ہزاروں خواہشیں ایسی۔۔۔

382

’’ارے نادیہ! سنا ہے لائبہ کی شادی بہت اچھے گھرانے میں ہوئی ہے، اس کا شوہر بھی بہت دولت مند ہے، بہت بڑا بنگلہ ہے اس کا، ہنی مون منانے بھی دبئی گئی ہے۔‘‘

کالج کینٹین میں سموسہ کھاتے ہوئے فرح، نادیہ کو باخبر کررہی تھی۔
’’اچھا! کیا واقعی!‘‘ نادیہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
’’بھئی واہ کیا قسمت پائی ہے! پڑھائی سے بھی چھٹی اور رشتہ بھی اچھا! کاش ہمارا بھی…‘‘ نادیہ نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔
’’لیکن سنا ہے وہ اس رشتے سے خوش نہیں ہے۔‘‘ فرح ایک اور خبر سناتے ہوئے بولی۔

’’کیوں بھئی، کیا خرابی ہے اس رشتے میں؟‘‘ نادیہ نے حیرانی سے پوچھا۔
’’بھئی اس کو تو انڈین ہیرو کی طرح وجیہ اور اسمارٹ شوہر چاہیے تھا۔ اس کا شوہر تو بس نارمل شکل صورت والا ہے، قد بھی چھوٹا ہے، اس کے خوابوں کا شہزادہ نہیں ہے وہ… وہ تو اس رشتے پر راضی نہیں تھی، اس کے والدین نے سمجھا بجھا کر اس کی شادی کردی۔‘‘ فرح نے سموسہ ختم کرتے ہوئے نادیہ کو جواب دیا۔

’’کتنی ناشکری ہے لائبہ بھی… اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت دے۔‘‘ نادیہ نے بھی سموسہ ختم کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور دونوں کینٹین سے اٹھ کر چل دیں۔
…٭…
آج عروسہ کی دعوتِ ولیمہ ہے۔ شہر کے بڑے ہوٹل میں مہمانوں کو مدعو کیا گیا ہے۔ اسٹیج پر مصنوعی آبشار اور جھرنے بہہ رہے ہیں… بھاری طلائی زیورات اور نہایت نفیس اور قیمتی سوٹ میں عروسہ بہت پیاری لگ رہی ہے۔ ہوٹل میں داخل ہوتے ہی عروسہ کی چچی رابعہ بیگم نے دوسری چچی نفیسہ بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے حسرت سے کہا ’’کاش ہماری بیٹیوں کے بھی ایسے ہی رشتے ہوجائیں۔‘‘

نفیسہ بیگم چونک کر بولیں ’’تم تو ظاہری چکاچوند سے متاثر ہوگئیں۔ اللہ ہماری بیٹیوں کی قسمتیں اچھی کرے… جہاں رہیں خوش رہیں۔ اصل چیز تو دل کا سکون ہے۔‘‘

کچھ ہی دنوں بعد عروسہ کی طلاق کی خبریں خاندان میں گردش کرنے لگیں،کیوں کہ اس کا شوہر مشکوک کردار کا مالک تھا۔ اس کی صحبت اچھی نہیں تھی۔ عروسہ اپنی عزت کے تحفظ کی خاطر والدین کے گھر واپس آگئی۔
…٭…
فہد بہت دنوں سے اپنے بابا سے ضد کررہا تھا کہ ’’بابا آپ مجھے ایک گاڑی دلادیجیے… میرے سب دوست گاڑی میں یونیورسٹی آتے ہیں، مجھے موٹر سائیکل پر جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘‘

اکبر صاحب نے پوری زندگی کرائے کے مکان میں گزار دی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے اپنی جمع پونجی اپنے نئے گھر کی تعمیر پر لگا دی اور اب پنشن پر گزارا ہورہا تھا۔ وہ فہد کی خواہش پوری نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے فہد کو سمجھاتے ہوئے کہا ’’بیٹا! تمہارے دوستوں کے پاس ذاتی گھر نہیں ہے، تمہارے پاس گھر جیسی نعمت ہے۔ اُن کے پاس گھر نہیں ہے گاڑی ہے، اللہ نے جو نعمت تمہیں عطا کی اس پر اللہ کا شکر ادا کرو، اس کی تقسیم پر راضی رہو، اللہ تعالیٰ کسی کوکچھ دیتا ہے تو کسی کو کچھ، اُن لوگوں کی طرف دیکھو جن کے پاس نہ گھر ہے اور نہ گاڑی۔ موٹر سائیکل بھی نہیں ہے۔ بس اور رکشے میں سفر کرتے ہیں۔ تمہارے پاس موٹر سائیکل تو ہے نا بیٹا! اپنے سے نیچے والوں کو دیکھا کرو تاکہ شکر کے جذبات پیدا ہوں۔ اپنے سے اوپر والوں کو دیکھو گے تو ساری زندگی حسرتوں میں ہی گزر جائے گی۔‘‘ بابا نے اتنے پیار سے سمجھایا کہ فہد نے پھر گاڑی کی ضد نہیں کی۔
…٭…
جس محلے میں ہم رہتے تھے وہاں ایک نئی فیملی آئی، ان کے پاس ایک لینڈ کروزر گاڑی تھی۔ دونوں میاں بیوی صبح گاڑی میں بیٹھ کر جاتے اور رات کو واپس آتے۔ محلے کی کچھ خواتیں ان کو دیکھ کر رشک کرتیں اور خواہش کرتیں کہ کاش ہمارے پاس بھی ایسی گاڑی اور ایسا محبت کرنے والا شوہر ہو۔ خواتین کی آپس میں چہ میگوئیاں جاری رہتیں۔

ایک دن موقع پاکر کچھ خواتین ان سے ملاقات کرنے گئیں۔ ملاقات کے دوران ایک خاتون بولیں ’’آپ کتنی خوش قسمت ہیں، اتنی اچھی گاڑی اور اتنا محبت کرنے والا شوہر، آپ تو روز گھومنے جاتی ہیں۔‘‘

ان خاتون نے جواب دیا ’’میں گھومنے نہیں بلکہ جاب پر جاتی ہوں۔ پہلے میرے شوہر مجھے ڈراپ کرتے ہیں، پھر آفس جاتے ہیں۔ واپسی میں مجھے لیتے ہوئے آتے ہیں۔ کھانا کھا کر ہم سوجاتے ہیں۔ بس یہی میری زندگی ہے۔ میں اولاد جیسی نعمت سے محروم ہوں۔ خوش قسمت تو آپ ہیں کہ آپ کو اللہ نے اولاد سے نوازا ہے۔ میرے نزدیک تو دنیا میں اولاد سے بڑی کوئی نعمت نہیں۔ اللہ کا شکر ادا کریں آپ لوگ کہ اللہ نے آپ کو ایسے شوہر عطا کیے جن کے ذریعے آپ کے گھر میں اولاد جیسی خوشیاں آئیں۔‘‘
…٭…
انور صاحب نے شہر سے دور ایک نئی آبادی میں اپنا شاندار گھر تعمیر کروایا، جس میں وہ اپنی آل اولاد کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ آب وہوا اچھی تھی مگر آسائشیں کم۔ گیس کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے وہاں تک پہنچ نہیں سکے تھے، بجلی کی آنکھ مچولی بھی جاری رہتی، پھر ایک دن پانی بھی روٹھ گیا۔ واٹر بورڈ والوں کی بے حسی اور بے وفائی نے پریشانی میں مزید اضافہ کردیا۔ ایک دن ریحانہ بیگم بہت پریشان ہوکر بولیں ’’بس آپ ایک کنواں کھدوا دیجیے اور ایک سولر سسٹم لگوا دیجیے، ساری پریشانی دور ہوجائے گی۔‘‘

انور صاحب اخبار سے نظریں ہٹاتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ سکے :

’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے‘‘

یہ حقائق پر مبنی وہ منظرنامے ہیں جن سے ہمیں آئے دن واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہر شخص پریشان نظر آتا ہے، حالانکہ میرے پیارے رب کا فرمان ہے’’اگر تم شکر کروگے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا۔‘‘

بس ہم کسی کی زندگی سے یوں متاثر نہ ہوں کہ اپنی زندگی سے بے زاری ہونے لگے اور اللہ کی ناشکری کرنے لگیں۔

حصہ