’’السلام علیکم! عید مبارک…‘‘
’’کیا بھئی، دوقدم پہ تو گھر ہے مگر عید پہ نہ ملنے کی تو جیسے قسم کھالی سب نے، ایسی بھی کیا بے مروتی!‘‘
طلعت باجی قریبی کلینک جاتے ہوئے زارا سے ملیں تو سرِراہ ہی شکوہ کرنے لگیں۔
سلام اور مبارک باد کے بعد زارا کھسیانی سی ہنسی ہنسی پھر گویا ہوئی ’’باجی! پہلے تین سے چار دنوں میں سسرال کی خاندانی دعوت اور جوابی دعوت میں فرصت نہ ملی، پھر اچانک دونوں بچوں کی طبیعت بگڑگئی۔ دراصل مرغن کھانوں کی اتنی عادت نہیں ہے نا، بس اب ڈاکٹر کے چکر لگ رہے ہیں… آپ سنائیں آپ بھی کچھ بیمار لگ رہی ہیں۔‘‘
’’ارے ایسی ویسی بیمار… بخار سے چاردن میں نڈھال ہوگئی ہوں، پیدل آنے کی ہمت نہیں تھی، دوگلی کا فاصلہ ہے، بیٹا بائیک پہ چھوڑ کرگیا ہے، دیکھو رمضان بھر قرآنی کلاسز میں روز ملتے رہے، مصروفیت ہی میں دوگھڑی مل لیا کرتے تھے، اب تو شوال کا چاند بھاری پڑنے لگا ہے… رشتے داروں کی خاطر مدارات کے چکر میں ہمسائے تو جیسے اجنبی ہوگئے ہیں۔‘‘
طلعت کلینک میں باری کے انتظار میں بیٹھتے ہوئے بولیں ’’جی ایسا ہی ہے، ان کی بڑی باجی کے یہاں دوسرے دن دعوت تھی… چار سے پانچ ڈشز تھیں یخنی پلائو، شامی کباب، شیرسویاں، گلاوٹی قیمہ اور چکن کڑاہی… پھر کیک اور مٹھائی الگ۔ بچے گھر میں اتنا کم کھاتے ہیں مگر وہاں ہلے گلے میں ایسا ڈٹ کر کھاتے رہے جیسے کل سے فاقے پہ ہوں۔‘‘ زارا نے عید کی مصروفیت کی دکھ بھری کہانی سنائی۔
’’ارے یہاں بھی بھاگم بھاگ گزری… سسرال کے لوگوں کو نمٹاتے… چولہے کے ساتھ خود چولہا بن کر رہ گئے، بڑی مشکل سے تیسرے دن شام کو مہلت ملی اماں کے یہاں جانے کی، ابھی تین گھنٹے نہیں گزرے کہ پتا چلا پھر چچا سسر اپنی فیملی کے ساتھ آرہے ہیں… بس پھر دوڑ ے گھر کو اور کچن سروس شروع… رات کو ڈیڑھ بجے فارغ ہوئے۔ یوں دہک دہک کر مجھے چوتھے دن بخار نے آلیا۔ اب چار دن بعد بخار اترا تو کمزوری کے مارے برا حال ہے۔ شوال کا مہینہ بھاری پڑگیا نا۔‘‘
طلعت باجی بھی یہی کہانی سنارہی تھیں
’’واقعی عید اب صرف خاندان اور میکے سسرال تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، تقابلی دعوتوں کی گویا ریس لگی ہے، جہاں کثرتوں کی خواہش ہے، لذتوں کی دوڑ ہے مگر ہوس کا پیٹ کب بھرا ہے بھلا!
سوچیے عید کی گہما گہمی پندرہ سے بیس سال پہلے بھی تو تھی نا، مگر اس کے باوجود آس پاس کے دو چار گھروں کی گنجائش تو نکل ہی آتی تھی… ایک دوسرے سے تحائف، عیدیوں اور ڈشز کے تبادلے بھی اسی مصروفیت میں ہو ہی جاتے تھے۔ مبارک بادیں اور دعائیں رمضان کے ساتھ عید کا بھی حصہ ہوتی تھیں… گویا گرد و پیش سے بے خبر رہ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ایک بھول رہا ہوتا ہے کہ عید تو ہمسایوں کی بھی ہے، وہ تو شکر ہے دورہ قرآن کے بعد عید ملن کی محفل کی روایت سارے دورہ قرآن کے ساتھیوں اور ہمسایوں کو ملنے کا موقع فراہم کرتی ہے، چوں کہ رشتے داروں کی طرح محلے داریاں نبھانا بھی عورتوں کا ہی ہنر سمجھا جاتا ہے خصوصاً لین دین تو ان کا ہی ہنر ہے، اس لیے ہمسایوں کے گھروں میں عید ملنے جانے کی روٹھی روایت کو مناکر لانے کی ذمہ داری بھی ان کے ہی کاندھوں پر ہے۔