گھر آکر جمال اور کمال نے کہا کہ گویا ہماری چھٹی حس اگر یہ کہہ رہی ہے کہ بستی میں اجنبیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو شاید غلط بھی نہیں۔ ایک اجنبی چہرے کا ملک احمد خان کے ساتھ سرکاری گاڑی میں آنا اور اکثر بازار میں بلاوجہ گھومنا یقیناً بے معنیٰ تو نہیں ہوگا لہٰذ ہمیں اس بات کو آسان نہیں لینا چاہیے۔
آج کل جمال اور کمال اپنے والد صاحب میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھ رہے تھے۔ یہ بھی نہیں کہ ان کے والد صاحب ان سے فاصلہ رکھا کرتے تھے یعنی ان سے بے تکلف نہیں تھے یا انھیں وقت نہیں دیا کرتے تھے بلکہ ان کا کہنا یہ تھا کہ ان کے والد صاحب کو ان کی جاسوسی والی سر گرمیوں سے کبھی کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی تھی لیکن اس مرتبہ انھیں ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ غیر محسوس انداز میں ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھے ہوئے ہوں۔ یہ جان کر بھی جمال اور کمال نے کبھی ان سے اس قسم کی تبدیلی کے متعلق کبھی کوئی سوال نہیں کیا۔ ایک دن والد صاحب نے کہا کہ کیوں نہ کچھ آؤٹنگ ہو جائے، تم دونوں اور میں، کسی اچھی سی جگہ چل کر کچھ چٹورپن کیوں نہ کر لیں۔ چٹور پن پر پہلے بھی کبھی کبھی جانا ہو جایا کرتا تھا لیکن ایسا کبھی والدہ کے بغیر نہیں ہوا تھا۔ اس مرتبہ والدہ کو ساتھ لیے بغیر کسی کھلی جگہ کھانے پینے کی جگہ پر لے جانے کی بات بلا مقصد تو کسی صورت نہیں ہو سکتی تھی لیکن اس کے باوجود بھی جمال اور کمال کو یہ بات اچھی نہ لگی کہ وہ ان سے اس خلافِ معمول پروگرام کے مطابق سوال کریں بلکہ انھوں نے سوچ لیا تھا کہ اس تبدیلی کا راز وہ خود سے ہی جان لینے کی کوشش کریں گے چناچہ دونوں نے یہی فیصلہ کیا خاموش رہ کر اس بات کا کھوج لگایا جائے کہ والد صاحب میں اس تبدیلی کا سبب کیا ہے۔
جمال، کمال اور ان کے والد جس لان نما ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے، ان سے کچھ فاصلے پر ایک ہی میز ایسی تھی جو خالی پڑی تھے لیکن ہوٹل میں داخل ہوتے ہوئے جمال اور کمال نے اس پر “ریزرو” کی تختی لگی ہوئی دیکھ لی تھی۔ ایسی ہی ایک تختی خود ان کی میز پر بھی لگی تھی۔ گویا والد صاحب نے یہاں آنے سے قبل ہی اپنے لیے میز ریزرو کرا لی تھی۔ یہ بات بھی دونوں کے لیے بہت نئی اور ان کی حس کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔ وہ دونوں نہایت خاموشی سے ایک ایک بات نہایت توجہ سے نوٹ کر رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ والد صاحب میں اس تبدیلی کا راز کبھی نہ کبھی تو ضرور سامنے آئے گا۔ کچھ ہی دیر کے بعد پھلوں کے تازہ جوس کے گلاس ان کے سامنے پیش کئے گئے جو خوش دلی کے ساتھ قبول کر لیے۔ کھانا آرڈر کے مطابق تیار ہونے میں ابھی دیر تھی جس کی وجہ سے دونوں بھائی ہال کا ایک سر سری جائزہ لینے لگے لیکن یہ جائزہ بالکل عام سے انداز میں لیا جا رہا تھا۔ اس لان نما ہوٹل کے لان میں ساری میزیں بھر چکی تھیں۔ کافی لوگ ویٹنگ ایریا میں بھی نظر آ رہے تھے جو اس بات کا ثبوت تھا کہ یہ ہوٹل زبان کے چٹخاروں کے لیے کافی شہرت رکھتا ہے۔ قریب کے جس شہر میں یہ لان نما ہوٹل تھا وہاں جمال اور کمال کا بہت کبھی آنا جانا ہوتا تھا وہ بھی زیادہ تر والدہ کے ساتھ کسی خریداری کے سلسلے میں اس لیے وہ یہاں کے سب لوگوں کے چہرہ شناس نہیں تھے اس کے باوجود بھی نہ جانے کیوں جمال اور کمال کو ایسا لگ رہا تھا جیسے یہاں جو لوگ کھانے پینے کے لیے آئے ہوئے ہیں ان میں سے کچھ شاید اس آبادی سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ اپنی بستی اور بستی کے ساتھ اس جڑے شہر کی آبادی والوں کی شکل و صورت کے علاوہ بھی ان کی دورانِ گفتگو ہاتھ ہلاتے رہنے، ہنسنے، چلنے پھر نے اور ادب آداب کے بہت سارے انداز پر نہ صرف غور کرتے رہا کرتے تھے بلکہ ان کے لباس کی تراش خراش اور کپڑوں کی اقسام پر بھی بڑی گہری نظر رکھتے تھے۔ یہ سب صلاحیتیں ہر انسان میں نہیں ہوا کرتیں لیکن اللہ نے کم عمری میں بھی انھیں ایسی صلاحتیں عطا کی ہوئی تھیں جو کسی بڑے عمر والے کو بھی بہت تجربات کے بعد حاصل ہوتی ہیں۔ انھیں صلاحیتوں کی بنیاد پر انھیں ایسا نظر آ رہا تھا جیسے اس لان نما ہوٹل میں کافی افراد ایسے ہیں جو کم از کم اس شہر کے نہیں ہیں۔ ابھی وہ اس بات پر غور ہی کر رہے تھے کہ قریب کی خالی میز پر تین افراد آکر بیٹھ گئے۔ لیکن اب بھی ایک نشست خالی تھی اور لگ رہا تھا کہ جیسے آنے والوں کو اپنے چوتھے ساتھی کا انتظار ہے۔ جمال اور کمال کے لیے دلچسپی کی بات یہ تھی ان تین میں بھی انھیں ایک فرد ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ آس پاس کی کسی آبادی والوں سے مختلف ہے۔ یہ بات ان کی چھٹی حس کہہ رہی تھی ورنہ بظاہر ایسی کوئی بات نہیں تھی جس کی بنیاد پر ان کے اندازوں کی تصدیق کی جا سکتی ہو۔ یہ سب جائزہ اتنی صفائی سے لیا گیا تھا کہ کسی کی آنکھ بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتی تھی کہ جمال اور کمال کچھ شخصیات کو آنکھیں گاڑ کر دیکھتے رہے ہیں۔ (جاری ہے)