وراثت کا نام سنتے ہی ذہن میں والدین کی وفات کے بعد جائداد پہ لڑائی جھگڑا، یا کورٹ کچہری آجاتا ہے۔ حالانکہ جس وراثت (جائداد) پہ بچے جھگڑ رہے ہوتے ہیں وہ سدا رہنے والی چیز بھی نہیں ہے۔
دراصل وراثت ورثہ سے ہے، اور ورثہ کا مطلب ترکہ، میراث یا خصوصیات کا ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہونا ہے۔ ترمذی کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’باپ اپنے بیٹے کو نیک آداب سکھانے سے بہتر کوئی چیز نہیں دیتا۔‘‘
اس پر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ وراثت کی منتقلی کے دو ادوار ہیں، ایک وہ جو زندگی میں منتقل کی جاتی ہے اولاد کی تربیت کی صورت میں، اور ایک وہ جو جائداد کی صورت میں ہوتی ہے جو مرنے کے بعد ورثا میں منتقل ہوتی ہے۔
غور کریں تو وراثت تو ہم والدین ہر لمحہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے اپنے بچوں کو منتقل کررہے ہوتے ہیں۔ والدین کا اندازِ گفتگو، معاملہ فہمی، معاملات کو سلجھانا، اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ، مہمان کے جاتے ہی اس پہ تبصرہ ہو،گھریلو معاملات میں میاں بیوی کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ ہو، یا والد صاحب کا گاڑی چلانے کے دوران ٹریفک پہ مخصوص الفاظ کا استعمال… غرض یہ کہ ہر لمحہ چاہے وہ عملی ہو یا فکری، والدین اپنے بچوں کو ورثہ منتقل کررہے ہوتے ہیں۔ منتقلی اگر مثبت ہوگی تو یقیناً یہ اولاد آپ کے لیے دنیا میں بھی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی اور بعد میں بھی صدقۂ جاریہ ہوگی۔ جب کہ اگر منفی ہوئی تو یقین جانیے مکان کی صرف چھت اور دیواریں، کھڑکیاں اولاد کے کام آئیں گی، اسے وہ گھر نہ بنا سکیں گے۔
سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’کیوں کہ ان کا باپ نیک تھا اس لیے یتیم بچوں کو خزانہ ملا۔‘‘ یعنی اصل چیز والدین کی نیکیاں ہی ہوں گی جو بچوں کے کام آئیں گی۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ بڑی شاندار حویلیاں جو وراثت میں ملیں، ان کی دیکھ بھال بھی اولاد نہیں کرسکی۔ بڑے بڑے کاروبار نالائق اولاد کے ہاتھوں ڈوبے۔ آسائشوں سے انکار نہیں، لیکن بچے کو اس قابل بنائیں کہ وہ خود اپنا گھر بنائے۔ جیسے چڑیا اپنے بچے کو گھونسلہ بنانا نہیں سکھاتی بلکہ اُڑنا سکھاتی ہے۔ تو اصل محنت، توجہ، وقت بچے کی کردار سازی اور اندازِ فکر کو درست کرنے میں صرف کریں۔
کہا جاتا ہے کہ بھلے ایک پلیٹ میں کھائیں، محبت سے کھائیں۔ کم ہو لیکن باعثِ سکون ہو۔
آئیے سوچیں کہ ہم کس کس طرح اور کہاں کہاں اپنے بچے کی کردار سازی کررہے ہیں۔ خاندان جیسا بھی ہو، انسان کی چھاؤں ہوتا ہے چاہے وہ میکے سے ہو یا سسرال سے۔ مائیں سسرال کی معمولی لغزش بھی بچوں کے کان میں نہ ڈالیں، کیوں کہ ددھیال ہی اب اس کا خاندان ہے۔ اسی طرح والد صاحب بھی بچوں کے ننھیال کی عزت کریں۔ خوشی غمی کا اظہار بھی دل کھول کر کریں اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں شریک ہوں۔ آپ کا بچہ ان باتوں کے ساتھ اپنے خاندان سے مضبوطی سے جڑ جائے گا۔ جو دوستی، پیار اسے اپنے کزنز سے گھر کے اندر مل گیا اب وہ باہر نہیں ڈھونڈے گا، جیسے آج کی نئی تفریح دوستوں کے گھر رات گزارنا ہے، جب کہ پہلے چھٹیاں ہوتے ہی بچے اپنا تھیلا تیار کرکے تایا، چچا، پھوپھی، نانا، ماموں، خالہ کے گھر چند دن رہنے چلے جاتے تھے۔ ماؤں کو بھی فکر نہ ہوتی کہ خیر ہے بچہ اپنوں کے گھر ہی رات گزارے گا۔
جائزہ لیں خاندان یا آس پڑوس کے بچے کے زیادہ نمبر آپ کو متاثر کرتے ہیں یا وہ بچہ جو بااخلاق ہو، نمازی ہو؟ یہ کہاوت تو آپ نے سنی ہی ہوگی ’’باادب با نصیب، بے ادب بدنصیب۔‘‘