جاپان میں یہ خیال عام ہے کہ بھوت پریت اکثر بلی لومڑی یا بجو کی شکل میں پھرا کرتے ہیں۔ بلی اور لومڑی والے بھوت تو خطرناک سمجھے جاتے ہیں لیکن بجو والا بھوت کسی کو ستاتا نہیں بلکہ وہ ہلکی پھلکی شرارتیں کر کےلوگوں کا دل بہلاتا ہے اور انہیں خوش کرتا اور ہنساتا ہے۔
اکثر ایسا ہوا ہے کہ کسی سنسان سڑک سے گزرنے والے مسافر کے کانوں میں پاس کے جنگل سے ڈھول بجنے کی آوازیں آنے لگیں اور جب مسافر نے وہاں جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بجو صاحب اپنے پچھلے پیروں پر کھڑے ہوئے شور مچار رہے ہیں، بےچارہ مسافر گھبرا کر بھاگا اور بجو صاحب قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔
اب سنو ایک تھا کسی مندر کا پروہت اور اس کے پاس تھی ایک تانبے کی کیتلی۔ اس کیتلی میں پانی گرم کر کے وہ چائے بنایا کرتا تھا۔ ایک دن جو وہ چائے بنانے کے لیے کیتلی اٹھانے چلا تو دیکھتا کیا ہے کہ کیتلی میں سے ایک سر جھانک رہا ہے اور اس کی ٹونٹی میں سے بچوں کے دو ہاتھ نکلے ہوئے ہیں پروہت غریب بہت ڈرا اور اپنی جھونپڑی کی طرف بھاگا منہ پھیر کر دیکھا تو وہ کیتلی بھی جھومتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی، پروہت جلدی سے بھاگ کر اپنی کٹیا میں گھس گیا اور اندر سے کواڑ بند کر لیے۔ پھر اسے اپنی کیتلی میں سے قہقہوں کی آواز سنائی دی تھوڑی دیر بعد جب پروہت نے جھانکا تو کیتلی زمین پر رکھی ہوئی تھی اور سر اور ہاتھ غائب تھے۔ پروہت باہر نکلا اور ڈرتے ڈرتے کیتلی کو اٹھایا اور اسے ایک بکس کے اندر بند کر دیا۔
اگلے دن ایک ٹھیٹرا اس گاؤں سے گزرا جہاں پروہت رہتا تھا پروہت نے سوچا لاؤ اس کے ہاتھ وہ کیتلی بیچ کیوں نہ ڈالیں، ایسی چیز گھر میں نہیں رکھنی چاہئے، خدا جانے کیا نقصان پہنچا دے، جب ٹھیٹرا اس کی طرف آیا تو پروہت نے وہ کیتلی اسے دکھائی اور اونے پونے داموں میں اس کے ہاتھ فروخت کر دی۔
ادھر ٹھٹیرا چند ٹکوں میں اتنی عمدہ کیتلی لے کر بہت خوش ہوا ادھر پروہت سوچنے لگا کہ آج ٹھٹیرے کو خوب الو بنایا۔
کیتلی پر تو تم جانو بجو کا قبضہ تھا ہی، وہ بھلا کب اپنی حرکتوں سے باز آنے والا تھا، رات کو جب ٹھٹیرا سو رہا تھا تو اس بورے میں سے جس میں اس نے کیتلی رکھ چھوڑی تھی طرح طرح کی آوازیں نکلنی شروع ہوئیں ٹھٹیرے کی آنکھ کھل گئی، وہ بہت حیران ہوا کہ یہ آواز کیسی ہیں، اٹھ کر بورے کو کھولا تو وہ پروہت والی کیتلی بورے سے نکل کر ناچنے لگی۔ کیتلی کے منہ میں سے بجو کا منہ اور اس کی ٹونٹی میں سے اس کے دونوں ہاتھ نکلے ہوئے تھے۔
ٹھٹیرا یہ تماشا دیکھ کر ڈرا نہیں بلکہ وہ بجو کی حرکتوں پر بہت ہنسا، پھر اسے خیال آیا کہ یہ تو بڑی دلچسپ چیز ہے، ایسی عجیب کیتلی کس نے دیکھی ہوگی، لاؤ اس کا نام جادو کی کیتلی رکھ دیں اور اس کا تماشا دکھا کر روپے کمائیں۔ ٹھٹیرے کے کام میں تو کچھ پلے نہیں پڑتا کیتلی کے تماشے سے پیٹ بھر کھانا تو مل جایا کرےگا۔
آخر ٹھٹیرے نے بجو کیتلی کو طرح طرح کے ہنسنے ہنسانے والے کرتب سکھا کر پھیری لگانی شروع کی، اس کیتلی کا تماشا جو دیکھتا ہنستے لوٹ جاتا۔
ٹھٹیرا دور دور مشہور ہو گیا، اس کا تماشا لوگ بڑے شوق سے دیکھتے تھے، جہاں جاتا ہزاروں آدمیوں کی بھیڑ لگ جاتی، اس کی بجو کیتلی کرتب دکھاتی رسی پر چلتی، درختوں پر چڑھتی وہاں سے کودتی اور جاپانی گتوں پر ناچتی۔ نوابوں اور راجاؤں کی طرف سے اس کو بلاوے آنے لگے اور وہ بڑے بڑے محلوں اور حویلیوں میں جاکر اپنی مشہور کیتلی کا تماشا دکھانے لگا۔
ہوتے ہوتے ٹھٹیرا خوش حال ہو گیا اور بہت آرام اور آسائش سے زندگی بسر کرنے لگا اور کافی روپیا اس نے جمع کر لیا۔ اب اس کیتلی لیے پھرنا اور گھر گھر کے پھیرے لگانا اچھا نہیں معلوم ہوتا تھا۔ آخر ٹھٹیرے نے، تانبے پیتل کے برتنوں کی ایک بڑی سی دکان کھول لی۔
بازی گری کا پیشہ ترک کرنے کے بعد بھی ٹھٹیرا کیتلی سے دل بہلایا کرتا تھا۔ اسے کیتلی والے بجو سے محبت تھی۔ بجو اس کے اشاروں پر چلتا تھا۔ مگر کیتلی کے کھیل دھندوں میں لگے رہنے سے اس کا وقت بہت ضائع ہوتا تھا اور دکان کی دیکھ بھال وہ ٹھیک طریقے سے نہیں کر سکتا تھا۔ آخر مجبور ہو کر اس نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اس کیتلی کو اس پروہت کے سپرد کر دینا چاہئے جس سے اسے خریدا تھا، وہ اسے واپس لے کر بہت خوش ہوگا۔ پروہت اپنی کیتلی کی شہرت بہت دن سے سن رہا تھا اور سوچا کرتا تھا کہ میں خواہ مخواہ بجو سے ڈر گیا، بجو کسی کو ستاتا نہیں ہے بلکہ اپنی حرکتوں سے سب کو ہنساتا ہے، میں نے بڑی غلطی کی کہ وہ کیتلی اتنی سستی بیچ ڈالی۔
ٹھٹیرا جب کیتلی لے کر پہنچا تو پروہت بہت خوش ہوا، اس نے کیتلی حاصل کر کے ٹھٹیرے کا بہت شکریہ ادا کیا اور ٹھٹیرے کو اس کے دام واپس دینے لگا۔ مگر ٹھٹیرے نے کہا کہ ’’میں دام واپس نہیں لوں گا‘‘میں نے اس کیتلی سے بہت روپیا کمایا اور ایک دوکان بھی کھول لی جو عمر بھر کے لیے میری گزر بسر کا ذریعہ بنی رہےگی، یہ کیتلی تو میں آپ کو بہ طور تحفے کے پیش کرنے آیا ہوں۔‘‘
مگر اس مرتبہ پروہت کے پاس آکر کیتلی ہر دوسری کیتلی کی طرح پانی گرم کرنے کا ایک برتن رہ گئی، نہ وہ اب ناچتی تھی نہ کرتب دکھاتی تھی نہ کھیلتی کودتی تھی۔ بجو کو ٹھٹیرا پسند تھا، پروہت نہیں۔