سہانی یادیں

488

’’امی! دیکھیں میری مہندی کا رنگ کتنا گہرا آیا ہے۔‘‘ راحمہ نے انتہائی خوشی سے سعدیہ کو اپنی ہتھیلیاں دکھائیں، جن پر خوش رنگ اور باریک ڈیزائن والی مہندی بہار دکھا رہی تھی۔

اس عید کے فوراً بعد راحمہ کی چچا زاد بہن کی شادی تھی جس کے لیے اس کا مہندی لگوانا انتہائی ضروری تھا۔ یہ شوق اسے اپنی ماں سے ورثے میں ملا تھا، ہر عید بقرعید اور قریبی رشتے داروں کی شادی پر اس کی اپنی ماں سے یہ پہلی فرمائش ہوتی تھی اور سعدیہ بھی اس کے اس شوق میں اس کا بھرپور ساتھ دیتی تھی۔

آج سعدیہ اس کے مہندی لگے ہاتھ دیکھ کر ماضی کے جھروکوں سے جھانکتی خوش گوار یادوں میں کھو گئی۔ راحمہ کی طرح ہر عید اور شادی بیاہ کے موقع پر مہندی لگوانا اس کا ارمان ہوتا تھا۔ اسے نہیں یاد کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اس کی کوئی بھی عید مہندی اور رنگ بہ رنگی چوڑیوں کے بغیر گزری ہو… کیا وقت تھا، نہ کوئی ذمے داری تھی، نہ کسی کام کی فکر… بس سجنے سنورنے کے سوا عید کا کوئی دوسرا نام ہی نہ تھا۔

اکلوتی ہونے کی وجہ سے ماں باپ دونوں کی لاڈلی تھی اور بھائیوں کا تو بس نہ چلتا کہ چھوٹی بہن کے لیے چاند تارے توڑ لائیں۔

وقت کچھ اور آگے بڑھا تو اس کے لیے رشتے آنے شروع ہوگئے، بہت سوچ سمجھ کر ابا کے دوست کے بیٹے سے رشتہ طے ہوگیا، اب تو مستقبل کے خوابوں نے اس کی آنکھوں میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ وہ انتہائی جذباتی اور رومانوی مزاج رکھنے والی لڑکی تھی۔ منگنی کے بعد شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں کہ عید کے چاند پر شادی طے پائی تھی جس میں بس دو ماہ رہ گئے تھے۔ چاند رات کو اس کی عیدی آئی، ساس اور نندوں کی پسند بہت اچھی تھی، فواد بھی اکلوتے تھے اس لیے سسرال والوں کے بھی بڑے چائو تھے۔ ہر سوٹ کی ہمرنگ چوڑیاں اور مہندی کی کئی کونز موجود تھیں، اس عید کی تو کچھ الگ ہی خوشی تھی۔

آنے والے دنوں کے سپنے پلکوں پر سجائے وہ ہاتھوں پر مہندی کے نقش ونگار میں گم تھی، عید کی شام سسرال والوں کے آنے پر وہ نک سک سے تیار ہوکر ہوائوں کے دوش پر اُڑ رہی تھی۔ مستقبل کے اندیشوں سے ناآشنا وہ ہمیشہ ایسی ہی عیدوں کی توقع کررہی تھی۔

مگر یہ کیا …؟ شادی والے دن ہی اسے اندازہ ہوگیا کہ فواد کو مہندی کی خوشبو اور چوڑیوں کی کھنک سے مسئلہ ہے… انہیں گجروں کی خوشبو اور بارش کے پانی سے بھی الرجی ہے۔ چودھویں کے چاند کا نظارہ کرنا بے وقوفی اور سمندر کی لہروں سے کھیلنا وقت کا زیاں لگتا ہے۔

یہ انکشاف اس کے لیے بہت دل شگاف تھا، مگر فواد نے اس کے جذبات کو سمجھتے ہوئے اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی۔

اللہ تعالیٰ نے سعدیہ کو پہلے ہی سال پیارے سے بیٹے سے نوازا، بیٹے کے ساتھ تو سسرال میں پہلی عید کی خوشیاں دوبالا ہی ہوگئیں۔ سعدیہ کی عید کی روایتی تیاریاں بدستور وہی تھیں… مگر یہ معمول صرف دو سال مزید رہاکیونکہ اس کے بیٹے نے جونہی کچھ ہوش سنبھالا، وہ سعدیہ کے مہندی لگے ہاتھوں سے ڈرنے لگا… اسے اپنے باپ کی طرح مہندی کی مہک اچھی نہ لگتی اور اس کے رنگین نقش و نگار کو وہ خوف زدہ نظروں سے دیکھتا۔ یہاں تک کہ جب تک مہندی پوری طرح اتر نہ جاتی وہ اپنا کوئی کام ماں کے ہاتھ سے نہ کرواتا۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر آخر سعدیہ کو اپنے اس شوق سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی۔

مگر اب اپنی بیٹی میں وہی شوق دیکھ کر وہ خوش ہونے کے ساتھ حیران بھی ہوتی کہ بچے ماں باپ کے شوق بھی مستعار لیتے ہیں۔ مگر وہ راحمہ کو اپنی زندگی کے تجربے سے سبق بھی سکھاتی رہتی تھی۔

حصہ