محترم حضرات! کلچر کے مسئلے پر علمی حیثیت سے بحث کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے ذہن اُلجھنوںسے محفوظ ہوں، اور ذہن میں غلط فہمیاں موجود نہ رہیں۔ اس قسم کے موضوع کو سمجھنے کے لیے صاف ذہن ضروری ہے۔ جہاں تک کلچر اور اسلامی کلچر کا تعلق ہے، یہ موضوع حقیقت میں ایک علمی موضوع ہے، لیکن نہ صرف اس موضوع کے متعلق، بلکہ اس قسم کے دوسرے موضوعات پر بھی بعض لوگوں کے ذہنوں میں اُلجھنیں موجود ہیں، مختصراً پہلے ان اُلجھنوں کو صاف کرنے کی کوشش کروں گا۔
ایک ضابطۂ اخلاق:ایک غلط فہمی عرصے سے مسلمانوں کے ذہن میں پرورش پارہی ہے کہ ’مسلمان‘ جو کچھ کرے، وہ ’اسلامی‘ ہے۔ پھر ایک ظلم یہ بھی ہے کہ مسلمان اکثر اپنے ہر اس فعل کو جو اس نے کسی بھی موقعے پر کیا، بے تکلفی سے ’اسلامی‘ قرار دینے کی غلطی کرتے ہیں۔
جہاں تک مسلمان ہونے کا تعلق ہے، خلفائے راشدینؓ ، عمر بن عبدالعزیز، خلفائے بنواُمیہ، تاناشاہ، واجد علی شاہ اور محمد شاہ رنگیلا یہ سب ہی مسلمان تھے، لیکن ان سب کے طرزِعمل کو یکساں طور پر ’اسلامی‘ سمجھنے کے معنی تو یہ ہوئے کہ اسلام سرے سے کسی اصول اور ضابطے کا قائل ہی نہیں ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ جو فعل ایک مسلمان سے سرزد ہو، وہی ’اسلامی‘ ہے، مثال کے طور پر یہ کہ اگر ایک مسلمان شراب خانہ قائم کرے تو کیا یہ اسلامی شراب خانہ ہوگا؟ اس لیے یہ غلط فہمی دُور ہونی چاہیے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام ایک ضابطۂ اخلاق کا نام ہے۔ اس لیے جو کچھ اس کے مطابق کیا جائے گا، وہی اسلامی ہوگا اور اس کی حدود سے باہر رہ کر جو کچھ کیا جائے گا وہ غیراسلامی ہوگا۔
اس سلسلے میں دوسری غلط فہمی جسے دُور کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بعض مسلمان ایک مدت سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ جو چیز ان کے اندر کہیں سے آکر رواج پاجائے اور جسے وہ اپنے لیے دلچسپ، فائدہ بخش یا نفع بخش محسوس کریں، اسلام کا فرض ہے کہ وہ اسے ’اسلامی‘ تسلیم کرے اور اسے ’اسلامی‘ قرار دے کر اسے اس حیثیت میں پوری قوم پر مسلط کردیا جائے۔
ایسے لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ اسلام نے جس چیز کو حلال قرار دیا ہے، وہ اسے اسلام ہی کا لبادہ اُوڑھ کر حرام قرار دیں اور جسے اسلام بُرا قرار دے، وہ اسے اسلام کی رُو سےجائز بلکہ لازمی قرار دے دیں۔ یہ چیز ہراعتبار سے غلط ہے۔ اس لیے سیدھی طرح یہ فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ اگر ہم خدا اور رسولؐ کی اطاعت نہیں کرنا چاہتے تو ایسی باتوں کو اسلام کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی سمجھ کر ہی کیا جائے اور اپنی غیراسلامی حرکات کو مباح جاننے کی عادت کو ترک کیا جائے۔
واضح نصب العین: اسلام پر یہ ایک بہت بُرا دور آیا ہے کہ اس سے نسبت رکھنے والوں میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد حرام کو حلال ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کوئی شرمندگی اور ندامت محسوس نہیں کرتی۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے یہ بات تھی کہ مسلمان غیراسلامی حرکتوں کا ارتکاب کرتا تھا، مگر بے باکی سے اسے اسلامی بنانے کی سعی نہیں کرتا تھا۔ لیکن اب یہ شرمناک پہلو ہماری زندگی میں بہت نمایاں ہوگیا ہے۔
اس سلسلے میں تیسری چیز یہ ہے کہ ہم نے ترقی کا تصور مغربی افکار سے لیا ہے اور اپنے طور پر ’ترقی پسند اسلام‘ کو جنم دے رہے ہیں۔ مغرب سے اصلاح کا ایک اور تصور یہ بھی لیا گیا ہے کہ اہلِ مغرب نے جو کچھ اصول بنائے ہیں، وہ سب کے سب معیاری ہیں۔ اس غلط فہمی کو بھی رفع ہونا چاہیے۔
ترقی کے معاملے میں یہ ضروری ہے کہ ہمارا ایک واضح اور متعین نصب العین ہو، تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ کیا واقعی ہم اس منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں یا نہیں؟ اگر ہم اس منزل کی سمت بڑھ رہے ہیں تو یہ ہماری ترقی ہورہی ہوگی، ورنہ ہمارے قدم ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف اُٹھ رہے ہوں گے۔ اگر ہماری منزل کراچی ہے اور ہم لاہور سے چل کر اوکاڑہ اور منٹگمری [موجودہ نام: ساہیوال] پہنچ رہے ہیں تو یہ ترقی ہوگی، لیکن اگر منزل کراچی ہو اور ہم لاہور سے سیالکوٹ کی طرف جارہے ہوں تو یہ ترقی نہیں ہے۔
منزل:اسلام کے نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو ترقی اسی صورت میں ہوگی، جب ہم اسلامی منزل کی طرف بڑھیں گے۔ اگر ہمارے قدم اسلامی منزل کی طرف نہیں اُٹھ رہے تو یہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے ترقی نہیں ہوگی بلکہ یہ مغربی نقطۂ نظر کی ترقی کہلائے گی۔ اسی طرح اسلام کے جو احکام ہیں، ان کی پابندی کرتے ہوئے زندگی میں جو تغیر و تبدل واقع ہو، یہ اصلاح ہوگی، لیکن اگر اسلامی قدروں کی خلاف ورزی کرکے اور دوسری جگہ سے اسلامی اصولوں کے بالکل برعکس اصول اور اقدار لے کر کوئی کام کیا جائے تو اسے Reformation [اصلاح کار] قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اسلام اسے ہرگز اصلاح نہیں مانے گا۔
ان تمام باتوں کو نگاہ میں رکھ کر ہم کلچر کے مسئلے کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔
کلچر کا ماخذ:حنیف ندوی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ’کلچر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے‘۔ آیئے، ہم اس لفظ کی جڑ بنیاد پر غور کریں۔ یہ انگریزی زبان میں دراصل مستعار ہے اور یہ لفظ: Cultivation اور To Cultivate سے نکلا ہے۔ پھر نام ہے اس چیز کا کہ زمین تیار ہو۔ اس کے اندر جھاڑ جھنکار کو قبول نہ کریں۔ اس خاص فصل کے لیے زمین کو تیار کریں جسے ہم اُگانا چاہتے ہیں۔ پھر اسی مقصد کے لیے محنت اور توجہ سے کام کریں۔
جہاں تک انسانی تمدن کا تعلق ہے۔ انسانی زندگیوں میں جو خوبیاں پیدا کرنا اور پروان چڑھانا مطلوب ہیں، ضرورت ہے کہ انسانی ذہن اور زندگی کو ان خوبیوں کے لیے تیار کیا جائے،اور جو بُرائیاں ان کی ضدپڑتی ہیں انھیں دبایا جائے۔ یہ کلچر کا مستعار اور مجازی مفہوم ہے۔ اسی طرح سے ثقافت ہے اور اسی طرح سے تہذیب۔ آپ ان کی بنیاد پر غور کریں تو لامحالہ آپ کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جب تک ہمارے سامنے خوبی کا کوئی معیار نہ ہو، اور کوئی فلسفۂ حیات، بنیادی نقطۂ نظر اور کوئی فکر سامنے نہ ہو ، جس پر بُرائی اور خوبی کا فیصلہ کیا جاسکے، اس وقت تک تہذیب اور ثقافت وجود میں نہیں آتی۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ ہم آدمی کو کیا بناناچاہتے ہیں؟ اسے کن بُرائیوں سے بچانے کے خواہاں ہیں؟ پہلے یہ فیصلہ کیجیے تب کلچر کا مفہوم سمجھ میں آئے گا۔ دُنیا میں انفرادی سطح پر کبھی انسان کا ایک کلچر نہیں رہا اور نہ اب ہے۔ ہر انسان کو اپنا کلچر بھلائی یا بُرائی کے ایک معیار کے ضابطے میں لانا ہوتا ہے۔
بنیادی اقدار: دُنیا کی مختلف تہذیبوں میں فرق کی وجہ یہ ہے کہ ان کی اقدار مختلف ہیں۔ ان میں بُرائی اور بھلائی کا تصور مختلف ہے۔ اسی لیے آج تک کوئی عالمگیر کلچر پیدا نہیں ہوسکا۔ تمام کلچر اور تمدن ان بنیادی اقدار سے پیدا ہوتے ہیں جو کسی تہذیب کے امتیازی خصائص ہیں۔
کلچر کا جائزہ لیتے ہوئے تین بنیادیں ہیں:
اوّل یہ کہ آپ کا تصورِ حیات کیا ہے اور آپ انسان کو زمین پر اور کائنات کے نقشے میں کیا مقام دیتے ہیں؟
دوم یہ کہ آپ کا مقصد ِ حیات کیا ہے؟ یہ سوال تصورِ حیات کے تابع ہے۔ یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ آپ کی جدوجہد، کوششوں اور محنتوں کا مقصود کیا ہے؟
سوم یہ کہ کن اصولوں اور ضابطوں کے مطابق آپ اپنی زندگی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور وہ کون سا اصول آپ کی زندگی میں کارفرما ہے جو بُرائی اور بھلائی کا فیصلہ کرتا ہے؟
یہ تین چیزیں مل کرانسانی تمدن کو معرضِ وجود میں لاتی ہیں اور تمدن کے گلِ سرسبزکا نام کلچر ہے۔
تمدن:اجتماعی زندگی میں اپنی ضروریات اور خواہشات کو کن ذرائع سے پورا کیا جائے؟ رہنا سہنا، مکان بنانا، مشینوں سے کام لینا، یونی ورسٹی، ٹرانسپورٹ غرضیکہ زندگی گزارنے کے جتنے ذرائع و وسائل آپ کے پاس ہیں، ان کے مجموعے کا نام تمدن ہے۔ اس میں روح کا کام تہذیب کرتی ہے۔ اس تمدن کی روحِ تہذیب ان چیزوں کا نام ،ہے جن پر ایک تمدن فخر کرتا ہے۔
تین تہذیبیں:آج دُنیا میں تین تہذیبیں موجود ہیں: ۱- مشرکانہ ۲- مادہ پرستانہ ۳-اسلامی۔
مشرکانہ تہذیب:جس میں بہت سے خدائوں اور دیوتائوں کو خوش اور راضی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کا مقصد ان دیوتائوں کی خوشنودی سے آخرت (اگر ان کے ہاں آخرت کا کوئی تصور موجود ہے، تو اس) کی کامیابی ہے۔ مشرکانہ تہذیب کے دیوی دیوتا عیاش ہوتے ہیں، اس لیے ان کی تہذیب کے اندر ناچ، راگ رنگ اور لہوولعب کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے ہاں شاید ہی کوئی ایسا ناچ ہو جس کا تعلق کسی نہ کسی طرح دیوتا سے نہ ہو۔ ان کے ہاں مجرد آرٹ نہیں ہے۔
مادہ پرستانہ تہذیب:اس میں انسان کا مقصد مادی ترقی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ان کا کوئی تصورِ حیات و آخرت نہیں۔ ان کی مثال اس اُونٹ کی سی ہے، جسے کسی کھیت میں رسّی کے بغیر چھوڑ دیا جائے اور وہ جدھر سبز گھاس دیکھے، اس طرف چلا جائے۔ ان کا کوئی خدا، کوئی قائد اور ضابطہ نہیں ہے۔ ان کا سب سے بڑا مقصد مادی مفادات و وسائل میں تیزرفتار ترقی کے لیے بھرپور سائنسی کوششیں اور مادی ترقی کے لیے بے مہار جدوجہد ہے۔ دن بھر اس کے لیے ہاتھ پائوں مارنے کے بعد، اس تہذیب کے لوگوں کو ایسی تفریحات چاہییں جن سے وہ لذت اور لطف اُٹھا سکیں۔
اسلامی تہذیب:تیسری تہذیب اسلامی تہذیب ہے۔ اس میں زندگی کا ایک واضح نصب العین ہے کہ ہم جس زمین پر خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے مبعوث کیے گئے ہیں، اس زمین کا مالک ایک خدا ہے اور ہمارا مقصد اس خدا کی رضا و خوشنودی کا حصول ہے، تاکہ ہم خود کو اس کا ایمان دار، فرض شناس اور وفادار نائب ثابت کرسکیں۔ یہ کامیابی ہمارا مقصد ہے۔ ہمارے خدا نے اپنے آخری رسولؐ کے واسطے سے ہمیں واضح اصول دیے ہیں اور ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان اصولوں کے اندر رہ کر زندگی گزاریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’مومن کی مثال اس گھوڑے کی طرح ہے جو کھونٹے اور رسّی سے بندھا ہوا ہو۔ وہ وہیں تک جاسکتا ہے، جہاں تک اسے رسّی لے جائے‘‘۔
اسلامی تہذیب کے اصول و ضوابط، مشرکانہ اور مادہ پرستانہ تہذیب سے بہت مختلف ہیں۔ مقصد کے فرق کے لحاظ سے وہ شخص بڑا ناکام ہے، جو دوسری تہذیب کی چیز لے کر یہاں آئے اور اسے ’اسلامی‘ قرار دے کر فخر کرے۔گناہ تو گناہ ہے ہی مگر گناہ کو ثواب ثابت کرنا تو بہت ہی بڑا گناہ ہے۔
اسلامی کلچر کا مظہر:اسلامی کلچر کا مظہر دیکھنا ہو تو حج پر جاکر دیکھیے، جہاں مساوات اور اخوت نے رئیس، حکمران اور غریب کو یکساں مقام دیا ہے اور گدا و شاہ ایک ہی لباس میں نظر آئیں گے۔ طواف کے موقعے پر کسی رئیس کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے سے کمتر کو پیچھے ہٹاکر راستہ حاصل کرے۔ وہاں کوئی راستہ صاف کرنے والا اور ’ہٹ جائو پیچھے‘ کہنے والا نہیں ہے۔
اسلامی کلچر مسجدوں میں جاکر دیکھیے جہاں چپراسی، اعلیٰ حاکم سے اگلی صف میں کھڑے ہوکر نماز ادا کرتا ہے۔ مسلمانوں کے تہوار منانے کی بھی اپنی ایک شان ہے۔ عیدالفطر پر مسلمان سب سے پہلے فطرانہ کی رقم الگ کرتا ہے، تاکہ اس کے پڑوس میں کوئی شخص بھوکا نہ رہے۔ پھر رنگ کی پچکاریاں پھینکنے اور شراب پینے کے بجائے وہ اپنے پروردگار کے حضور سجدئہ شکر بجا لاتا ہے اور دن بھر اپنے بزرگوں اور بھائیوں سے مل کر محبت کے رشتے استوار کرتا ہے۔
اس کے برعکس دوسری ثقافتوں میں بعض چیزیں ایسی ہیں، جنھیں اسلام جائز قرار نہیں دیتا۔ اسلام یہ اجازت نہیں دیتا کہ کوئی عورت، مردوں کے سامنے رقص اور شرمناک حرکات کرے اور اپنے جسمانی اعضا کی نمایش کرے۔
چونکہ غنائیت کی طرف انسان کی فطری رغبت ہے، اس لیے اسلام نے ایک راستہ کھولا ہے اور یہ راستہ قراءت کی حوصلہ افزائی ہے۔ اسلام، انسان کے ذوق کی نفی نہیں کرتا۔ قراءت کے علاوہ گانے بجانے کی کوئی شکل مباح تو ثابت کی جاسکتی ہے مگر اسے اسلامی کلچر کا گُلِ سرسبد نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلام نے کسی تان سین پر فخر نہیں کیا۔ اسے فخر و شرف ہے تو حضرت عمرفاروقؓ پر۔ مسلمانوں کے ہاں پائے جانے والے ذوقِ مصوری نے نقاشی، گلکاری اور خطاطی کی صورتیں اختیار کیں۔ مسلمانوں نے مجسمہ سازی کی بجائے سنگ تراشی کو رواج دیا۔ مسلمانوں نے بُت گری و بُت سازی کو کبھی جائز قرار نہیں دیا تھا۔ یہ اس صدی کی بدعت ہے کہ مجسمہ سازی کو مسلمانوں کے ہاں کلچر کا جزو بنایا جارہا ہے۔ مختصر یہ کہ اس سے آپ میرا مدعا اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اسلامی تہذیب کے امتیازی خصائص اور ضابطوں کے اندر رہ کر جو کچھ کیا جائے گا، وہی اسلامی ہے۔ اس کے باہر جو کچھ ہوگا وہ ہرگز اسلامی نہیں۔