میں بھی یوٹیوبر بنوں گا

429

”آؤ بھئی کامران! کہاں رہتے ہو آج کل؟ کام دھندے کی کیا صورتِ حال ہے؟ فیکٹری جارہے ہو یا ہمیشہ کی طرح گھر میں چارپائی توڑ رہے ہو، میرا مطلب ہے کام کررہے ہو یا آرام فرما رہے ہو؟“

”پچھلے ہفتے گیا تھا فیکٹری، یکم مئی کو بھی جانا ہوا، تمام ورکرز آئے ہوئے تھے۔“

”یکم مئی کو تو سرکاری چھٹی ہوتی ہے، تمام سرکاری و نجی محکمے بند ہوتے ہیں، تم کہاں چلے گئے؟“

”ہاں بالکل، تم ٹھیک کہہ رہے ہو، فیکٹری تو بند تھی لیکن مزدور یونین کی جانب سے یکم مئی کے حوالے سے ایک پروگرام تھا، بس اسی سلسلے میں جانا پڑا۔“

”تو پھر کیسی رہی تقریب، کیا تقاریر کی گئیں؟“

”تقاریر نہیں بلکہ ایک بھاشن تھا، وہ بھی صدر رحیم برنی کا۔ میرا مطلب ہے کہ صرف مزدور یونین کے صدر نے ہی بک بک کی تھی۔“

”ارے یہ کیا کہہ رہے ہو!“

”یہ بک بک نہیں تو اور کیا ہے، ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے: ”میرے مزدور ساتھیو! جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہر سال یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اور یہ بھی کہ اس دن کو منانے کا مقصد امریکا کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی جدوجہد کو یاد کرنا ہے، یعنی انسانی تاریخ میں محنت و عظمت اور جدوجہد سے بھرپور استعارے کا دن یکم مئی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ 1886ء میں امریکا کے شہر شکاگو میں سرمایہ دار طبقے کے خلاف اٹھنے والی آواز اور اپنا پسینہ بہانے والی طاقت کو خون میں نہلا دیا گیا تھا، مگر ان جاں نثاروں کی قربانیوں نے محنت کشوں کی توانائیوں کو بھرپور کردیا۔ میرے دوستو! آج کا دن کارخانوں، کھتیوں کھلیانوں، کانوں اور دیگر کارگاہوں میں سرمائے کی بھٹی میں جلنے والے لاتعداد محنت کشوں کا دن ہے، اور یہ محنت کش انسانی ترقی اور تمدن کی تاریخی بنیاد ہیں، ہماری جدوجہد کا واحد مقصد مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے“۔ یہ تھی تقریر.. وہی پرانا بھاشن.. برسوں پہلے شکاگو میں جو کچھ ہوا سب اسی کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔ فضول باتوں سے نہ صرف اپنا بلکہ ہمارا خون بھی جلاتے رہتے ہیں۔ اس سے کچھ ہونے والا نہیں۔ شگاگو کا تو مجھے علم نہیں لیکن ہمارے ملک میں تو ان محنت کشوں کے خون سے کوئی انقلاب نہیں آیا، یہاں تو سن اٹھارہ سو ہو یا تئیس سو.. وہی قانون، وہی جبر اور مزدوروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ پاکستان میں تو بس ایک ہی لیبر قانون نافذ ہے، یعنی کام کرو گے تو دیہاڑی ملے گی، بیمار ہوگئے تو دس دیگر صحت مند تمہاری جگہ لینے کے لیے تیار ہیں، حادثہ ہوگیا تو علاج خود کرانا ہوگا، مستقل ملازمت، اپائنٹمنٹ لیٹر، پراویڈنٹ فنڈ ، سوشل سیکورٹی، گریجویٹی، بونس… یہ سب خوابوں کی باتیں ہیں۔ سرکاری و غیر سرکاری سیکٹر کا کوئی ایک سیٹھ یا ادارہ بھی یہ نخرے برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ صبح سے شام تک ہم سے جانوروں کی طرح مشقت لی جاتی ہے، یہاں مزدور کا کوئی پرسانِ حال نہیں، عدالتوں میں بھی کوئی شنوائی نہیں، جبکہ صحافتی اداروں نے بھی اپنے پیشے کو کاروبار بنا رکھا ہے۔ صرف اشتہارات ملنے کے چکر میں اخبارات میں یکم مئی پر مزدوروں سے یک جہتی کے نام پر خصوصی ضمیمے شائع کیے جاتے ہیں، جبکہ متعدد چینلز بھی اس دن کی مناسبت سے علامتی پیکیج نشر کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ دکھلاوے اور بزنس کے سوا کچھ نہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، یعنی انہی اخبارات و چینلز میں 80 فیصد ملازم شارٹ ٹرم کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز پر کام کررہے ہیں، کیونکہ ان اداروں کے مالکان خوب جانتے ہیں کہ لوگوں کو مستقل ملازمت دینے کا مطلب یہ ہے کہ تنخواہ و مراعات ویج بورڈ ایوارڈ کے تحت دینا ہوں گی۔، ہر کوئی مزدور کو گھر کی لونڈی بنائے بیٹھا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس وقت کسی پاکستانی میڈیائی ادارے میں مہینہ ختم ہوتے ہی تنخواہ مل جانا معجزہ سمجھا جاتا ہے- تین، چار، پانچ، چھ ماہ تنخواہ نہ ملنا کوئی غیر معمولی مسئلہ نہیں، جس کے باعث ورکرز خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی جانب سے مزدور کی تنخواہ کم از کم پچیس ہزار کے بار بار اعلانات تو کیے جاتے ہیں مگر ہم جیسے غریب مزدور کی قسمت میں آج بھی پندرہ ہزار ماہانہ ہیں بلکہ اس سے بھی کم۔ پھر اس پر مزید ظلم یہ کہ ڈیوٹی کا وقت 10 یا12گھنٹے بلکہ 18 گھنٹے تک کردیا گیا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکومت اعلان تو کردیتی ہے مگر اپنے کیے ہوئے اعلان پر عمل نہیں کرواتی۔ پاکستان میں کارخانوں، ملوں، فیکٹریوں، بھٹوں، ہوٹلوں، دکانوں، پرائیویٹ اسکولوں وغیرہ میں سروے کیوں نہیں کرتی کہ ایک مزدور کو کیا دیہاڑی مل رہی ہے؟ میں نے تو سوچ لیا ہے بھاڑ میں جائے فیکٹری، میں اب ویڈیوز بناکر یوٹیوب پر اَپ لوڈ کروں گا اور گھر بیٹھے ڈالر کماؤں گا، اور تو اور ٹک ٹاک بنا کر الگ سے مال کماؤں گا۔ یہ دور موبائل کا دور ہے، دھوپ میں محنت مزدوری کرنے سے کہیں بہتر ہے گھر میں رہ کر پیسہ کمایا جائے، اور اس میں حرج ہی کیا ہے! ساری دنیا اسی چکر میں لگی ہوئی ہے، آج یہی ترقی اور خوشحالی کا واحد راستہ ہے۔“

……………….

کامران کی باتوں میں ایک طرف اگر مزدوروں کے استحصال کی نشاندہی کی گئی ہے تو دوسری جانب راتوں رات امیر بن جانے کا نسخہ بھی دیا گیا ہے۔ جہاں تک مزدوروں کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کا تعلق ہے تو اس کی مخالفت کوئی بھی ذی شعور نہیں کر سکتا، بلکہ اس کے لیے تو قرآن کی ہدایت بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: ”اور دیکھو، اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت عطا کی ہے، پھر جن لوگوں کو یہ فضیلت دی گئی ہے وہ ایسے نہیں ہیں کہ اپنا رزق اپنے غلاموں کی طرف پھیر دیا کرتے ہوں تاکہ دونوں اس رزق میں برابر کے حصے دار بن جائیں۔ تو کیا اللہ ہی کا احسان ماننے سے ان لوگوں کو انکار ہے؟“ (النحل)

آیت قرآنی واضح طور پر بتا رہی ہے کہ جس کے پاس مال و دولت ہو وہ اپنے غلاموں یا مزدوروں کو اس کا حصے دار بنائیں، یعنی انہیں اتنی مزدوری دیں جس سے ان کی گزربسر ہوسکے۔

جہاں تک یو ٹیوب پر ویڈیو اَپ لوڈ کرکے مال کمانے کا تعلق ہے تو یہ عمل ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ سرایت کرتا جارہا ہے، جسے دیکھو وہ اسی مشق میں لگا ہوا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں طرح طرح کی ویڈیوز بنانے میں دن و رات کا اکثر حصہ صرف کررہے ہیں۔ کوئی چٹکلے، کوئی جنسی مسائل، کوئی پکوان، کوئی کام کاج، کوئی فتنہ پرور، کوئی فحش و منکر، کوئی کہانی وکارٹون، کوئی خاص و عام ہر قسم کی چیزیں نشر کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، خاص طور پر نوجوانوں میں تو ویڈیوز بنانے کا جنون سا پیدا ہوگیا ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ گوگل کی طرف سے اَپ لوڈ کی گئی ویڈیوز پر پیسے ملتے ہیں،اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ عمل گھر بیٹھے آسانی سے پیسے کمانے کا ذریعہ بنتا جا رہا ہے، اس لیے نہ صرف کامران بلکہ اس جیسے لاکھوں لوگ اس جانب مائل ہورہے ہیں جس سے نہ صرف نوجوانوں کا مقصدِزندگی ختم ہورہا ہے بلکہ روشن مستقبل، جہد و عمل اور انقلابی کوششیں دھندلے پن کا شکار ہوتی جارہی ہیں، جبکہ بہت سے ناعاقبت اندیش نوجوانوں کی وجہ سے لوگوں میں فحش و منکرات کو بڑی تعداد میں فروغ مل رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نہ جانے کتنے لوگ جھوٹے مفتی، فریبی اسلامی اسکالر، دفاع عن الاسلام والسنہ، مناظر، محقق بنے ہوئے ہیں اور سادہ لوح عوام میں ان کے جھوٹ کی وجہ سے منہج و عقیدے کا فساد اور علم و فن کے نام پر گمراہی پھیلائی جارہی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک شخص اگر کوئی بات یوٹیوب پر اَپ لوڈ کرتا ہے تو دوسرا اس پہ ضرب لگانے لگتا ہے، نہ صرف ضرب لگاتا ہے بلکہ گالیاں تک دینے لگتا ہے جس پر دونوں فریق اپنے اپنے تئیں پھولے نہیں سماتے۔ اس سارے عمل پر کوئی یہ سوچنے کو تیار نہیں کہ ویڈیو آَپ لوڈ کرنے پر پیسہ کون اور کیوں دیتا ہے؟ یا یہ ڈالرز بانٹنے کے پیچھے کیا عوامل ہیں؟ خیر جو بات ہمیں سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جس کو بھی پیسہ ملتا ہے اسے اس بات کا پیسہ ملتا ہے کہ جس ویڈیو پہ گوگل کمپنی کسی چیز کا پرچار کرتی ہے اس پرچار سے گوگل پہلے اس کمپنی سے منافع کماتا ہے جس کا پرچار کیا ہے اور اس منافع میں سے گوگل ویڈیوز اَپ لوڈ کرنے والے اُس شخص کو بھی دیتا ہے جس کی ویڈیوز پر اشتہار نشر کیا جاتا ہے۔ جو بھی ہے ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ اگر اللہ نے آپ کو ویڈیوز بنانے کا جوہر دیا ہے تو اس جوہر سے ملک و قوم کو فائدہ پہنچائیں، لوگوں کی مشکلات کے حل کے سلسلے میں پروگرام بنائیں، یعنی اصلاحی و تعمیری سرگرمیوں کے حوالے سے وڈیوز اَپ لوڈ کریں، لیکن یہ بات دھیان میں رہے کہ اسے زندگی کا اصل ہدف نہ ٹھیرائیں، اپنی تخلیق کا اصل مقصد جانیں اور اس کے نفاذ کی کوشش کریں۔ یقیناً انٹرنیٹ جہاں مفید ہے وہیں مضر بھی ہے، اس کے مضمرات کو محسوس کریں اور ان سے بچیں، اور یاد رہے کہ اللہ کے یہاں حساب دینا ہوگا۔ میں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ خدارا سستی و جھوٹی شہرت اور حلت وحرمت کی پروا کیے بغیر بن محنت مالی منفعت کے حصول اور فواحش ومنکرات کا سبب بننے سے بچیے۔ آخر میں والدین سے اتنا ہی کہوں گا کہ وہ اپنی اولاد پر نظر رکھیں، ان کی تربیت پر توجہ دیں۔ اگر آج نوجوانوں کی صحیح نہج پر تربیت نہ کی گئی، ان کی سمت کا تعین نہ کیا گیا اور ان کو ان کے روشن مستقبل سے روشناس نہ کرایا گیا تو کل ہمارے پاس ہاتھ مَلنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

حصہ