آغوش

465

بچے کی پہلی چیخ، پہلی سسکی، پہلی ہچکی کو جس کی آغوش میں قرار آتا ہے وہ ماں کا وجود ہے۔ اور جو کم نصیب بچپن میں ہی ماں کی آغوش سے بچھڑ جاتے ہیں وہ چاہے دنیا کی تمام آسائشات بھی حاصل کرلیں، پَر ایک عجیب محرومی کا شکار رہتے ہیں۔ قدرت نے ہر انسان کو اُس کی ماں کے وجود کا حصہ بنایا اور ہر ماں کے دل میں اولاد کے لیے محبت کا دریا موجزن کیا۔ یہی منفرد پیار ہے جو اولاد کے لیے ہر پریشانی، مشکل، تکلیف جھیل جانے کا جذبہ اجاگر کرتا ہے۔ ازل سے ماں کی مامتا ضرب المثل رہی ہے۔ دور چاہے کوئی بھی رہا ہو اولاد کی تربیت کے لیے ماں کی سوچ فکر انگیز ہی رہتی ہے۔ آج کے مقابلے میں فقط چند دہائی قبل ماں کے کردار پہ نظر ڈالیں تو ہمیں قناعت کا سبق پڑھاتی، تنگی ترشی میں بھی کلمۂ شکر ادا کرتی وہ شفیق مائیں یاد آئیں گی جو چہرے کے تاثرات اور نظر کی جنبش سے بھی بچوں کو برا بھلا سمجھانے کا ہنر رکھتی تھیں۔ کثرتِ اولاد ہونا عام بات تھی اور ان کی اسلامی شعائر میں تربیت عبادت سمجھ کے کی جاتی۔ مروت، رواداری، فرماں برداری بچے کو گھٹی میں گھول کے پلادی جاتیں۔ غلطی سدھارنے کے لیے چار چوٹ کی مار لگانے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھا جاتا تھا۔ سختی اور نرمی ساتھ ساتھ چلتی۔ ماں کا مقصد ہمیشہ ایک بہتر کردار کی تشکیل ہی ہوتا۔ اُس زمانے میں بچوں پہ بے تحاشا پیسہ خرچ کرنے کا رواج نہیں تھا، پَر اولاد کی خدمت کرنے میں مائیں حقیقتاً ہڈیاں گھسا دیتی تھیں۔ ابتدائی تعلیم ہمیشہ ماؤں کی گود میں حاصل کی جاتی۔ کم عمری میں ہی تعلیمی اداروں میں بھیجنا عنقا تھا۔ ایک ایک بچے کو پکڑ کے ان کی جوئیں نکالنا، نہلا دھلا کے سرمہ لگانا، ان کے کپڑے اپنے ہاتھوں سے سینا، سردی کے لیے سوئٹر بُننا اُس وقت کی خوب صورت روایات تھیں۔ اپنے تمام ہنر بچوں پہ آزمائے جاتے۔ کپڑے، جوتے یا اسکول کی وردی، اتنی سنبھال کے رکھی جاتی کہ پہلے نمبر سے لے کر آخری نمبر تک تمام بچے اس سے استفادہ کرلیتے اور اس کو خاتونِِ خانہ کا سگھڑاپا گردانا جاتا۔ بچوں میں مطالعے کا شوق بیدار کرنے کے لیے گھروں میں بچوں کے رسائل اور کتب کا آنا معمول تھا۔ کم سن بچوں کو گھٹنوں پہ جھولا جھلاتے ہوئے گنگنانا تقریباً ہر ماں کا ایک دل چسپ کھیل تھا۔ بچوں کو کم عمری میں ہی اپنے سارے کام اپنے ہاتھوں سے کرنے کی تربیت دی جاتی۔

آہستہ آہستہ وقت بدلنے لگا۔ ڈیجیٹل دنیا نے ترقی کی تو سوچ کا آسمان وسیع رکھنا مجبوری بن گیا۔ موجودہ دور میں ماں اور بچے کے درمیان موجود احترام کے رشتے میں تھوڑی جدت آگئی ہے۔ یہ رشتہ دوستی اور بے تکلفی کی سطح پر پہنچ گیا ہے، اس کے باوجود ماں کی ممتا نہیں بدلی اگرچہ اندازِ تربیت بدل گیا ہے۔

آج کی ماں اپنے بچے کو جھڑکنے یا ڈانٹنے سے گریز کرتی ہے۔ بچے کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا ماؤں کی پہلی ترجیح ہے۔ بچوں کو ذہنی و جسمانی سکون فراہم کرنے کے لیے ساری مائیں کوشاں ہیں۔ بچے کی ضروریات و خواہشات پہ بے دریغ پیسہ خرچ کرنا، پیار جتانے کا طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کے دل کی بات سننا، سمجھنا اور برابری کی بنیاد پہ مشورہ دینا آج کی ماں کا قابل ِ تعریف عمل ہے۔ اطوار بدل گئے پَر ماں کا مقصد آج بھی اپنے بچوں کی ایک پُراعتماد شخصیت کی تشکیل اور بہترین کردار سازی ہی ہے۔ غور کیا جائے تو ماں ایک مستقل معمار ہے جو اپنی تخلیق کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنے میں تا زندگی مصروف رہتی ہے۔ طریقہ و انداز لاکھ جدا سہی، پَر خلوصِ دل سے پرورش کرنے اور محبت کے ساتھ انسانیت کی تکمیل کرنے میں ہر دور کی ماؤں کا کردار قابلِ تحسین ہے۔

حصہ