آج میں اسے تیسری مرتبہ دیکھ رہی تھی، نقاب میں چھپے اس چہرے کی آ نکھیں مجھے انجانی نہیں لگ رہی تھیں۔ کب، کہاں، کس موڑ پر ملی تھی میں ان آنکھوں سے؟ کون ہیں یہ؟ مجھے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری شناسائی ہے۔
’’اُف… آج کا دن پھر اسی سوچ بچار میں گزر جائے گا۔‘‘ میں سر جھٹک کر اپنے روزمرہ کے معمولات میں مصروف ہوگئی۔ گھڑی کی جانب دیکھا تو میں بے چین ہوگئی، کعب کی چھٹی ہوئے دس منٹ گزر چکے تھے۔ میں جلدی جلدی عبایا پہن کر مدرسے پہنچی۔ کعب منہ بسورے سیڑھیوں پر میرا منتظر تھا۔
’’سوری بیٹا!‘‘ میں نے نظریں ملتے ہی ایکسکیوز میں ہی عافیت جانی۔
بیٹے کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر میں بھی کھل اٹھی۔ دوسرے دن ٹھیک بارہ بجے میں اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی تھی۔ پھر وہ مجھے دور سے آتی دکھائی دی، تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی۔ شاید تیز ہوا سے اس کا حجاب کھل گیا تھا اور وہ چلتے چلتے اسے ٹھیک کرتے ہوئے آرہی تھی۔ نزدیک پہنچنے پر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ نسرین باجی تھیں۔ جہاں میں انھیں دیکھ کر حیران تھی، وہیں وہ بھی مجھے گھبراہٹ کا شکار لگیں۔ میں اتنی حیران تھی کہ آواز بھی نہ دے سکی۔
میں ان کے بارے میں جاننے کے لیے بہت مضطرب تھی، کیوں کہ نسرین باجی ہماری محلے دار تھیں، آٹھ نو سال شہر سے باہر شفٹ ہونے کے باعث ان کا اپنے پرانے محلے داروں سے رابطہ تقریباً ختم ہوچکا تھا۔
میں نسرین باجی کے گھرانے سے بہت اچھی طرح واقف تھی۔ اُن کے والد اور بڑے بھائی کئی سال دبئی میں ملازمت کرتے رہے، روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی اور اس پر پانچ بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں۔ انتہائی لاڈ پیار میں پلی بڑھیں۔ آ ج میں ان کی خستہ حالت دیکھ کر بے حد دکھی تھی اور ان کے حالات جاننے کے لیے بے چین تھی۔
میں نے آج شام ہی عامر بھائی کے گھر جانے کی ٹھان لی۔ شام کو بچوں کو ٹیوشن بھیجنے کے بعد میں نے عامر بھائی کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
مہرین بھابھی نے گیٹ کھولا۔ خیر خیریت کے بعد میں نے کہا ’’بھابھی میں ایک الجھن لے کر آئی ہوں آپ کے پاس۔‘‘
’’الجھن…! کیسی الجھن سدرہ؟‘‘ مہرین بھابھی نے کہا۔
’’بھابھی وہ نسرین…‘‘
میں اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ مہرین بھابھی بولیں ’’تو تم نے پہچان لیا۔ کیا بتاؤں سدرہ! اب جب کہ تم انہیں پہچان ہی گئی ہو تو خود ہی معلوم کرلینا، میں کل کچھ دیر کے لیے انھیں روک لوں گی، تم بھی آجانا اور ان ہی کی زبانی سن لینا۔‘‘
’’چلیں ٹھیک ہے، میں کل آجاؤں گی۔‘‘
میں دوسرے دن عامر بھائی کے گھر پہنچی تو نسرین باجی میری منتظر تھیں، اور میں بھی ان کے حالات جاننے کے لیے بے تاب۔
سلام دعا کے بعد مجھے انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی، نسرین باجی نے اپنی کہانی یوں سنانا شروع کی:
’’شادی کا تو تمہیں پتا ہی ہے بہت کم عمری میں ہوگئی تھی اور اس پر سسرال کے ظلم و ستم… لڑکی ہر تکلیف سہہ لیتی ہے بشرطیکہ زندگی کا ساتھی ساتھ نبھانے والا ہو۔ میری زندگی کا ساتھی صرف نام ہی کا ساتھی تھا۔ اُس نے مجھے مکمل طور پر اپنے خاندان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اسی دوران اللہ نے چمن میں تین پھول بھی کھلا دیے، مگر سسرال والوں کے ظلم نہ رکے، یہاں تک کہ طلاق کا پروانہ لیے تین بچوں سمیت میکے آگئی۔ اُس وقت صرف ایک بھائی کی شادی ہوئی تھی، سب مل جل کر رہتے تھے۔ جیسے جیسے دیگر بھائیوں کی شادیاں ہوئیں میکے کی زمین میرے لیے تنگ پڑتی گئی۔ گھر نہ بسنے کے طعنے ملنے لگے۔ مجبوراً میں خاموش ہوجاتی۔ پھر دونوں چھوٹے بھائیوں کی بھی شادیاں ہوگئیں۔ وہ دونوں بہنیں تھیں، دونوں نے مل کر میرے لیے زمین مزید تنگ کردی۔
ایک دن تو حد ہی ہوگئی، میرے علی پر چوری کا الزام لگادیا۔ نہ صرف چوری کا الزام لگایا بلکہ اسے مارا بھی بہت۔ میں نے بھابھیوں کے آگے ہاتھ جوڑے، ان کے پاؤں پکڑے، مگر میری ایک نہ سنی۔ پھر سب بھائیوں نے مل کر اس گھر کو فروخت کرنے کا مطالبہ کردیا جس کو بڑی آرزوئوں سے بنوایا تھا۔
والد کے انکار پر اُن کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ نسرین کو گھر سے نکالو۔ ماں باپ کس طرح طلاق یافتہ بیٹی اور نواسی نواسوں کو گھر سے نکالتے! بالآخر گھر بیچ کر سب کو حصے دے دیے۔
ابو امی اور میں نے مل کر ایک چھوٹا سا گھر لے لیا اور صبر شکر کے ساتھ رہنے لگے۔ مگر میرے رب کو مزید آزمائشیں درکار تھیں۔ اچانک ابو کا انتقال ہوگیا۔ ان کے انتقال پر ایسا محسوس ہوا جیسے کھلے میدان میں آگئی ہوں۔ گھر میں فاقوں کی نوبت آگئی، بچوں کی پڑھائی تو پہلے ہی ختم ہوگئی تھی۔ اپنی پریشانی کا تذکرہ ہمسائی سے کیا تو اس نے مجھے جاب کا مشورہ دیا۔ مگر آٹھ جماعت پاس کو کون نوکری دیتا! پھر ایک دن ہمت کرکے گھر سے نکلی تو پرانے محلے کا خیال آیا، قدم خود بہ خود اس طرف اٹھنے لگے۔ عامر بھائی کو دیکھا تو ان ہی سے مدعا بیان کردیا اور انھوں نے بھی میری لاج رکھ لی۔ مجھے کسی دوسرے در پر نہیں جانا پڑا، عامر بھائی نے اپنے ہی گھر میں کاموں کے لیے مجھے رکھ لیا۔ اب اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں اسی محلے کے ایک اور گھر میں بھی کام کرتی ہوں، ہمارا گزارا بھی اچھا ہورہا ہے، بچوں کو بھی سرکاری اسکولوں میں داخل کروا دیا ہے۔
ادھر میرے بھائیوں کی سنیے… اتنا خوب صورت گھر بکوا کر میری دو بھابھیاں کچے پکے گھروں میں رہ رہی ہیں، اور تین کرائے کے مکانوں میں۔ جب کبھی اس گھر کے سامنے سے گزرتی ہوں تو دل دُکھتا ہے۔ دنیا کے گھر بے ثبات ہوتے ہیں۔‘‘
نسرین باجی کی آنکھوں سے موتی گر رہے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر انھیں گلے لگایا اور ان کی ہمت بندھائی۔