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس بات کو جمال اور کمال کی شاطرانہ نگاہیں بھی ٹھیک سے نہ بھانپ سکیں۔
جمال اور کمال آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے جیسے پوچھ رہے تھے کہ آنے والے کے متعلق جیسا میں سوچ رہا ہوں کیا ہم دونوں بھی ایسا ہی سوچ رہے ہیں جس پر دونوں جانب سے یہی جواب آیا کہ جناب ہم دونوں ایسا ہی سوچ رہے ہیں۔ جمال اور کمال کے والد نہایت کمالِ ہوشیاری کے ساتھ ایسے بن گئے جیسے انھوں نے جمال اور کمال کی بدلتی کیفیت کو دیکھا ہی نہ ہو۔ کچھ دیر کے بعد وہ واش روم جانے کا اشارہ کرکے اٹھ گئے۔ ان کے جاتے ہی جمال نے کمال سے کہا کہ سب سے عجیب بات یہ ہے یہ جو شخصیت ان تین آدمیوں کے پاس آکر بیٹھی ہے اس کے چہرے کے علاوہ ہر ہر عضو ہمارا دیکھا ہوا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اسے ہم نے خواہ ایک بار ہی دیکھا ہو، یہ سو فیصد دیکھا ہوا سا لگتا ہے۔ تو کیا جس شخص کو ہم انسپکٹر ملک احمد کے ساتھ دیکھتے رہے ہیں اس نے اپنا چہرہ کسی اور سے بدل لیا ہے۔ کمال نے کہا کہ جو بات تم مجھ سے کہہ رہے ہو، وہی بات میں تم سے کہنے والا تھا۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم نے دیکھا مرد ہو اور وہ عورت کی شکل اختیار کر لے بس اس شخصیت میں جو ملک احمد خان کے ساتھ دیکھی تھی اور جو ہمارے سامنے ہے، صرف چہرے کا فرق ہو۔ کمال نے جمال کی بات سن کر کہا ایک بات ایسی ہے جس پر مزید غور کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ سامنے بیٹھی ہوئی شخصیت اور ملک احمد خان کے ساتھ گھومنے پھرنے والا فرد جڑواں بہن بھائی ہوں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ایک بات کی اور تصدیق کر لیں تو اچھا ہے۔ اچھا ہے کہ ہمارے والد صاحب بھی واش روم کی جانب گئے ہوئے ہیں ورنہ جو کچھ میں کرنے جا رہا ہوں شاید وہ مجھے ایسا نہ کرنے دیتے۔ یہ کہہ کر جمال، کمال کو اشارہ کرکے اپنی نشست سے یہ کہتے ہوئے اٹھ گیا تم اس خاتون کے ردِ عمل کو بہت غور سے دیکھتے رہنا اور اس میز کی جانب بڑھ گیا جس پر آنے والی مشکوک خاتون آکر بیٹھی تھیں۔ اس کی کرسی کی پشت کے قریب پہنچ اس نے لڑکھڑانے کی اداکاری کرتے ہوئے اپنا قیمتی قلم اس کی گود میں اس طرح اچھال دیا جیسے اس کے لڑکھڑانے کی وجہ سے وہ قلم سہواً اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا ہو۔ جیسے ہی قلم بیٹھی خاتون کی گود میں گرنے کے قریب ہوا تو اس نے غیر ارادی طور پر اپنی دونوں ٹانگوں کو اس طرح پھیلایا کہ قلم زمین پر گرنے کی بجائے اس کے اسکرٹ پر محفوظ طریقے سے جا گرا۔ جمال نے زبردست طریقے سے سنبھل جانے کی اداکاری کرتے ہوئے خاتون سے معذرت کی جو بظاہر تو قبول کر لی گئی لیکن اس کی آنکھوں میں شک کی ایک ایسی لہر ابھری جس کو جمال کی تیز نگاہیں بھی نہ بھانپ سکیں۔ قلم جمال کو واپس کر دیا گیا جس کو اس نے تشکرانہ انداز اور اچھے کلمات کے ساتھ لے لیا۔ جمال کارروائی ڈال کر اپنی سیٹ پر واپس آ چکا تھا لیکن جمال اور کمال کے والد صاحب ابھی تک اپنی نشست پر لوٹ کر نہیں آئے تھے جس پر دونوں ہی کو بڑی تشویش ہونے لگی تھی۔
کیوں نہ ہم واش روموں کی جانب چلیں تاکہ والد صاحب کا معلوم ہو سکے کہ ان کے ساتھ کچھ ہوا تو نہیں جو اب تک نہیں لوٹے۔ یہ کہہ کر جیسے ہی وہ دونوں اپنی اپنی نشستوں سے اٹھے، انھوں نے محسوس کیا کہ لان میں موجود دو تین افراد ان کے ساتھ اٹھے ہوں۔ دونوں نے ایک دوسرے کو معنی خیز انداز میں دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں تعجب کا اظہار اور محتاط رہنے کا اشارہ کیا۔ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے جیسے ہی وہ واش روم ایریے میں داخل ہوئے پورے لان کی بجلی چلی گئی اور ہر جانب گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتے یا ان کی آنکھیں اندھیرے کی عادی ہو کر دور سے آنے والی روشنی میں کچھ دیکھنے کی عادی ہو جاتیں، بہت مضبوط ہاتھوں نے نہ صرف ان کو اپنی گرفت میں لے لیا بلکہ ان کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بھی باندھ دی گئی اور سرگوشیانہ انداز میں کہا کہ منہ سے آواز نہ نکلے۔ جمال اور کمال بے شک مارشل آرٹ کے تربیت یافتہ تھے لیکن ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، اس کی توقع تک بھی توقع نہیں تھی۔ ان کو گرفت میں لینے والوں نے جس پھرتی اور چابک دستی کے ساتھ ان کو قابو کیا وہ نہایت تربیت یافتہ اور مضبوط لوگ رہے ہونگے۔ جمال اور کمال، دونوں نے بیک وقت سوچا کہ ممکن ہے ان کے والد صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا ہو لہٰذا اب انتظار اور حالات کے دھارے پر اپنے آپ کو حوالے کر دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ (جاری ہے)