واصف علی واصف
وقت انسان کی زندگی کی سب سے بڑی متاع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت انسان کی تخلیق نہیں۔ انسان وقت میں ایک لمحے کی کمی کرسکتا ہے نہ اضافہ۔ انسان کمزور پڑتا ہے اور دوبارہ طاقت ور ہوجاتا ہے۔ انسان دولت سے محروم ہوجاتا ہے اور پھر دولت حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے لیکن انسان گزرے ہوئے وقت کا ایک لمحے بھی لوٹا نہیں سکتا۔
ہر من ہیس نے اپنے معرکہ آراء ناول سدھارتھ میں کہا ہے کہ وقت ایک بہتے ہوئے دریا کی طرح ہے اور آپ بہتے ہوئے دریا کے پانی میں دوبارہ پائوں نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے کہ آپ جب پائو اٹھا کر دریا میں دوبارہ رکھیں گے تو پائوں کے نیچے نیا پانی ہوگا۔ یہی معاملہ وقت کے دریا کا ہے۔ اس کا ہر لمحہ نیا ہے۔ اس اعتبار سے جب آپ کسی کو ملاقات کے لیے ایک گھنٹے کا وقت دیتے ہیں تو یہ آپ کی طرف سے اس شخص کے لیے ایک نایاب تحفہ ہوتا ہے۔ اس لیے کہ آپ نے اسے اپنی زندگی کے وہ ساٹھ قیمتی منٹس عطا کیے ہیں جو اب آپ کو کبھی دوبارہ نہیں ملیں گے۔
حضرت آدمؑ جنت میں تھے تو ان کا عیش صرف یہی نہیں تھا کہ وہ جنت میں تھے اور معصومیت کی زندگی بسر کرتے تھے بلکہ جنت کی زندگی کا یہ پہلو قرب خداوندی کے بعد جنت کے ہر عیش پر فوقیت رکھتا تھا کہ جنت کی زندگی وقت سے ماورا یا Time Lessness کی زندگی تھی۔ لیکن آدمؑ زمین پر بھیجے گئے تو یہاں زندگی کی دوسری تکالیف کے ساتھ وقت بھی ان کا منتظر تھا۔ زمین کی زندگی دائمی زندگی نہیں تھی۔ یہ ایک عارضی زندگی تھی اور وقت اس عارضی زندگی کو ہر لمحہ ختم کرنے والا تھا۔ لیکن انسان دنیا میں آکر جنت کو بھولا نہیں۔ وہ جب سے اس زمین پر ہے جنت میں لوٹ جانے کی آرزو کررہا ہے اور جنت کی سب سے بڑی دلکشی قرب خداوندی اور اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔ لیکن اس کے بعد جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ جنت میں وقت نہیں ہوگا۔ چنانچہ نہ کوئی شخص جنت میں بیمار ہوگا نہ بوڑھا ہوگا اور نہ اسے موت آئے گی۔ جنت کے اس ماورائے وقت پہلو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے غالب نے ظریفانہ انداز میں کہا ہے۔
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
لیکن انسان وقت سے ماوراء ہونے میں دلکشی کیوں محسوس کرتا ہے…؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دائمیت اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ انسان نہ کبھی اللہ تعالیٰ کی طرح دائمی تھا نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے مگر جنت کی دائمیت انسان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی دائمیت کی صفت کی ایک جھلک ضرور پیدا کر دے گی۔
وقت کا تصور انسانی تاریخ میں ایک فلسفیانہ تصور کی حیثیت سے مسلسل زیر بحث رہا ہے لیکن وقت سے متعلق اکثر فلسفیانہ بحثیں اتنی مجرد ہیں کہ زندگی پر ان کا اطلاق کیا ہی نہیں جاسکتا۔ حالانکہ وقت پر بحث ہوتی ہی اس لیے ہے کہ اس کا زندگی پر اطلاق کیا جائے اور اس کی مدد سے زندگی کو سمجھا جائے۔ تاہم مذہبی تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام نے وقت اور زندگی دونوں پر معنی کی مہر لگا دی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ ہمارے دین کے دائرے میں عبدیت ہی ابدیت کے حصول کا راستہ ہے۔ یعنی انسان صرف عبد بن کر وقت پر قابو پاسکتا ہے۔ اس سے ماورا ہوسکتا ہے۔ اس کے صدمات کو جھیل اور جذب کرسکتا ہے۔ انسان کی زندگی میں اچھے اور برے وقت کی بحث ہوتی رہتی ہے۔ اسلام بتاتا ہے کہ اچھا وقت وہ ہے جو عبدیت کے دائرے میں ہے اور برا وقت وہ ہے جو عبدیت کے دائرے سے باہر ہے۔ بعض لوگ صرف نماز روزے کو عبدیت کی علامت سمجھتے ہیں مگر عبدیت پوری زندگی کو عبادت بنا دینے کا نام ہے۔ پوری زندگی کو عبادت بنانے کے دوہی اسالیب ہیں۔ ایک یہ کہ انسان اللہ کی محبت سے مخلوق کی محبت کی طرف سفر کرے۔ دوسرا یہ کہ وہ مخلوق کی محبت کے تجربے کے ذریعہ خود کو خدا کی محبت کے قابل بنائے۔ ٹھوس معنوں میں دیکھا جائے تو وقت ہماری دینی روایت اور تہذیب میں ایک ایسی قوت ہے جو زندگی کے امکانات کو سامنے لاتی ہے۔ اقبال نے اپنی معرکہ آراء نظم مسجدِ قرطبہ میں کہا ہے۔
سلسلۂ روز شب نقش گرِ حادثات
سلسلۂ روز شب اصل حیات ممات
سلسلۂ روز و شب تارِ حریر دورنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
سلسلۂ روز شب سازِ ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بم ممکنات
تجھ کو پرکھتا ہے یہ مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سِلسلۂ روز و شب، صَیرفیِ کائنات
اقبال کے ان اشعار میں وقت وقت کے امکانات کو سامنے لانے والی قوت بھی ہے۔ زندگی اور موت کی اصل بھی یہاں تک کہ اقبال کے الفاظ میں اسی قوت سے اللہ تعالیٰ کی ذات نے اپنی صفات کا لباس تیار کیا ہے۔ لیکن جہاں تک انسان کے لیے وقت کی ہولناکی کا تعلق ہے تو اس کا تجربہ قرۃ العین حیدر کے ناولوں بالخصوص آگ کا دریا، آخر شب کے ہمسفر اور گردش رنگ چمن میں جس طرح سامنے آتا ہے اس کی مثال تلاش کرنا محال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرۃ العین حیدر کے ناولوں کا مرکزی کردار نہ تاریخ ہے نہ تہذیب ہے نہ کوئی انسان ہے۔ قرۃ العین حیدر کے ناولوں کا مرکزی کردار وقت ہے۔ قرۃ العین کے یہاں زندگی کے کینوس پہ بڑے بڑے انسان، بڑے بڑے تاریخی تجربات بڑی بڑی تہذیبیں جنم لیتی ہیں مگر وقت ہر چیز کو نگل جاتا ہے۔ اقبال کے یہاں وقت اثباتی قوت بھی ہے اور منفی قوت بھی۔ لیکن قرۃ العین حیدر کے فن میں قوت کی منفیت وقت کے اثباتی پہلو پر غالب نظر آتی ہے۔ لیکن اقبال کے یہاں وقت سے بھی بڑی ایک وقت موجود ہے۔ یہ قوت عشق کی قوت ہے۔ چنانچہ اقبال نے کہا ہے۔
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اُس پر حرام
تندوسبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
لیکن اقبال کے شعروں کا مرد خدا کون ہے اور عشق کا مفہوم کیا ہے…؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال کا مرد خدا ’’’عبدکامل‘‘ اور عشق عبدیت کی گہرائی، وسعت اور شدت کی کلیّت کا ظہور ہے۔
تاریخ وقت کی تجسیم ہے اور تاریخ کے بارے میں دو بڑے تصورات موجود ہیں۔ ایک یہ کہ تاریخ خط مستقیم یا سیدھی لکیر کی صورت میں سفر کرنے والی ایک حقیقت ہے۔ تاریخ کا دوسرا تصور یہ ہے کہ تاریخ ایک دائرے کی صورت میں سفر کرتی ہے۔ تمام مذہبی تہذیبوں کا تصور تاریخ دائروی یا Circular ہے۔ ہندوئوں کے یہاں بہترین زمانہ ’’سست یُگ‘‘ اور بدترین زمانہ ’’کل یُگ‘‘ ہے۔ لیکن بدترین زمانہ یعنی کل یُگ کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر سست یک شروع ہوگا۔ عیسائی تہذیب کا بہترین زمانہ حضرت عیسیٰؑ کا دور ہے جو حضرت عیسیٰؑ کی دنیا میں دوبارہ آمد کے بعد خود کو دہرائے گا۔ اسلام کا دائروی تصور تاریخ رسول اکرمؐ کی ایک حدیث مبارک سے ظاہر ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ اس وقت تک رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی۔ خلافت راشدہ کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ ملوکیت کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی لیکن اس دور کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علی منہاج النبوۃ کی جانب لوٹے گی۔ یعنی وقت ایک بار پھر خود کو دہرائے گا۔ لیکن دہرانے کے اس عمل میں صرف معانی پرانے ہوں گے۔ معنی کے اسالیب نئے ہوں گے۔
ہر من ہیس نے اپنے ناول سدھارتھ میں سدتھارتھ کی زبان سے تین اہم باتیں کہلوائی ہیں۔ یہ تین باتیں سدھارتھ کی روحانی زندگی کے تین بنیادی اصول ہیں۔ سدھارتھ ناول میں ایک مقام پر کہتا ہے میں بھوکا رہ سکتا ہوں۔ سوچ سکتا ہوں اور انتظار کرسکتا ہوں۔ غور کیا جائے تو یہ تینوں اصول عام زندگی میں وقت پر فتح پانے کے تین طریقے ہیں۔ انسان کی جسمانی زندگی کا انحصار غذا پر ہے لیکن سدھارتھ تو کہہ رہا ہے کہ میں اس اصول کو الٹ سکتا ہوں۔ میں بھوکا رہ سکتا ہوں یہاں بھوکا رہنے کا مطلب فاقہ کرنے کی صلاحیت نہیں مسلسل روزہ رکھنے یا صائم الدھر ہونے کی صلاحیت ہے۔ سوچنے کا مطلب یہاں تخلیق کی صلاحیت کا حامل ہونا ہے اور تخلیقی عمل کے ذریعہ انسان ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی دائرے میںدوام حاصل کرتا ہے۔ سدھارتھ کے انتظار کا مطلب صبر کرنا ہے او رصبر کسی بھی منفی تغیر کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے اور تغیر پر قابو پانے کا مطلب وقت پر غالب آنا ہے۔ لیکن وقت کی معنویت صرف انہی پہلوئوں تک محدود نہیں۔
رسول اکرمؐ کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب سال مہینے، مہینہ دن کے اور دن ایک گھنٹے کے برابر محسوس ہوگا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ایسا ہوچکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وقت کی رفتار بڑھ گئی ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ زندگی کی تیز رفتار نے وقت کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کو بدل دیا ہے۔ یہی معاملہ موت کے بعد میدان حشر میں پیش آئے گا۔ خدا انسانوں سے پوچھے گا کہ تم دنیا میں کتنا وقت مقیم رہے تو انسان کہے گا ایک دن یا اس سے کچھ زیادہ۔ ایسا اس لیے ہوگا کہ میدان حشر میں دنیا کے وقت کے ساتھ انسان کا تعلق کمزور ہوجائے گا اور انسان جنت کی ابدی زندگی کے تصور کے قریب ہوجائے گا چنانچہ دنیا کی سو سال کی زندگی بھی ایک دن کی زندگی محسوس ہونے لگے گی۔ بلاشبہ گلاس کا پانی گلاس کی حد تک ’’کافی‘‘ نظر آتا ہے لیکن اگر گلاس میں پانی بھر کر اسے سمندر کے کنارے رکھ دیا جائے تو گلاس کے پانی کو قطرہ کہنا بھی دشوار ہوجائے گا۔