شوال کے اہم واقعات

1548

شوّال کے نام کی وجہ تسمیہ واضح نہیں ملتی‘ مختلف جگہوں پر مختلف وضاحتیں لکھی ہوئی ہیں جس کی مختصر تفصیل لکھی جارہی ہے:

شوال کا لفظ عربی زبان کے مقولے ’’شالت الابل باذنابہا للطراق‘‘ سے ماخوذ ہے اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹ جفتی کے لیے اپنی دُم اٹھائے، اس کی جمع ’’شواویل‘‘، ’’شواول‘‘ اور ’’شوالات‘‘ آتی ہے ۔

بعض جگہ لکھا ہے کہ ’’شوال ’’شول‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دم اُٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا ہے۔) کہا جاتا ہے کہ اس مہینے عرب سیروسیاحت کے لیے اُٹھ جاتے یعنی کہ باہر چلے جاتے۔

ایک جگہ لکھا ہے کہ شوال شائلہ سے نکلا ہے۔ یاد رہے کہ شائلہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو سات آٹھ ماہ کے حمل کے دوران اپنا دودھ دینا بند کردیتی ہے۔ ایام جاہلیت میں یہ ایسے موسم میں آتا تھا جب کہ اونٹنیوں کا دودھ اٹھ جاتا تھا لہٰذا اسے شوال کا نام دیا گیا ۔

شوال کے روزے :
شوال میں عید کے دوسرے دن سے چھ دن کے روزے رکھنا بڑا ثواب ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس آدمی نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور پھر اُن کے ساتھ چھ روزہ ملائے تو اس نے گویا تمام عمر روزہ رکھے۔ ( یہ روزہ مستحب ہیں)

اللہ کے رستے میں پہلی تیراندازی:
سریہ عبید ہ ؓ بن حارث بن عبد المطلب انہی کی قیادت میں ہجرت کے 8 ماہ بعد بطن رابغ بھیجا گیا۔ اس میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓنے اللہ کی راہ میں پہلا تیر چلایا۔ اس سریہ میں 60 افراد تھے جو سارے کے سارے مہاجرین تھے۔

حضرت عائشہؓ کی رخصتی:
ہجرت کے چھ ماہ بعدام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی عمل میں آئی۔ ان کا سن مبارک اس وقت 9 برس تھا۔ حضرت عائشہ ؓ کا نبی اقدسؐ سے عقد قبل ازیں 10شوال میں ہجرت سے تین سال قبل ہو چکا تھا اس وقت ان کی عمر چھ برس تھی۔ ایک قول کے مطابق رخصتی 2ھ کو ہو ئی بہرحال شوال ہی کا مہینے تھا ۔

نماز عید الفطر :
شوال سنہ 2ھ میں پہلی دفعہ عیدالفطر کی نماز ادا کی گئی۔

مولد حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ :
شوال میں مسلمان مہاجرین میں سب سے پہلی ولادت حضرت عبد اللہؓ کی ہجرت کے پہلے سال ہو ئی۔

غزوہ قینقاع 2ھ :
بنو قینقاع یہودیوں کی ایک جماعت کا نام ہے‘ اُن کی عہد شکنی کی وجہ سے رسولؐ مدینہ منورہ میںابوالبابہ بن نذرکو اپنا قائم مقام بنا کر نکلے اور ان کے قلع کا پندرہ روز تک محاصرہ کیا اور ان کے سردار کوگرفتار کر کے جلا وطنی کا حکم دیا۔

غزوہ احد :
بروز ہفتہ7 شوال 3ھ (بمطابق23 مارچ 625ء ) یہ غزوہ تمام غزوات میں سب سے زیادہ دشوار ثابت ہوا۔ آنحضرتؐ ایک ہزار اشخاص کی معیت میں نکلے، راستے ہی میں عبدااللہ بن اُبیٔ (رئیس المنافقین) تین سو منافقین کو ساتھ لے کر واپس لوٹ گیا۔ اس طرح آپؐ کے ہمرا ہ صرف سات سو اشخاص رہ گئے۔ لشکر میں صرف دو گھوڑے تھے۔ مشرکوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ جن میں سات سو زرہ بند، دو سو گھوڑے اور کافی اونٹ تھے۔ اس غزوہ میں 70مسلمان شہید ہوئے جن میں عم رسولؐ حضرت حمزہؓ بھی تھے۔

غزوہ حمراہ الاسود:
جنگِ احد سے واپس ہوتے ہوئے دشمن اپنی جماعت کے ہمراہ مدینہ منورہ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر دوبارہ جمع ہو گئے تھے۔ حضور اکرمؐ تین سو ساٹھ صحابہ کے ہمراہ مقابلہ کے لیے نکلے لیکن ابوسفیان اور اس کے لشکر پر اللہ نے ایسا رعب ڈالا کے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور مقابلہ نہیں ہوا۔

غزوہ خندق:
غزوہ خندق جسے غزوہ احزاب بھی کہتے ہیں‘ حضرت سلمان فارسیؓ نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا جو کہ تقریباً پانچ کلو میٹر لمبی اور سوا دو سے ڈھائی میٹر گہری اور اتنی چوڑی تھی کہ ایک گھڑ سوار جست لگا کر بھی پار نہیں کرسکتا تھا۔ یہ خندق بیس دنوں میں مکمل ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار اور مشرکین کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی جو قریش، عظفان، قریظتہ، نصیر اور دیگر قبائل سے جمع ہوئے تھے۔ اس غزوہ میں چھ مسلمان شہید اور چار مشرک قتل ہوئے۔

غزوہ حنین :
6شوال 8ہجری: آپؐ مکہ مکرمہ سے گیارہ میل دور بارہ ہزار لشکر کے ہمراہ بنو ہوازن سے مقابلہ کے لیے تشریف لے گئے۔ اس غزوہ میں چار مسلمان شہید ہوئے اور 70 کافر واصل جہنم ہوئے۔

غزوہ طائف:
شوال8 ہجری: جنگ حنین سے فارغ ہو کر مال غنیمت تقسیم کیے بغیر جعرانہ سے طائف روانہ ہوئے۔ یہاں ثقیف آباد تھے ان کے قلع کا بیس روز تک محاصرہ کیا۔ اس غزوہ میں پہلی بار ’’منجنیق‘‘ گولہ باری کے لیے نصب کی گئی اس میں بارہ مسلمان شہید اور متعدد کافر قتل ہوئے۔ قلع فتح نہ ہو پایا اور آپؐ واپس جعرانہ تشریف لے آئے۔ بعد میں بنو ثقیف مسلمان ہو کر وہیں حاضر خدمت ہوئے۔

مولود امام بخاریؒ :
پیدائش بعد نماز جمعہ 13شوال 194ھ( 19 جولائی810 ء ) وفات 256ھ اصل نام محمد (کنیت ابوعبد اللہ) محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ تھا۔ امام بخای کے پر دادا مغیرہ حاکم بخارا امام جعفر کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے تھے ۔
مشہور کتاب الجامعہ المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہؐ و سنتہ و ایامہ ۔ صحیح بخاری کے نام سے مشہور ہے جو کہ ان کے استاد اسحق بن راہویہ کی خواہش پر لکھی گئی۔ اس بخاری شریف میں چھ لاکھ حدیثوں میں سے بغیر تکرار چار ہزار حدیثیں شامل ہیں۔ امام بخاری ؒ نے بخاری شریف تقریباً چھ سال حجاز میں قیام کے دوران لکھی۔
دوسری کتاب ’’ تاریخ کبیر‘‘ جو کہ ان کے بقول یہ کتاب مسجد النبویؐ میں روضہ اطہر کے جوار میں بیٹھ کر چاندنی راتوں میں تاریخ لکھی۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ امام بخاری اٹھارہ سال کی عمر میں مدینہ منورہ پہنچے اور اسی سفر میں انہوں نے تاریخ کبیر کا مسودہ تیار کرلیا تھا۔ امام بخاریؒ دنیا کے چار کبارحفاظ حدیث میں سے ایک تھے۔
مولود شاہ ولی اللہ ؒ :
پیدائش چار شوال1114ھ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(مظفر نگر) انڈیا میں پیدا ہوئے اور 63سال کی عمر میں انتقال ہوا۔شاہ صاحب ؒ کی شہرت تفسیر و ادب میں ہے لیکن آپ حدیث فہمی میں بھی درجہ اجتہاد کے مالک تھے اور آپ کاشمار مجتہدین میں ہوتا ہے۔ کمال و ادب جو عربیت کابہت بڑا جوہر ہے‘ اس میں آپ کو بہت بڑا کمال حاصل تھا ۔کتا ب ’’حجہ اللہالبا لغہ‘‘آپ کے اس کمال پر بین شاہد ہے ۔لوگو ں نے انہیں گیارہویں صدی کے نامور شعرا میں بھی ممتازمقام دیا ہے۔آپ کے اشعار عشق خداوندی سے سرشار تھے۔ ا کے دو صاحبزادے شاہ عبدالعزیز (جن کی وجہ سے برصغیر میں علم حدیث پھیلا ) دوسرے شاہ رفیع الدین (جن کی وجہ سے اردو میں قرآن کا پہلا ترجمہ ہوا)۔

حصہ