واصف علی واصف
انسانی زندگی ایک سمندر کی طرح ہے، لیکن انسان کی مشکل یہ ہے کہ وہ اس سمندر کے کسی ایک جزیرے پر مقیم ہوجاتا ہے اور زندگی کو سمندر کے بجائے جزیرہ سمجھنے لگتا ہے، یہاں تک کہ جزیرہ اس کی زندگی کا ’’تناظر‘‘ بن جاتا ہے۔آپ نے اس ملکہ کا قصہ سنا ہی ہوگا جسے بتایا گیا کہ ملک میں روٹی کی قلت ہوگئی ہے اور لوگ روٹی کی قلت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ یہ سن کر ملکہ نے کہا کہ ملک میں روٹی کی قلت ہوگئی ہے تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟ ملکہ کی زندگی روٹی سے شروع ہوکر کیک پر ختم ہوتی تھی اور روٹی کی عدم موجودگی اس کے حاشیۂ خیال سے باہر کی چیز تھی۔ چنانچہ اس کا یہ تجربہ ہی اس کا تناظر بن گیا تھا۔ اُس کے سامنے مسئلہ آیا تو اس نے مسئلے کو سمجھنے اور حل کرنے کے لیے اسی تناظر کو استعمال کیا۔ لیکن یہ ملکہ یا شہزادوں اور شہزادیوں کا مسئلہ نہیں، یہ مسئلہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا ہے۔ ساغر صدیقی کا ایک شعر ہے ؎
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی کے اس شعر میں زندگی جبر مسلسل ہے اور نامعلوم جرم کی سزا ہے۔ ساغر صدیقی کی زندگی میں غربت تھی، تنہائی تھی، دکھ تھے، لیکن زندگی اتنی سفاک نہیں کہ اس میں سرے سے خوشی ہی نہ ہو، اس پر مسکراہٹ کا سایہ بھی نہ پڑا ہو۔ ساغر صدیقی اچھے شاعر تھے، اور اچھا شاعر ہونے کی مسرت کچھ کم نہیں۔ آخر دنیا میں کتنے انسان ایسے ہیں جنہیں ’’اچھا شاعر‘‘ کہا جاسکتا ہے! لیکن انسان کا مسئلہ عجیب ہے، وہ صرف دکھ یاد رکھتا ہے، اور دکھ سے کہیں زیادہ حاصل ہونے والی مسرت کو بھول جاتا ہے، یا وہ مسرت کو دولت اور اشیاء سے متعلق کرلیتا ہے۔ ایک صاحب کا بچپن وسائل کی قلت مگر بے پناہ محبت میں گزرا تھا۔ ایک دن انہوں نے اپنے اس دور کا ذکر اس طرح کیا جیسے انہیں اس دور کی ایسی کوئی بات یاد نہیں جو یاد رکھنے کے لائق ہو۔ ہم یہ سن کر حیران ہوئے اور سوچا کہ یہ محبت کے سمندر کو تو بھول گئے ہیں البتہ انہیں اپنی عسرت کا جزیرہ یاد ہے۔ بلاشبہ زندگی میں جبر بھی ہوتا ہے۔ انسان نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے نہ مرتا ہے، لیکن جبر کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادی تلاش کرنا ہی زندگی ہے۔
اردو شاعری میں فانیؔ کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کے المیہ پہلو پر اپنے معاصرین سے زیادہ غور کیا ہے، اسی لیے انہیں غم کو فلسفے میں ڈھالنے والا شاعر بھی کہا گیا ہے۔ فانیؔ نے زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے ؎
ہر نفس عمر گزشتہ ہی کی ہے میّت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا
بظاہر دیکھا جائے تو فانیؔ نے اپنے اس شعر میں زندگی اور موت کی کلّیت کو بیان کیا ہے، اور اس کلّیت ہی کو زندگی کہا ہے، لیکن غورکیا جائے تو فانیؔ کے اس شعر کی فضا اور لب و لہجہ ایسا ہے کہ اس شعر کے ہر لفظ میں میّت اور اس پر بین کرنے والوں کی بھیڑ موجود نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ موت زندگی پر پوری طرح سایہ فگن ہوگئی ہے اور اس نے زندگی کو زندگی نہیں رہنے دیا ہے۔ موت زندگی سے زیادہ بڑی حقیقت ہے، زندگی یقینی نہیں مگر موت یقینی ہے۔ لیکن موت کا شعور زندگی کی گہرائی، اس کی شدت، معنویت اور حسن و جمال کو بڑھاتا ہے، اسے فنا نہیں کرتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو فانی غم پر غور کرنے والے سے زیادہ اسے اوڑھ لینے والے نظر آتے ہیں۔ یعنی انہوں نے غم ہی کو اپنا تناظر بنالیا ہے۔
خیر فانیؔ تو اردو شاعری کی روایت میں اوسط درجے کے شاعر ہیں، لیکن غالب اردو کے تین بڑے شاعروں میں سے ایک ہیں۔ اس کے باوجود زندگی کے مخصوص تجربے کی اسیری کا مسئلہ ان کے یہاں بھی موجود ہے۔ غالب کی زندگی کو دیکھا جائے تو اس میں بے پناہ غم ہیں۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے اپنی کئی اولادوں کو دفن کیا اور تمام زندگی اولاد کے سُکھ سے محروم رہے۔ معاشی حالات کی خرابی کم و بیش ساری زندگی غالب کے تعاقب میں رہی۔ غالب کی زندگی میں ان کی عظمت کو زمانے نے اس طرح تسلیم نہیں کیا جس طرح اسے تسلیم کیے جانے کا حق تھا۔ غالب نے 1857ء کی جنگ ِآزادی کے بعد دہلی کو مقتل بنتے اور مغل سلطنت کو منہ کے بل گرتے دیکھا، چنانچہ غموں کی یلغار سے تنگ آکر غالب نے یہاں تک کہہ دیا ؎
زندگی اپنی جو اس طرح سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد رکھیں گے کہ خدا رکھتے تھے
لیکن غالب عظیم شاعر تھے اور وہ زندگی کے جزوی تجربے اور اس کے اثر سے بلند تر ہوکر زندگی کو دیکھ اور بیان کرسکتے تھے، چنانچہ انہوں نے کہا ہے ؎
کیا پوچھو ہو وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہوگئے
اس شعر میں غالب کی زندگی روشنی کا طواف بن گئی ہے اور انہوں نے زندگی کی کلّیت کو پوری طرح گرفت میں لے لیا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ غالب نے یہ کہہ دیا ہے کہ زندگی میں غم نہیں ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ غالب غم سے بلند ہوگئے ہیں اور انہوں نے زندگی میں غم کے باوجود نشاط کے رنگ دریافت کرلیے ہیں۔ غالب کا مشہورِ زمانہ شعر ہے ؎
غمِ ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
اس شعر کا آسان مطلب یہ ہے کہ غم کا علاج موت کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن ایک تو غالب کے اس شعر کی زبان و بیان اور لب و لہجے میں قنوطیت کا غلبہ نہیں، دوسرے ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ غالب کو غموں کی موجودگی کے باوجود زندگی شمع کی طرح روشن نظر آتی ہے، اور زندگی کے اختتام پر موت تاریکی کی نہیں صبح یا ایک نئی زندگی کی علامت ہے۔
اقبال کے یہاں زندگی کے غموں، دکھوں اور تکالیف کا انکار نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود اقبال کی شاعری کا بڑا حصہ اُس شاعری پر مشتمل ہے جو زندگی کی کلّیت کو اس طرح گرفت میں لیے ہوئے ہے کہ زندگی کائناتی رقص کا حصہ بن گئی ہے۔ اقبال کی مشہور زمانہ نظم ’’زندگی‘‘ اس طرح شروع ہوتی ہے ؎
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
انسان زندگی کو غم اور خوشی کے خانوں میں تقسیم کرتا ہے، اور غم کو انسان کا نقصان اور خوشی کو انسان کا فائدہ قرار دیتا ہے۔ لیکن اقبال کہتے ہیں کہ اصل زندگی ہی وہ ہے جو فائدے اور نقصان کی نفسیات سے بلند تر ہو۔ انسان فائدے اور غم کی نفسیات سے بلند ہوتا ہے تو اس پر زندگی کا راز آشکار ہوتا ہے، اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی اپنی اصل میں ایک تجربہ ہے، ایک Experience ہے، چنانچہ اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ اس کی کلّیت کو محسوس کیا جائے اور سمجھا جائے۔ اگر انسان زندگی کو بیک وقت محسوس کرنا اور سمجھنا شروع کردے تو زندگی کے تلخ اور تکلیف دہ تجربات بھی انسان میں منفی ردعمل یا Repulsion پیدا نہیں کرتے، بلکہ انسان میں ایسے تجربات کی بھی قبولیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اقبال کے مصرعے ’’ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیمِ جاں ہے زندگی‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ زندگی محض زندگی کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا مظہر ہے۔ لیکن زندگی کی بلند ترین سطح یہ ہے کہ زندگی کو اللہ کی راہ میں قربان کردیا جائے۔ اقبال کے اس مصرعے میں تسلیم جاں کا یہی مفہوم ہے۔ انسان کی زندگی کا ایک پہلو یہ ہے کہ انسان زندگی کا تحفظ کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے زندگی کا تحفظ کرنا ہی سب سے بڑا ’’نقصان‘‘ ہے، اور زندگی کو اللہ کے لیے قربان کردینا ہی سب سے بڑا ’’فائدہ‘‘ ہے۔ اقبال کہتے ہیں ؎
تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم رواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اقبال کہہ رہے ہیں کہ زندگی کو وقت کے پیمانے سے ناپنا ٹھیک نہیں۔ زندگی کو ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کرنے سے ایک طرح کا فریبِ نظر پیدا ہوتا ہے، کیونکہ زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو فنا نہیں ہے۔ زندگی کا دریا مسلسل بہتا رہتا ہے اور انسان بوڑھا ہوکر بھی بوڑھا نہیں ہوتا بشرطیکہ اس کا دل جوان ہو۔ اقبال مزید کہتے ہیں ؎
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی
اقبال کے مطابق زندگی آدم کا راز ہے، ’’کُن‘‘ کا شعور ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کن کہا اور یہ ساری کائنات وجود میں آگئی، اسی طرح انسان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو تخلیقی صلاحیت دی ہے اسے بروئے کار لاکر اپنی دنیا خود پیدا کرے۔ جو انسان اپنی دنیا خود پیدا کرتا ہے وہی اصل میںزندہ ہے۔ جو شخص اپنی دنیا آپ پیدا نہیں کرتا وہ زندہ ہوکر بھی مُردہ ہے کیونکہ وہ ایسا کرکے زندگی کی اصل اور زندگی کی بنیادی حقیقت کو جھٹلاتا ہے۔
اقبال کے ان شعروں میں زندگی جزیرے کے بجائے ایک سمندر نظر آتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اقبال اپنے غموں کو جذب کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور انہوں نے زندگی کی کلّیت کو دیکھ لیا ہے، اور یہی کلّیت ان کا تناظر ہے۔ یہی حقیقی معنوں میں بڑے آدمی کی پہچان بھی ہے اور بڑی شاعری کی بھی۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہیں لکھا ہے کہ شاعری Life Time Burning کو ایک لمحے میں سمیٹ لینے کا نام ہے۔ یعنی شاعری اپنی اصل میں انسان اور زندگی کی کلّیت کا بیان ہے۔ اس کلّیت کی اہمیت یہ ہے کہ اس کا شعور اور بیان بجائے خود شاعرانہ چیز ہے، خواہ اس کی بنیاد پر شاعری کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو۔