عادل صاحب: رشید صاحب ثمینہ میری اکلوتی بیٹی ہے ایم۔ بی۔ اے۔ پاس ہے آپ کو اپنا مکان میری بیٹی کے نام کرنا ہوگا میری یہی شرط ہے۔
رشید صاحب: عادل صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کیا آپ کو مجھ پر یا میرے بیٹے پر اعتبار نہیں، اور یہ مکان صرف میرے بیٹے کا نہیں میری دونوں بیٹیوں کا بھی اس میں حصہ ہے۔
عادل صاحب: آپ سوچ کر مجھے جواب دیجیے گا میں آپ کے جواب کا انتظار کروں گا۔
…٭…
بیگم عادل: مجھے تو لگتا ہے وہ ہماری شرط نہیں مانیں گے…
عادل صاحب: ہماری بیٹی کسی سے کم تو نہیں، اگر نہیں کرتے تو کوئی دوسرا دیکھ لیں گے۔
…٭…
سکینہ (رشتے کروانے والی) ویسے رشتہ بہت اچھا تھا لڑکے کی ملازمت بھی اچھی تھی چھوٹی فیملی دونوں بیٹیوں کی بھی شادی ہو چکی ہے صرف ماں باپ تھے اس کے، بیگم عادل کون سا میری بیٹی انہیں شادی کے بعد مکان سے نکال دیتی یہ تو بس ہم نے اپنی بیٹی کے تحفظ کے لیے شرط رکھی تھی۔ چھوڑو دفع کرو… سکینہ بگیم تم کوئی اور اچھا سا رشتہ دیکھو…
…٭…
بیگم عادل: شکل دیکھی اس لڑکے کی اور تم کہہ رہی ہو 30-32 سال کا ہے نا بابا، نا میں اپنی حور جیسی بیٹی کو اس لنگور سے بیاہوں گی کبھی نہیں…
سکینہ بیگم: اسے آپ کی شرط بھی منظور ہے اپنا ایک مکان آپ کی بیٹی کے نام کرنے پر راضی ہے صرف ایک بوڑھی ماں کا ساتھ ہے۔
بیگم عادل: میری بیٹی نے تو اس کی ایک جھلک دیکھی اور کمرے سے نکل گئی۔
سکینہ بیگم : وہ آپ کی ہر شرط ماننے کو تیار تھے خیر… آپ کی مرضی سکینہ بیگم ۔ بیگم عادل یہ چھٹا رشتہ آپ کو دکھا رہی ہوں۔ آپ کو کوئی پسند ہی نہیں آر ہا ہے۔ جو رشتے آپ نے ٹھکرا دیے ان لڑکوں کی میں نے دوسری جگہ (شادی) رشتے کروا دیے ہیں سب بہت خوش ہیں۔ لڑکیوں والے تو مجھے بار بار فون کرکے شکریہ ادا کررہے ہیں۔
بیگم عادل: تو ان لڑکیوں میں بھی کوئی کمی ہو گی اگر آپ کو ہماری مرضی کے مطابق رشتہ نہیں مل رہا ہے تو میں کسی اور سے بات کرتی ہوں سکینہ بیگم جیسی آپ کی مرضی۔
…٭…
بیگم عادل کی اس شرط کی وجہ سے کئی بہترین رشتے ہاتھ سے نکل گئے۔
عادل صاحب: ہم ان شرائط کی وجہ سے کب تک بیٹی کو بٹھائے رکھیں گے تم ہر رشتے میں سے عیب نکال رہی ہو یوں نہ ہو کہ ہمیں پچھتانا پڑے۔ کہیں نا کہیں ہمیں سمجھوتہ تو کرتا پڑے گا۔ اب تم اپنی بہن کو ہی دیکھو تم نے اس کے بیٹے کے رشتے پر اس لیے انکار کیا تھا کہ لڑکے کی پانچ بہنیں ہیں بڑی ذمہ داریاں ہیں اس پر، آج وہ لڑکا بیرونِ ملک کما رہا ہے خیر سے سب بہنوں کی شادیاں بھی ہو گئیں ہیں۔بیگم عادل تو اس میں میرا قصور ہے تم بھی تو اس معاملے میں شامل تھے اور وہ تمہاری بیٹی ارم وہ تو ہر رشتے میں عیب نکال رہی ہے۔ اسے کون سمجھائے۔
عادل صاحب: اسے تم سمجھائو ہم کب تک زندہ رہیں گے ہمارا اکلوتا بیٹا امریکہ میں ہے اس لیے اب ہمیں اس طرف سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
…٭…
عادل صاحب کی اچانک موت نے بیگم عادل کی کمر توڑ دی بیٹا امریکہ سے ایک مہینے کے لیے آیا… لیکن وہ زیادہ چھٹیاںنہیں کر سکتا تھا جاتے جاتے اس نے بھی ماں کو تاکید کی کہ اب ارم کی شادی ہو جانی چاہیے۔
…٭…
عقیلہ: باجی رشتہ اچھا ہے ذرا عمر بڑی ہے ہماری ارم بھی تو 32-33 کی ہو گئی ہے لڑکا 40-42 کا ہو گا وہ پہلی بیوی کو طلاق دے چکا ہے بڑی اچھی بات ہے اس کا کوئی بچہ نہیں 300 گز پر عالیشان کوٹھی بڑا بزنس ہے اور سب سے بڑی بات صرف ایک بوڑھا باپ ہے… لڑکا شریف بھی ہے میری مانو تو ارم کو سمجھائو وہ انکار نہ کرے… کہیں نہ کہیں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے…
…٭…
بیگم عادل: ارم بیٹا تمہارے بابا تو اس دنیا سے چلے گئے کتنے خواب دیکھے تھے انہوں نے تمہاری شادی کے، اب میری زندگی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ۔ تمہارا بھائی مہینہ میں چار پانچ لاکھ بھیجتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرلی ہے میرے بعد تمہارا کیا ہو گا۔ پھر زندگی میں کہیں نہ کہیں سمجھوتہ تو کرنا پڑتا ہے کاش کہ یہ بات ہم سب کو پہلے ہی سمجھ لینی چاہیے تھی۔ ماں کے سمجھانے اور ناراض ہونے کے بعد ارم نے نیم رضا مندی کا اظہار کیا تو بیگم عادل نے بھی دیر نہیں کی کیوں کہ اسے اپنی بیٹی پر بھروسہ نہیں تھا کہ وہ پھر نہ انکار کر دے۔ اس طرح ارم کی شادی زبیر سے ہو گئی یہ وہی زبیر تھا جس کا دس بارہ سال پہلے رشتہ آنے پر ارم اور اس کی والدہ نے ٹھکرا دیا تھا۔