قیصروکسریٰ قسط(101)

312

اگر میری یہ خواہش پوری نہ ہوئی تو میرے لیے زندگی کا آخری اطمینان یہ ہوگا کہ ان کی حفاظت کے لیے ایک قابل اعتماد ساتھی اور وفادار دوست موجود ہے۔ عاصم میں تم سے یہ وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی آزمائش کا وقت آیا تو تم فسطنیہ اور اس کی ماں کو مایوس نہیں کرو گے۔ اور یہ تمہارے ضمیر کی روشنی میں اپنے لیے سلامتی کا راستہ تلاش کرسکیں گے۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں نے ہمیشہ اپنی شہرت اور ناموری کے لیے زندہ رہنے کی کوشش کی ہے لیکن آج جب کہ میں اپنی بیوی اور اپنی بیٹی کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہوں، مجھے ایسا نظر آتا ہے کہ میں موت کے دروازے پر دستک دے رہا ہوں۔ عاصم میرے ساتھ وعدہ کرو کہ اگر مجھے کوئی خطرہ پیش آیا تو تم ان کے پاس پہنچنے کی کوشش کرو گے اور میری بیٹی کو زندگی کی وہ راحتیں عطا کرسکو گے جو میں کسریٰ کا دوست اور ایران کا سپہ سالار ہونے کے باوجود عطا نہیں کرسکا‘‘۔

سین کی گفتگو کے دوران عاصم کی آنکھوں بتدریج آنسوئوں سے لبریز ہورہی تھیں۔ اور پھر جب اس نے جواب دینے کی کوشش کی تو الفاظ کی بجائے موٹے موٹے آنسوئوں کے قطرے اس کی ترجمانی کررہے تھے۔ اس نے تشکر اور احسان مندی کے علاوہ بے بسی اور بے چارگی کے احساس سے مغلوب ہو کر کہا۔ ’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کسریٰ کے دربار میں آپ کو کیا خطرہ پیش آسکتا ہے۔ تاہم میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ فسطنیہ اور اس کی والدہ کو مجھ سے کسی بدعہدی، بے وفائی یا بزدلی کی شکایت نہیں ہوگی‘‘۔

’’میں تمہارا شکر گزار ہوں‘‘۔ سین یہ کہہ کر اپنی بیوی اور فسطنیہ کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’اب مجھے صرف تمہاری دعائوں کی ضرورت ہے‘‘۔

’’خدا آپ کے ساتھ ہو‘‘۔ یوسیبیا نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کی چھلکتی ہوئی آنکھوں سے آنسو اُمڈ آئے۔

فسطنیہ نے اپنی ماں کے الفاظ دہرائے اور سسکیاں لیتی ہوئی اپنے باپ سے لپٹ گئی۔ ’’ابا جان! میں آپ کا انتظار کروں گی۔ آپ ضرور آئیں گے۔ شہنشاہ آپ کا دشمن نہیں ہوسکتا‘‘۔

تھوڑی دیر بعد سین اور اس کے ساتھی گھوڑوں پر سوار ہو کر ایران کا رُخ کررہے تھے۔

پرویز اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ اس کی عظیم سلطنت بحیرئہ اسود سے لے کر صحرائے توبہ اور کوہِ البرن سے لے کر شمالی پنجاب تک پھیلی ہوئی تھی۔ اپنے پرانے دارالسلطنت مدائن کے ساتھ اس کی زندگی کی چند تلخ داستانیں وابستہ تھیں۔ اور وہ اس پُررونق شہر کو اپنے لیے منحوس خیال کرتا تھا۔ چناں چہ آرمینیا، شام اور فلسطین میں اپنی فتوحات کے پرچم گاڑنے کے بعد اس نے دجلہ کے پار، مدائن سے کوئی ساٹھ میل شمال کی طرف اپنے لیے ایک نئے دارالحکومت کی تعمیر شروع کردی تھی۔ اس نئے شہر کا نام دست گرد تھا اور کسریٰ نے مفتوحہ ممالک کے مالِ غنیمت اور باجگذار ریاستوں کے خراج سے جو خزانے جمع کیے تھے وہ دست گرد کی تعمیر پر صرف ہورہے تھے۔ اس کے پاس ان قیدیوں کی کمی نہ تھی جو فن تعمیر میں طیبہ، بابلیون، روم، ایتھنز اور بعلبک کی عظمت رفتہ کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان قیدیوں کے خون، پسینے اور آنسوئوں اور ان کے لیے ہوئے شہروں کی دولت سے کجکلا ایران اپنے لیے وہ عظیم عشرت کدہ تعمیر کررہا تھا جس کے سامنے پرسی پولس اور مدائن کے محل بے حقیقت نظر آتے تھے۔ دست گرد کے عظیم محل کی وسعت، دلکشی اور رعنائی کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ سنگ مرمر کے چالیس ہزار ستون جو سونے چاندی اور ہاتھی دانت سے مزین تھے، اس کی چھتوں کو سہارا دے رہے تھے۔ دیواروں کے ساتھ تیس ہزار تصویریں آویزاں تھیں۔ بڑے گنبد کی چھت کے ساتھ ایک ہزار سنہری فانوس جھلملاتے تھے۔ تہہ خانے کے ایک سو کمرے صرف قیمتی لباس اور سونے، چاندی اور جواہرات کے خزانوں کے لیے مخصوص تھے۔ اس محل کی چار دیواری کے اندر بارہ ہزار غلام اور خدمت گار موجود تھے اور تین ہزار وہ حسین و جمیل لونڈیاں تھیں جنہیں مفتوحہ ممالک سے جمع کیا گیا تھا۔ محل سے باہر چھ ہزار مسلح سوار ہر وقت پہرہ دیتے تھے۔ شاہی رعب و جلال کی نمائش کے لیے نوسو ساٹھ ہاتھیوں سے کام لیا جاتا تھا۔ اردگرد میلوں تک زرخیر زمین کو باغات اور شکار گاہوں میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اور ان وسیع شکارگاہوں میں انواع و اقسام کے وہ پرندے اور جانور جمع کیے گئے تھے، جن کے شکار سے پرویز کبھی کبھی اپنا دل بہلایا کرتا تھا۔ ایران کا مغرور اور عیاش حکمران جب کبھی دست گرد سے باہر نکلتا تھا تو اس کے سفر کا سامان بارہ ہزار اونٹوں پر لادا جاتا تھا۔

غرض ایران کے اس نئے دارالحکومت یا ایرانی حکمران کے اس بے مثال عشرت کدے کے اندر اور باہر وہ سب کچھ موجود تھا جس کی ایک جابر حکمران کو تمنا ہوسکتی تھی۔ اور جو ایک مظلوم اور بے بس رعایا اسے دے سکتی تھی۔ قصر شاہی سے باہر دست گرد کی بیشتر آبادی محفوظ فوج کے سپاہیوں اور حکومت کے عہدے داروں پر مشتمل تھی۔ اور کسریٰ اس نئے دارالحکومت میں اپنے آپ کو ان بااثر امرا اور مجوسی کاہنوں کی سازشوں سے محفوظ پاتا تھا۔ جو مدائن کے عوام کو اپنا آلہ کار بنا کر حکومت کا تختہ اُلٹ دیا کرتے تھے۔ اس کے دل و دماغ پر اپنے باپ کے عبرتناک انجام کا یہ اثر تھا کہ وہ دنیا کے کسی انسان کو یہاں تک کہ اپنے بیٹوں کو بھی قابل اعتماد نہیں سمجھتا تھا۔ حکومت کے انتہائی بااختیار افسر یا فوج کے بڑے بڑے جرنیل ایک دن اس کے دربار میں عزت کی کرسیوں پر رونق افروز دکھائی دیتے اور اگلے دن کسی ادنیٰ جاسوس کی شکایت پر قید خانے کی تنگ و تاریک کوٹھڑی میں پہنچ جاتے۔ ایک دن ایک خوشامدی اپنی چرب زبانی کے بل بوتے پر اپنے حریفوں کو پچھاڑتا ہوا درباریوں کی اگلی صف میں جاکھڑا ہوتا اور اگلے دن اُسے کسی بڑے خوشامدی اور زیادہ چرب زبان کے لیے اپنی جگہ خالی کرنا پڑتی۔ غرض دست گرد کے امراء، کاہن اور اہل کار ایک دوسرے کے خلاف بقا کی جنگ لڑ رہے تھے اور پرویز جو صرف ان لوگوں کے اتحاد کو اپنے لیے خطرناک سمجھتا تھا پوری آزادی اور اطمینان کے ساتھ ان پر حکومت کررہا تھا۔

ایک شام سین اور عاصم اپنے رومی ساتھیوں کو دست گرد کے شاہی مہمان خانے میں چھوڑ کر کسریٰ کی محافظ فوج کے سپہ سالار تورج کی قیام گاہ میں داخل ہوئے۔ تورج سین کے ان پرانے دوستوں میں سے تھا جنہوں نے مصائب کے دور میں کسریٰ کا ساتھ دیا تھا۔ اس نے گرمجوشی سے بغل گیر ہو کر سین کا خیر مقدم کیا اور پھر کسی توقف کے بغیر ایک ہی سانس میں کئی سوال کردیے۔ ’’آپ کیسے آئے؟ آپ محاذ جنگ کے متعلق یقینا کوئی اہم خبر لائے ہوں گے۔ آپ کچھ پریشان دکھائی دیتے ہیں، کہیں شہنشاہ نے آپ کو واپس تو نہیں بلا لیا؟‘‘

سین نے جواب دیا۔ ’’میں ایک ضروری کام سے آیا ہوں اور کسی تاخیر کے بغیر شہنشاہ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہوں‘‘۔

تورج، سین کا ہاتھ پکڑ کر ایک کشادہ کمرے میں لے گیا اور عاصم ان کے پیچھے ہولیا۔ وہ کرسیوں پر بیٹھ گئے اور تورج نے کہا۔ ’’میں ابھی محل کے داروغہ کو اطلاع بھجوادیتا ہوں۔ لیکن اگر آپ محاذ جنگ سے کوئی بری اطلاع لے کر آئے ہیں تو میں آپ کو رات کے وقت انہیں پریشان کرنے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ اس وقت وہ رقاصائوں، گویوں اور نقالوں کے ساتھ جی بہلا رہے ہوں گے‘‘۔

سین نے جواب دیا۔ ’’اس وقت میں بھی آرام کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ محل کے داروغہ کو صبح کے وقت اطلاع دینا زیادہ موزوں ہوگا‘‘۔

تورج نے سوال کیا۔ ’’آپ نے محاذ جنگ کے متعلق کچھ نہیں بتایا؟‘‘

’’میں محاذِ جنگ کے متعلق کوئی نئی خبر لے کر نہیں آیا۔ ابھی تک آبنائے باسفورس ہمارے لشکر اور قسطنطنیہ کے درمیان حائل ہے‘‘۔

’’تو پھر آپ کی آمد میرے لیے ایک معما ہے۔ آپ اپنی مرضی سے تشریف لائے ہیں یا کسریٰ نے آپ کو حاضری کا حکم بھیجا تھا‘‘۔

’’میں اپنی مرضی سے آیا ہوں‘‘۔

’’معاف کیجیے میں آپ کے ساتھی کو پہچان نہیں سکا۔ یہ کون ہیں؟‘‘ تورج نے عاصم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا۔

’’یہ ایک عرب ہیں۔ اور ان کا نام عاصم ہے۔ یہ فلسطین اور مصر کی جنگوں میں ہمارا ساتھ دے چکے ہیں۔ اور میں ان کی دوستی پر فخر کرسکتا ہوں‘‘۔

تورج نے کہا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ کوئی اچھی خبر لے کر نہیں آئے‘‘۔

عاصم نے کہا۔ ’’میں قیصر روم کی طرف سے صلح اور دوستی کی پیش کش لے کر آیا ہوں۔ اس کے ایلچی مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور کسریٰ کے ساتھ ان کی ملاقات کے بعد دست گرد میں ’’میرا کام ختم ہوجائے گا‘‘۔

تورج کو اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا۔ وہ کچھ دیر ایک سکتے کے عالم میں عاصم کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے کہا۔ ’’قیصر کے ایلچی مہمان خانے میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور آپ نے انہیں شہنشاہ کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے؟‘‘

’’جی ہاں میں انہیں اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں‘‘۔

’’میں اس سے بڑی حماقت کا تصور نہیں کرسکتا‘‘۔

سین نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اگر یہ حماقت ہے تو اس کے نتائج میری ذات تک محدود رہیں گے۔ میں کسی دوست کو اپنے جرم میں حصہ دار نہیں بنائوں گا۔ آپ یہ بھول جائیں کہ میں نے آپ سے قیصر کے ایلچیوں کا ذکر کیا ہے؟‘‘

’’آپ پریشان نہ ہوں۔ شاہی مہمان خانے کے منتظمین نے انہیں صرف تاجروں کے بھیس میں دیکھا ہے اور جو تاجر کسریٰ کے لیے تحائف لے کر آتے ہیں۔ ان کے متعلق زیادہ چھان بین نہیں کی جاتی‘‘۔

’’اور آپ کسریٰ کو یہ اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ یہ تاجر درحقیقت قیصر کے ایلچی ہیں‘‘۔

’’ہاں اور آپ کی تسلی کے لیے میں اپنی مہم کی تمام تفصیلات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوگا کہ آپ میرے رازدار ہیں۔ میں اپنے عزیز ترین دوست کو ان معاملات سے الگ تھلگ رکھنا چاہتا ہوں‘‘۔

’’بہت اچھا سنائیے۔ شاید اس کے بعد میں آپ کو کوئی نیک مشورہ دے سکوں‘‘۔

سین نے مختصراً قیصر کے ساتھ اپنی ملاقات کی روئداد بیان کردی۔ لیکن احتیاطاً اس سارے قصے سے عاصم کا تذکرہ حذف کردیا اور اس کی جگہ قیصر کے ایک ایلچی کا نام لے دیا۔

(جاری ہے)

حصہ