قرۃ العین حیدر کا شمار ان معدودے چند تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جن کے فن پر قلم اٹھانا بہت محنت اور مطالعہ مانگتا ہے۔ ان کا ناقابل تلقید اسلوب‘ منجھی ہوئی نثر‘ اشیا و احوال پر ان کی اچھوتی نظر‘ ایسی چیزیں ہیں جو آسانی سے نقاد کی گرفت میں نہیں آتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے فن پر ہمارے نقادوں نے بہت کم توجہ کی ہے۔ عینی کے ناولوں اور افسانوں پر لکھنے کے لیے کم از کم عالمی ادب‘ آرٹ‘ کلچر‘ موسیقی‘ تصوف و تاریخ‘ مذہب و سیاسیات کا اتنا مطالعہ ہونا ہی چاہیے جتنا مطالعہ افسانہ و ناول لکھنے کے لیے خود عینی نے کیا۔ ہمارے بیشتر نقاد بدقسمتی سے ادب کے علاوہ کسی دوسرے علم پر مشکل سے عبور رکھتے ہیں‘ اسی وجہ سے ان کے لیے عینی کے فن کا پارکھ ہونا دشوار ہوجاتا ہے۔
اردو کے جن نقادوں نے عینی کے فن پر مستقل تنقیدی تصانیف پیش کی ہیں ان میں ایک نام ڈاکٹر عبدالمغنی کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’قرۃ العین حیدر کا فن‘‘ 1985ء میں منظر عام پر آئی۔ 183 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں ڈاکٹر عبدالمغنی نے بہ حیثیت ناول نگار قرۃ العین حیدر کی انفرادیت‘ ان کے نسوانی کرداروں اور ان کے اسلوب نگارش کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے اور پھر ان کے تقریباً تمام ناولوں اور افسانوی مجموعوں کا الگ الگ تجزیہ کیا ہے۔
میں چونکہ عینی کے فن کا مداح ہوں لہٰذا یہ کتاب میں نے نہایت اشتیاق سے حاصل کی اور اس کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی لیکن پہلے ہی باب میں جب ڈاکٹر صاحب کے ان سطور پر پہنچا جس میں انہوں نے رقم فرمایا ہے:
’’دورِ جدید کے اردو ناول نگاروں میں صرف نسیم حجازی کا قرۃ العین کے ساتھ موازنہ مفید ہوگا۔ دونوں نے تسلسل کے ساتھ بہت ہی اعلیٰ پیمانے پر اپنے دائرے میں بہترین فن کار ہونے کا ثبوت دیا ہے اور تاریخی ناول نگاری میں نسیم حجازی کے مقابلے پر فنی طور سے قرۃ العین کی کوئی بڑی حیثیت نہیں۔‘‘
اتنا پڑھنے کے بعد کم از کم مجھ میں حوصلہ نہ تھا کہ مطالعہ جاری رکھتا۔ ادب میں اختلاف کی اپنی اہمیت ہے لیکن جب نقاد کا تنقیدی ذوق مشتبہ ٹھہرے تو پھر اس سے کسی بصیرت افروز بات‘ کسی روشنی کی توقع کی جاسکتی ہے؟ یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ یہ خاکسار نسیم حجازی کی ادبی اور قومی خدمت کا قائل نہیں۔ لڑکپن ان ہی کے اسلامی ناولوں کے مطالعے میں گزرا۔ ان کا احترام دل میں آج بھی ہے کہ تاریخ سے دل چسپی‘ حمیتِ دینی اور عادت مطالعہ ان ہی ناولوں کے مرہونِ منت ہیں لیکن جہاں تک ناول کے فنی حیثیت‘ تخلیقی سطح اور تاریخ کو ادب بنانے کے ہنر کا معاملہ ہے‘ ظاہر ہے دونوں ناول نگاروں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
نوے کے دہائی میں‘ ایک دن مشفق خواجہ صاحب نے فون پر ڈاکٹر عبدالمغنی صاحب کے بھارت سے تشریف لانے کی اطلاع دی۔ میرے دل میں عینی کے حوالے سے خلش تو تھی ہی‘ لہٰذا انٹرویو کا آغاز میں نے اپنی اسی شکایت سے کیا۔
ڈاکٹر عبدالمغنی یوں تو اردو کے ممتاز نقاد و محقق ہیں۔ ماہر اقبالیات ہونے کے ساتھ ساتھ پچاس سے زائد انگریزی اور اردو کتابوں کے مصنف ہیں۔ غالب‘ اقبال اور قرۃ العین کے فن پر ان کی مستقل تصانیف ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھارت کے صوبہ بہار سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں کی متھیلا یونیورسٹی کے وائس چانسلر‘ انجمن ترقی اردو بہار کے صدر‘ انگریزی ادب کے استاد رہے ہیں۔ انہوں نے صوبے میں اردو کو ثانوی زبان تسلیم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
زیر نظر گفتگو مشفق خواجہ مرحوم کی قیام واقع ناظم آباد میں ہوئی تھی۔
طاہر مسعود: شکایت یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب میں قرۃ العین حیدر کا موازنہ نسیم حجازی صاحب سے کیا ہے کیا آپ نے ادبی و فنی معیار کے اعتبار سے قرۃ العین حیدر کے ساتھ زیادتی تو نہیں کی ہے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: دیکھنے موازنہ کسی کا کسی سے ہوتا ہے تو ا س کی کوئی جہت ہوتی ہے۔ وہاں پر جہت ہے فن کی‘ اگر یہ قرۃ العین حیدر لکھتی ہیں‘ بالکل ادبی نقطۂ نظر سے اور اس میں کچھ جمالیات‘ کچھ صوفیات بھی ہوتی ہے۔ یہاں پر جو میں نے قرۃ العین کا موازنہ نسیم حجازی کے ساتھ کیا ہے تو اس کی جہت ہے فن‘ یعنی ناول نگاری کا فن نہ کہ موضوع۔ قرۃ العین حیدر کے موضوعات کچھ اور ہیں‘ نسیم حجازی کے کچھ اور لیکن فن کے اعتبار سے جس طرح ناول کا ارتقا ہونا چاہیے‘ اس کی کردار نگاری ہونی چاہیے‘ اس کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوںکہ نسیم حجازی کے ناول قرۃ العین حیدر کے ناولوں سے کم نہیں ہیں۔
طاہر مسعود: یعنی ہمارے ہاں ناول نگاری کی جو تاریخ لکھی جاتی ہے اور جو اب تک لکھی گئی ہے اس میں تو نسیم حجازی کا ذکر ہی نہیں آتا کیوں کہ انہیں اس درجے کا تخلیقی ادیب نہیں سمجھا جاتا جس درجے کے منشی پریم چند یا قرۃ العین حیدر ہیں یا اور کوئی؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: یہ تنقید نگاری کے شعور اور ذوق کی کمی ہے۔ یہ لوگ ادب کا مفہوم پوری طرح نہیں سمجھتے۔ انگریزی میں ناول نگاری میں مثال کے طور پر والٹر اسکاٹ کا ذکر ہوتا ہے‘ وہ نسیم حجازی کی طرح تاریخی ناول نگار ہے۔ اب اردو والے اگر اس بات کو نہیں سمجھتے تو یہ ان کے مطالعے کی کمی ہے۔ موضوع کچھ اور ہو یا تاریخ کچھ اور ہو۔
طاہر مسعود: ایک تخلیقی ناول نگار کی آپ کے ذہن میں کیا تعریف ہے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: میں نے جو ابھی عرض کیا ہے کہ ناول کے فن میں سب سے پہلے ماجرا سازی ہوتی ہے‘ پلاٹ میکنگ اور اس کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح کے کردار تخلیق کیے گئے‘ اس میں ان کے مکالمات بھی ہوتے ہیں۔
طاہر مسعود: دیکھیے صاحب! آپ یہ جو تعریف بیان فرما رہے ہیں گستاخی معاف ادنیٰ درجے کے اوصاف ہیں۔ اصل چیز تو زندگی کو کسی خاص زاویہ نگاہ سے تخلیقی سطح پر دی کھنا‘ کس طرح ایک ناول نگار کا زندگی کے بارے میں زاویہ نگاہ سامنے آتا ہے۔ تو اس اعتبار سے جو ہم موازنہ کریں گے نسیم حجازی کا قرۃ العین حیدر سے تو پھر کوئی موازنہ نہیں ہوسکے گا اس لیے کہ قرۃ العین حیدر کا ایک زاویہ نگاہ ہے زندگی کے بارے میں۔
ڈاکٹر عبدالمغنی: اب آپ نے جو سوال اٹھایا ہے اس معاملے میں نسیم حجازی کو ہی قرۃ العین حیدر پر برتری حاصل ہے۔ نسیم حجازی کا واقعی زاویہ نگاہ ہے‘ اسلامی تاریخ پر قرۃ العین حیدر کا تو زاویہ نگاہ کچھ بھی نہیں ہے تو اس لحاظ سے نسیم حجازی کو برتری حاصل ہے۔
طاہر مسعود: ادب میں ذاتی تعصبات کی کیا اہمیت ہے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: ذاتی تعصبات ہر شخص کے ہوتے ہیںجن کو آپ ترجیحات کہتے ہیں‘ تو وہ ترجیحات کسی نہ کسی ایسی چیز پر مبنی ہوتی ہیں جن کا تعلق پسند و ناپسند سے ہوتا ہے اور پسند و ناپسند میں تو ایک قسم کا تعصب تو ہوتا ہی ہے کہ ہم کسے پسند کرتے ہیں اور کسے ناپسند کرتے ہیں۔
طاہر مسعود: اس کی کوئی ادبی معنویت بھی ہوتی ہی یا نہیں؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: بالکل ہوتی ہے‘ آپ کے تعصبات جو بھی ہوں‘ یہ ادبی لحاظ سے قابل لحاظ نہیں ہیں۔ قابل لحاظ امر یہ ہے کہ آپ نے اپنے خیالات کو‘ تاثرات کو جو چاہے تعصبات پر مبنی ہوں‘ کس طرح فن کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس لیے ذاتی تعصبات فن میں خلل انداز نہیں ہوتے۔
طاہر مسعود: آپ کے خیال میں معروضی تنقیدی ہونی چاہیے یا نہیں؟ یعنی تنقید میں معروضیت کا کتنا دخل ہونا چاہیے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: تنقید کو اصولاً معروضی ہی ہونا چاہیے۔ ترجیح ہماری جو بھی ہو‘ پسند اور ناپسند جو بھی ہو لیکن ہم تنقید جس انداز میںکرتے ہیں وہ تو معروضی ہو سکتا ہے۔ جن معنوں میں تنقید کر رہے ہوں تو اندازِ تنقید کے معروضی یا غیر معروضی ہونے کا سوال اٹھتا ہے تو ہر حال میں تنقید کو معروضی ہونا چاہیے۔
طاہر مسعود: جب ہم کسی چیز کو کوئی ترجیح دے رہے ہوتے ہیں یعنی ادب میں کسی فن پارے کو کسی دوسرے فن پارے پر تو اس کی کچھ ادبی اور فنی بنیادیں تو ہوں گی یا اس لیے کہ ہم اسے اہم سمجھ رہے ہیںتو وہ اہم ہے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: دیکھیں بات یہ ہے کہ ہم کسی موضوع کا مطالعہ کیوںکریں؟ کسی مصنف پر تنقید کیوں لکھیں؟ ہم ہر ایک کو تو اس کے قابل نہیں سمجھتے تو بنیادی طور پر جب ہم موضوع کا انتخاب کرتے ہیںتو اس وقت ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ ہماری پسند اور ناپسند کیا ہے‘ ہماری ترجیح کیا تھی؟ تو اس لحاظ سے آپ اس کو تعصب کہیں یا جو کہیں‘ ہم نے کس کو ترجیح دی‘ کسی کو پسند کیا‘ کسی کو قابل ذکر سمجھا‘ کسی کو نہیں سمجھا۔ اس کے بعد جو ہم تنقید کریں گے ہمارا ایک زاویہ نگاہ تو ہوگا‘ نقطۂ نظر ہوگا۔ اب اس نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے اصل سوال یہ ہے کہ ہم نے تنقید کس طرح کی؟ مثال کے طور پر میں اپنی ہی تنقید پیش کر سکتا ہوں۔ میں نے احتشام حسین پر بھی لکھا اور جوش ملیح آبادی پر بھی لکھا‘ فیض پر بھی لکھا‘ فراق پر بھی لکھا‘ اقبال و غالب پر بھی لکھا تو مختلف الخیال مصنفین پر میں نے تنقید لکھی جن میں سے میں بعض کو بہت پسند کرتا ہوں‘ بعض کو ناپسند کرتا ہوں۔ احتشام حسین سے میرے خیالات مختلف‘ نقطہ نظر مختلف ہیں‘ نظریات مختلف ہیں لیکن انہوں نے کس چیز کو تسلیم کیا؟ میری تنقید کو چاہے ان کا جو نقطہ نظر ہو‘ میرا جو نقطہ نظر ہو لیکن میں نے تنقید لکھی ہے۔ اسی طرح سے جیسے جوش‘ فراق وغیرہ۔ یہ ہمارے بہت پسندیدہ شاعر تو نہیں ہیں‘ میں نے ان پر بھی لکھا تو یہ جو معروضیت ہے ایک بہت مبہم لفظ ہے اور اس کے مختلف معافی ہوسکتے ہیں لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ اصل میں تنقید کو تنقید ہوناچاہیے۔ اب پسندیدگی اور ناپسند کے سبب گالی دیتے چلے جائیں اور آپ کسی کو پسند کرتے ہیں تو آپ اس کا قصیدہ پڑھے جائیں۔
طاہر مسعود: تنقید کیوں ضروری ہے؟ شاید اسی لیے ہمارے بیشتر ادیب تنقید سے بے زار ہیں‘ وہ سمجھتے ہیں کہ نقاد‘ ایک ادیب اور قاری کے درمیان دخل در معقولات کرتا ہے‘ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: دیکھیے بات یہ ہے کہ کوئی شاعر ہو‘ افسانہ نگار ہو‘ ڈراما نگار ہو‘ کسی صنف میں تخلیقی ادب پیش کیا جائے اس کی کچھ تہیں ہوتی ہیں‘ گہرائیاں ہوتی ہیں۔ اب غالب ہی کے اشعار کو لے لیجیے‘ میر کو بھی لیجیے‘ اقبال کو بھی لیجیے‘ غالب کس شعر میں کیا کہنا چاہتے ہیں‘ میر کیا کہنا چاہتے ہیں‘ اقبال کیا کہنا چاہتے ہیں‘ ان کے شعر کا مفہوم کیا ہے اور شعری اعتبار سے وہ شعر کیسا ہے۔ یہ عام قاری کے بس کی بات نہیں ہے۔ پسند بھی کرسکتا ہے لیکن وہ تجزیہ نہیں کرسکتا‘ تو تجزیہ و تشریح کرکے کسی تصنیف کا مفہوم بتانا‘ اس کا مرتبہ تعین کرنا یہ تو تنقید ہی کر سکتی ہے۔ تنقید کا مطلب عربی میں جانچ پرکھ ہے۔
طاہر مسعود: تو ہمارے ہاں تنقید میں مدح و مذمت دو چیزوں کے علاوہ کوئی تیسری چیز نظر نہیں آتی کہ کسی فن پارے کا تجزیہ کیا جائے اور کھرے کھوٹے کو الگ کیا جائے۔ یہ رجحان نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں گروپ بازی‘ گروہ سازی اور ادب میں اس طرح کی چیزیں بہت پائی جاتی ہیں اس وجہ سے نقاد بھی بٹ گئے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالمغنی: یہ غلط بات ہے۔ میں نے اپنے ایک مجموعہ مضامین کا نام ’’جادۂ اعتدال‘‘ رکھا۔ پہلے مجموعہ مضامین کا ’’نقطہ نظر‘‘ کے دیباچے میں‘ میں نے بتایا کہ میرا ایک نقطہ نظر ہے اور ہر تنقید کا ایک نقطہ نظر ہونا چاہیے۔ تو میرا مطلب یہ ہے کہ جادۂ اعتدال پر رہتے ہوئے اس کے ساتھ آدمی کوئی تنقید کرے۔ جو تنقید جادۂ اعتدال سے ہوئی ہے‘ وہ انصاف نہیں کرتی ہے۔
طاہر مسعود: ہمارے نقادوں میں کون سے ایسے نقاد ہیں جن میں یہ اعتدال اور میانہ روی پائی جاتی ہے؟ کچھ ناموں کی بھی نشان دہی فرما دیں تو اچھا ہوگا۔
ڈاکٹر عبدالمغنی: دیکھیے بات یہ ہے کہ تنقید خاص کر ایک تو ذوقِ ادب سے تعلق رکھتی ہے‘ دوسرے شعور زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی ذوق‘ شعور دونوں کا اجتماع ہونا چاہیے جو ایک ناقد کے ذہن میں ہے۔ تو اگر آپ کو شاعری کا ذوق ہے تو جب ہی اس کو سمجھیں گے اگر زندگی کا شعور رکھتے ہیں تب ہی کسی شعر یا شاعر کر مرتبہ متعین کرسکتے ہیں۔ کوئی ادب خلا میں نہیں لکھا جاتا‘ ہر ادب کا رشتہ کسی سماج سے ہوتا ہے۔ تو ذوقِ ادب اور شعورِ زندگی یہ دو چیزیں تنقید نگار کے لیے ضروری ہیں‘ اس اعتبار سے جس کسی کو بھی تنقید لکھنی ہو‘ اس میں تنقید کی صلاحیت ہونی چاہیے۔ لکھنے والے تو بہت تنقید نگار ہیں لیکن سب ناقد یا نقاد نہیں کہے جاسکتے۔ چند ہی ہیں جن کو ناقد کہا جاسکتا ہے۔ یہ وہ ہیں جو ادب کا ذوق اور زندگی کا شعور رکھتے ہیں۔ اردو میں ماشاء اللہ متعدد تنقید نگار ہیں جن کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ آپ شبلی اور حالی سے شروع کریں‘ اس کے بعد جو دور آتا ہے۔
طاہر مسعود: فی زمانہ کون سے نقاد ہیں؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: پہلے میں اوپرکی بات مکمل کر دوں‘ پھر نیچے کی بات کروں گا۔ شبلی اور حالی کے بعد میری نگاہ میں قابل ذکر محقق عبدالحق تھے۔ انہوں نے تقریباً اس معیار کو برقرار رکھا جو حالی و شبلی نے قائم کیا تھا۔ اس کے بعد جو تنقید لکھنے والے سامنے آئے ہیں ان میں‘ میں ترجیحاً جو فہرست بنائوں گا تو پہلا نام آل احمد سرور کا ہوگا‘ دوسرا نام احتشام حسین کا ہے‘ تیسرا نام کلیم الدین احمد کا ہے۔ اس کے بعد کئی نام اور لیے جاسکتے ہیں۔
طاہر مسعود: اس میں آپ نے محمد حسن عسکری صاحب کا نام نہیں لیا جو بہت اہم سمجھے جاتے ہیں؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: نہ ان کو ادب کا ذوق تھا نہ زندگی کا شعور تھا۔ کیا تنقید لکھی ہے خدا کے بندے نے‘ ایک جگہ لکھ دیا کہ بہشتی زیور اردو کی بہترین نثر ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہو سکتی ہے؟
طاہر مسعود: کیا محض ان کے ایک جملے سے حسن عسکری صاحب کی پوری ادبی اور تنقیدی زندگی جو تیس چالیس سال پر پھیلی ہوئی ہے‘ اسے رد کیا جاسکتا ہے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: میں نے ایک مثال دی آپ کو‘ مشرق کی بازیافت کا ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے یا ایک فقرہ کہنے کو تو کچھ لوگ ایسا سمجھتے ہیں کہ مشرق کی طرف عصرِ حاضر میں جو رجحان پیدا ہوا ہے تو عسکری صاحب اس کے بانی ہیں یا علم بردار ہیں‘ لیکن لطیفہ اس میں یہ ہے کہ مشرق کی بازیافت عسکری صاحب نے مغرب کے ذریعے کی ہے اور اس کی مثال یہ ہے کہ ان کے پیر طریقت نو مسلم ہیں۔ رینے گینوں فرانسیسی ہیں اور شیخ عبدالواحد ان کا اسلامی نام رکھا گیا ہے۔ اب بتایئے کہ رینے گینوں کا مبلغ علم کیا تھا؟ اسلامیات کے بارے میں مشرقیات کے بارے میں‘ عصر حاضر میں بھی جو بڑے بڑے علمائے دین اور علمائے اسلام گزرے ہیں ان کے مقابلے میں رینے گینوں کوئی ہستی نہیں ہے اور عسکری صاحب کے پیر طریقت رینے گینوں ہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ آپ اردو ماحول میں ہیں‘ اردو پڑھ رہے ہیں اور بڑے بڑے علمائے دین یہاں موجود ہیں اور پھر آپ نے رشد و ہدایت کے لیے رینے گینوں سے رجوع کیا ہے۔ یعنی اس کا اسلامیات پر کام ہی کیا ہے؟ جس کا یہ علم‘ یہ شعور اور ذوق ہو‘ میں اس کو کیسے اچھا تنقید نگار مان لوں؟
طاہر مسعود: تو پھر آپ کلیم الدین احمد صاحب کو نقادوں میں کہاں شمار کرتے ہیں؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: دیکھیے عسکری صاحب ہماری نسل اور کلیم الدین احمد کی نسل میں بیچ کی کڑی ہیں‘ تو عسکری صاحب ہمار ے ہم عصر ہوئے گرچہ عمر میں ہم سے زیادہ تھے‘ اب تو دنیا سے بھی رخصت ہوگئے۔ تو اگر اب میں نام لوں گا تو اپنے ہم عصروں کا نام لوں گا اور یہ بڑی مشکل ہے۔
طاہر مسعود: اچھا ہمارے پاکستان میں جن ہندوستانی ادیبوں اور نقادوں کا بہت زیادہ ذکر ہے کیا جاتا ہے اور انہیں اہمیت دی جاتی ہے‘ ان میں نارنگ صاحب ہیں‘ پھر شمس الرحمن فاروقی ہیں‘ پھر وارث علوی ہیں اور پھر شمیم حنفی وغیرہ۔ ان لوگوں کے نام مضامین اور زبانی تذکروں میں بھی خوب آتے ہیں۔ پاکستان کے کن نقادوں کا وہاں ذکر کیا جاتا ہے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: ایک شمس الرحمن فاروقی کے علاوہ باقی جتنے نام آپ نے لیے ہیں ان کا تنقید سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے تنقید لکھی ہے اور تنقید نگار وہ کہے جاسکتے ہیں‘ لیکن معمولی درجے کے تنقید نگار ہیں‘ علم کے اعتبار سے بھی اور تنقیدی اسلوب کے اعتبار سے بھی۔ اگر آپ کے ہاں لوگ یہ نام لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ہاں تنقیدی شعور کی کمی ہے۔ اب رہے پاکستان میں لکھنے والے کا چرچا وہاں بھی ہوگا۔ آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ہندستان میں ان کا کیا چرچا ہے؟ تو آل احمد سرور کے دور کی جو نسل تھی‘ اس میں آپ کے ہاں سب سے بلند مرتبہ ناقد وقار عظیم ہیں۔ ان کے ہم عصروں میں ڈاکٹر سید عبداللہ ہیں‘ یہ اس دور کے اچھے ناقدین ہیں۔ یہ جو دور ہے ابھی‘ ہمارے ہم عصروں کا دور ہے‘ اس میں سب سے زیادہ وزیر آغا کا نام لیا جاتا ہے۔ اب وزیر آغا کی تنقید کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا بہت چرچا ہوا ایک زمانے میں‘ وہ تھی ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ اس ایک کتاب کا آپ اگر تجزیہ کرلیں تو وزیر آغا کے تنقید کے ذوق‘ شعور کا پتا چل جائے گا۔ اوّل تو اس کتاب میں ادب کی کمی ہے اور عمرانیات زیادہ ہے‘ جو عمرانیات کی انگریزی کتابیں ہیں ان کا چربہ یا خلاصہ یا سرقہ کیا ہے۔ اور ان کی اپنی دریافت بہت کم ہے۔ ان کا عالم یہ ہے کہ وہ دورِ قدیم کی طرف دوڑے چلے گئے کیوں کہ موہن جو ڈرو پاکستان کے حصے میں پڑ گیا ہے‘ اس لیے موہن جو ڈرو سے انہوں نے اردو شاعری کا رشتہ جوڑا ہے۔ اب جس آدمی کے عقل و شعور کا عالم یہ ہو‘ اس کے بارے میں کچھ کہنا بے کار ہے۔
طاہر مسعود: ہمارے ہاں ’’مدرسانہ‘‘ تنقید کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے‘ اس مدرسانہ تنقید میں وہی نام ہیں جو آپ نے پسندیدگی کے ساتھ لیے ہیں‘ اس بارے میں آپ کچھ ارشاد کریں گے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: دراصل لفظ ’’مدرسانہ‘‘ محتاج تشریح ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟
طاہر مسعود: اس کا مطلب مدرسے کی تنقید ہے۔
ڈاکٹر عبدالمغنی: بہت پہلے فارسی کے ایک شاعر نے کہا تھا ہم نے جو شاعری کی اس کی پڑھائی کیا مدرسے میں ہونے لگی ہے‘ یعنی اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ شاعری کا مطالعہ شاعری کی طرح نہ کیا جائے بلکہ اس کا تدریسی استعمال کیا جائے۔ بات یہ ہے کہ شاعری کی تدریس نہیں ہوتی۔ اب مدرسانہ تنقید کیا ہوتی ہے‘ جیسا میں نے کہا محتاج تشریح ہے اگر اس مطلب یہ ہے اور شاید یہی ہو کہ تنقید میں گویا ایک تبلیغ کی صورت پیدا ہو جائے۔
طاہر مسعود: یا یہ کہ قارئین کو طالب علم تصور کرکے فن پارے کو اس طرح سے سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ جس میں ہر بات کو ایک نچلی سطح پر قارئین کی ذہنی سطح پر لانے کی کوشش کی جائے۔ تخلیقی انداز میں کسی فن پارے کو سمجھنے کی اور اس کی گہرائی میں جانے نہ صلاحیت ہو اور نہ اس کی فکر ہو۔
ڈاکٹر عبدالمغنی: بھئی یہ تنقید ہی نہیں ہے۔
طاہر مسعود: غالباً وقار عظیم کی تنقید تو ایسی ہی تھی۔ اس میں کوئی گہرائی پائی جاتی ہے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: نہیں نہیں‘ میں آپ کی بات سے اختلاف کرتا ہوں۔ وقار عظیم کی تنقید مدرسانہ نہیں ہے۔ اگر تنقید تخلیقی ہو سکتی ہے تو جس طرح آل احمد سرور اور احتشام حسین کے نام آتے ہیں‘ اس طرح کی تخلیقی تنقید میں وقار عظیم کا نام آتا ہے یہ دوسری بات ہے کہ انہوں نے بعض ایسے موضوعات پر لکھا ہو جن کا تعلق یونیورسٹیوں کے نصاب سے ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ تنقید ہی تدریسی ہو گئی اور جن لوگوں کے نام میں نے لیے ان کی بھی تنقید نصاب میں شامل ہے تو پھر ان کی بھی تنقید تدریسی ہو گئی۔
طاہر مسعود: اچھا یہ فرمایئے کہ ایک بات بڑے تواتر کے ساتھ کی جا رہی ہے کہ ہمارے اردو ادب پر جمود طاری ہے‘ اس کے برعکس دوسری زبانیں جیسے ہندی ہے‘ خود ہمارے پاکستان میں سندھی زبان ہے‘ تو دوسری زبانوں میں ادب تو لکھا جا رہا ہے‘ کہانیاں اچھی لکھی جا رہی ہیں لیکن ہمارے ہاںجو اردو ادب میں جمود کی صورت حال اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر عبدالمغنی: یہ جمود والی بات صحیح نہیں ہے‘ جمود اور انحطاط میری پوری بات تو سمجھیے کہ بحیثیت مجموعی پوری دنیائے ادب میں زوال ہے‘ کسی زبان‘ کسی ملک کا ادب ہو‘ اس میں سب کچھ آ گیا۔ اردو کا دوسری زبانوں سے کیا مقابلہ کر رہے ہیں‘ اردو ادب کا جمود بھی ان زبانوں کے مقابلے میں ترقی ہے‘ جن کا نام آپ لے رہے ہیں تو جمود نہیں ہے۔ ایک دوسری بات ہے جسے ہم انتشار کہتے ہیں یا زوال کہتے ہیں‘ وہ الگ چیز ہے اور جمود دوسری چیز ہے۔ جمود کا تو مطلب یہ ہے کہ تخلیقی سرچشمے بند ہو جائیں اور تخلیقی تصنیفات کا سلسلہ رک جائے۔ جہاں پر ادب تھا وہیں پر رہ جائے۔ ایسا تو نہیں ہے۔ البتہ انت