رمضان کی ساعتیں اختتام کو پہنچتی ہیں تو یکم شوال کو ہم مسلمان عید مناتے ہیں،اور اپنے رب کاشکر ادا کرتے ہیں یہ ہمارا ایک خوبصورت تہوار ہے،یہ خوشی اور مسرت کا دن ہے،ہر شخص اس موقعے پر اپنے اپنے انداز میں خوشیاں مناتا ہے. یہ لوگوں کے لیے اکٹھے ہونے اور اپنی خوشیوں اور برکتوں کو بانٹنے کا موقع ہوتا ہے۔عید ملاقات کا ایک ذریعہ بھی اور تجدید تعلق و عہد کا دن بھی ہے۔ایک زمانہ تھا جب لوگ عید کے موقع پر اچھے اچھے مبارک بادی کے پیغامات لکھ کر عید کارڈ ایک دوسرے کو دیا کرتے تھے۔ اب سوشل میڈیا کا زمانہ آگیا ہے اس لیے لوگ عید کارڈکی جگہ خوبصورت بینر بنا کر عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔
عید کا تعلق ہماری روایت میں شاعری کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے کیونکہ شاعری لوگوں کو ہم خیال بنانے خوشی، غم اور امید کے جذبات کا اظہار کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ شاعری صدیوں سے جذبات کے اظہار اور پیغامات پہنچانے کے لیے استعمال ہوتی آرہی ہے۔ عید کی روایتی نظمیں جہاں قربانی، ایمان اور امید کے موضوعات پر مرکوز ہوتی ہیں۔ دوسری طرف، عید کی جدید نظمیں زیادہ عصری موضوعات پر توجہ مرکوز کر سکتی ہیں، جیسے کہ عالمی مسائل، سیاست اور معاشیات۔جب عید کی شاعری کی بات آتی ہے، تو سب سے اہم بات یہ یقینی بنانا ہے کہ پہنچایا گیا پیغام بامعنی اور دلنشین ہو۔ نظمیں خلوص جذبات سے لکھی جائیں اور عید کی خوشیوں اور امیدوں کا اظہار کریں۔ انہیں بھی اس انداز میں لکھا جائے کہ ہر عمر کے پڑھنے والے آسانی سے سمجھ سکیں۔عید کی شاعری لوگوں کو اکٹھا کرنے اور اتحاد کا احساس پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ نظموں اور اشعار کا استعمال مختلف سماجی اکائیوں سے جرنے اور ان کو اکٹھا کرنے، اور عید کی خوشی منانے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔یہاں پر عیدکی مناسبت سے منتخب نظمیں اور اشعار پیش کیے جارہے ہیں جن میں سب سے عید پر شعر لکھنے کی فرمائش کے جواب میں
علامہ اقبال نے لکھا کہ :
يہ شالامار میں اک برگ زرد کہتا تھا
گيا وہ موسم گل جس کا رازدار ہوں میں
نہ پائمال کريں مجھ کو زائران چمن
انہی کی شاخ نشیمن کی یادگار ہوں میں
ذرا سے پتے نے بيتاب کر ديا دل کو
چمن میں آکے سراپا غم بہار ہوں میں
خزاں میں مجھ کو رلاتی ہے ياد فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں
اجاڑ ہو گئے عہد کہن کے میخانے
گزشتہ بادہ پرستوں کی یادگار ہوں میں
پيام عيش ، مسرت ہميں سناتا ہے
ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے
اس کے بعد ان اشعار کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شعراء کے لیے عید پر شاعری کرانے ایک اہم مضوع رہا جس خوشی ،غم اور دکھ ہر طرح کا اظہار ملتا ہے۔
عید کا چاند تم نے دیکھ لیا
چاند کی عید ہو گئی ہوگی
(ادریس آزاد )
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
(قمر بدایونی)
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
(ظفر اقبال)
ہم نے تجھے دیکھا نہیں کیا عید منائیں
جس نے تجھے دیکھا ہو اسے عید مبارک
(لیاقت علی عاصم)
کہتے ہیں عید ہے آج اپنی بھی عید ہوتی
ہم کو اگر میسر جاناں کی دید ہوتی
(غلام بھیک نیرنگ )
عید اب کے بھی گئی یوں ہی کسی نے نہ کہا
کہ ترے یار کو ہم تجھ سے ملا دیتے ہیں
(مصحفی غلام ہمدانی )
مہک اٹھی ہے فضا پیرہن کی خوشبو سے
چمن دلوں کا کھلانے کو عید آئی ہے
(محمد اسد اللہ)
کئی فاقوں میں عید آئی ہے
آج تو ہو تو جان ہم آغوش
(تاباں عبد الحی)
خوشی ہے سب کو روز عید کی یاں
ہوئے ہیں مل کے باہم آشنا خوش
(میر محمدی بیدار)
جو لوگ گزرتے ہیں مسلسل رہ دل سے
دن عید کا ان کو ہو مبارک تہ دل سے
(عبید اعظم اعظمی)
عید کا دن تو ہے مگر جعفرؔ
میں اکیلے تو ہنس نہیں سکتا
(جعفر ساہنی)
عید کا دن ہے گلے مل لیجے
اختلافات ہٹا کر رکھیے
(عبد السلام بنگلوری)
جہاں نہ اپنے عزیزوں کی دید ہوتی ہے
زمین ہجر پہ بھی کوئی عید ہوتی ہے
(عین تابش)
رہنا پل پل دھیان میں
ملنا عید کے عید میں
(حسن شاہنواز زیدی)
آخری میں دلاور فگار کے یہ اشعار پڑھیں جس کا پس منظر یہ ہے کہ کوئی ماضی میں رمضان کے ماہ مبارک میں آخری روزہ کی شب دس بجے ریڈیو پاکستان نے اچانک اعلان کیا کہ رویت ہلال ہوگئی ہےکچھ دیر بعد معلوم ہوااور لاوڈاسپیکرزیر علماء نے اعلان کیا ریڈیو کی خبر غلط ہے کل عید نہیں مسلمان بھائی آج سحری کھائیں۔کل عید نہیں آخری روزہ ہے۔
سرکاری اور غیر سرکاری دو عیدیں
ریڈیو نے دس بجے شب کے خبر دی عید کی
عالموں نے رات بھر اس نیوز کی تردید کی
ریڈیو کہتا تھا سن لو کل ہماری عید ہے
اور عالم کہتے تھے یہ غیر شرعی عید ہے
دو دھڑوں میں بٹ گئے تھے ملک کے سارے عوام
اس طرف سب مقتدی تھے اس طرف سارے امام
بیٹا کہتا تھا کہ کل شیطان روزہ رکھے گا
باپ بولا تیرا ابا جان روزہ رکھے گا
بیٹا کہتا تھا کہ میں سرکاری افسر ہوں جناب
روزہ رکھوں گا تو مجھ سے مانگا جائے گا جواب
باپ کہتا تھا کہ پھر یوں بام پر ایماں کے چڑھ
روزہ بھی رکھ اور روزے میں نماز عید پڑھ
آج کتنا فرق فل اسٹاپ اور کامے میں تھا
باپ کا روزہ تھا بیٹا عید کے جامے میں تھا
اختلاف اس بات پر بھی قوم میں پایا گیا
چاند خود نکلا تھا یا جبراً نکلوایا گیا
(دلاور فگار)