روبوٹ

318

شادی ہال کی آرائش اور چکا چوند دیکھ کر ایک لمحے کو تو ثنا دنگ رہ گئی۔ بقعہ نور بنے شادی ہال میں کہیں میکسیاں تو کہیں غرارے، کہیں انگرکھے اور چوڑی دار پاجامے تو کہیں بنارسی ساڑھیاں… سج دھج اتنی زیادہ تھی کہ چہرے پہچان میں نہ آرہے تھے۔
ثنا بت بنی کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔ کہیں وہ کسی اور شادی میں تو نہیں آگئی! کیوں کہ اس کی پھوپھی زاد کوثر کے حالات اور یہ شادی ہال ایک دوسرے سے میچ نہیں کررہے تھے۔ لیکن پھر اسے دو چار شناسا چہرے نظر آئے تو اس کی رکی سانسیں بحال ہوئیں۔ ’’شکر ہے صحیح جگہ پہنچی تھی۔‘‘
’’یہ کوثر کتنی گھنی نکلی ہے، ہر وقت اپنے حالات کا رونا روتی رہتی تھی اور اب بیٹی کی شادی پہ اتنے ٹشن!‘‘
یقیناً کل رات مہندی اور نکاح کا فنکشن بھی ایسا اہی شاندار ہوا ہوگا۔ ثنا کو اپنے بیٹے کے فائنل پیپر کی وجہ سے مہندی، نکاح میں شرکت نہ کرنے پر افسوس ہورہا تھا، یا شاید اس بات کا کہ وہ کل رات والے فنکشن کے انتظامات بھی دیکھنا چاہتی تھی۔
سامنے سے اپنی پھوپھی زاد کوثر کو آتا دیکھ کر ثنا کے خیالات کا سلسلہ تو وہیں رک گیا مگر زبان اظہار سے باز نہ آسکی:
’’کوثر! بیٹی کی شادی بہت مبارک ہو، بھئی تم تو چھپی رستم نکلیں، اتنا مہنگا شادی ہال اور یہ… اتنی سج دھج؟ تم کب سے تیاریاں کررہی تھی؟‘‘
’’چھپی رستم کی کیا بات کہی تم نے! یہ سب تو بس میری حمنہ کی ضد تھی کہ اس کی شادی پہ میرج لان تو بالکل ویسا ہو جیسا فلاں اداکارہ اور اداکار کی شادی کا تھا، اور حمنہ نے تو اپنے پاپا سے بھی کہہ دیا تھا شادی روز روز تھوڑیا ہوتی ہے، شادی تو اتنی دھوم دھام سے ہونی چاہیے کہ لوگ دیکھتے رہ جائیں۔‘‘کوثر اتراتی ہوئی بولی۔
’’اچھا… اچھا۔‘‘ ثنا کے منہ سے مریل سی آواز نکلی، اس کے دماغ میں کوثر کے میاں اشرف بھائی اپنی محدود آمدنی اور وسائل کے ساتھ گھوم گئے۔
اتنے میں گولڈن اور میرون کلر کا خوب صورت شرارہ اور گاؤن پہنے دلہن بنی حمنہ اپنی بہنوں کے جھرمٹ میں برائیڈل روم کی طرف جاتی دکھائی دی۔
’’حمنہ کا جوڑا دیکھنا تم، بالکل فلاں اداکارہ کے جیسا بنوایا ہے، اور برائیڈل میک اَپ کے لیے تو دس پارلر گھومی، تب جاکر کہیں حمنہ کا دل ٹھکا تھا۔‘‘ کوثر ثنا کو برائیڈل روم کی طرف لے جاتے ہوئے بتا رہی تھی یا پھر سنا رہی تھی۔
ثنا کو کوثر کے اتنے مہنگے جوڑے اور فل میک اپ کو دیکھ کر صحیح اندازہ نہ ہوسکا، لیکن یہ سب افورڈ کرنا…‘‘ ثنا نے دانستہ بات ادھوری چھوڑ دی۔
ثنا کو ہر وقت کا گلہ شکوہ کرتی کوثر یاد آگئی، جو اخراجات پورے نہ ہونے پر ہلکان ہوتی رہتی تھی۔
’’حمنہ کی شادی کے لیے اس کے پاپا نے اپنی کمپنی سے قرض لیا ہے۔‘‘ کوثر نہایت آہستگی سے بولی۔
’’قرض… قرٍض کیوں؟‘‘ ثنا اس سے زیادہ اور کچھ نہ کہہ پائی۔
’’بچیاں اپنی سہیلیوں اور کزنوں کی شادیاں دیکھتی تھیں تو اپنے گھر کی شادی کے لیے بچیوں کے سو شوق اور ارمان تھے اور… اور پھر ہم نے بھی سوچا دنیا داری بھی تو کوئی چیز ہے، اب سسرال میں بھی عزت بنی رہے گی، رہا قرض تو آہستہ… آہستہ ہم اتارتے رہیں گے۔‘‘
کوثر سرگوشی میں کہتے ہی ثنا کو برائیڈل روم میں چھوڑ کر دوسرے مہمانوں کو ویلکم کرنے چل دی۔
ثنا نے کوثر کے لہجے کے اتار چڑھاؤ کو واضح محسوس کیا، اس کی نظریں کوثر کی چھوٹی دونوں جوان بیٹیوں پہ ٹک گئیں، نہ جانے ان کی شادیوں پہ ان کی کیا فرمائشیں ہوں گی؟ ثنا مزید کچھ اور نہ سوچ سکی کیوں کہ دلہن کا فوٹو شوٹ شروع ہو چکا تھا۔
’’کھٹ…کھٹ… کھٹ‘‘ کی آوازوں کے ساتھ دلہن کے پوز بدلوائے جا رہے تھے، وہ کسی روبوٹ کی طرح فوٹو گرافر کے اشاروں پہ چل رہی تھی۔
ثنا فوراً باہر نکل آئی، کھانا کھل چکا تھا اور انواع و اقسام کے کھانوں کی خوشبو پورے ہال میں پھیلی ہوئی تھی، لوگ دھڑا دھڑ کرسیوں کو دھکیلتے ہوئے کھانے کی طرف لپکے۔ بوتلوں کی چھنا چھن کی آوازوں میں معصوم بچوں کے رونے کی آوازیں بھی شامل تھیں۔
’’ قورمہ… قورمہ…ادھر دینا … بریانی… اس میں بوٹیاں … یہاں رائتہ نہیں آیا… سلاد ادھر پکڑانا… قورمہ… بریانی… میٹھا…میٹھا…‘‘
ثنا نے ایک نظر برائیڈل روم کی طرف ڈالی اور دوسری ہال میں اِدھر اُدھر آتے جاتے کوثر اور اشرف بھائی پر۔ اُسے دلہن کی طرح اس کے ماں باپ بھی کسی روبوٹ کی طرح دکھائی دیے جو اولاد کی خودغرض خواہشوں کا بوجھ اور لوگوں کا ڈر خوف لیے چہروں پہ مصنوعی مسکراہٹ سجائے سب سے آگے بڑھ بڑھ کر مل رہے تھے اور اتنی شاندار شادی کرنے پر مبارک باد وصول کررہے تھے، شکر ادا کررہے تھے کہ ان کا فرض ادا ہوگیا ہے اور ان کے سر سے بوجھ اتر گیا ہے۔

حصہ