’’دیکھ بھئی شگفتہ! بات کو سمجھ۔ ضد نہ کر۔ میرے پاس واقعی پیسے ویسے نہیں ہیں، جو تنخواہ ملی تھی وہ سب چولھے میں جھونک دی گئی ہے، ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے۔ اب کچھ نہیں ہے، فیکٹری والوں نے بھی ہری جھنڈی دکھا دی ہے۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟ یہ تمہارا کام ہے، جہاں سے مرضی بندوبست کرو، کہیں سے بھی لاؤ، بچوں کے کپڑے بنانے ہیں اور دوسری خریداریاں بھی کرنی ہیں۔ ابھی عید آئی نہیں اور تم پہلے سے ہی جیب خالی کربیٹھے ہو۔‘‘
’’ایسی باتیں نہ کر۔ ہر تہوار پر دل کھول کے خریداری کیا کرتی ہے، پہلی مرتبہ ہاتھ تنگ کیا ہوا سب کچھ بھلا کر جو منہ میں آئے بولے جارہی ہے!‘‘
’’میں نے کون سی برائی کردی، یا تاج محل مانگ رہی ہوں! اور کون سا پہاڑ گرا دیا جو خریداریاں گنوانے لگے ہو! ارے میں بیوی ہوں تمہاری، میری ضرورتوں کا خیال رکھنا اور انہیں پورا کرنا تمہاری ہی ذمہ داری ہے۔ تم سے نہ کہوں تو کیا محلے والوں کے آگے فریاد کروں! یا گھر گھر جاکر ہاتھ پھیلاؤں! یہ بچے میرے ساتھ نہیں آئے تھے، تمہاری ہی اولاد ہیں، انہی کے کپڑے بنوانے کا کہہ رہی ہوں، ورنہ مجھے کون سے کمخواب کے سوٹ بنوانے ہیں! جو ملتا ہے صبر شکر کرکے گزارا کرلیتی ہوں، لیکن بچے تو بچے ہیں، عید انہی کی ہوتی ہے۔‘‘
’’اُف میرے خدایا، کس قدر بولتی ہے یہ بے عقل!‘‘
’’اوہو عقل مند کو تو دیکھو، جیسے کسی لارڈ صاحب کے مشیر خاص ہوں۔ پیسے کیا مانگ بیٹھی کہ بے عقل ہوگئی! جو بھی کہو بس پیسے دو، عید سر پر ہے،ساری تیاری کرنی ہے۔‘‘
’’شگفتہ تیری سمجھ میں کیوں نہیں آرہا کہ پیسے نہیں ہیں، تُو کیوں بات کو خوامخواہ بڑھا رہی ہے! یہ تو سوچ تیری باتوں سے بچوں پر کیا اثر پڑے گا۔ ایسی باتیں بچوں کے سامنے نہیں کیا کرتے، ان کے ذہن ابھی چھوٹے ہیں، اس عمر میں ایسی باتیں سنیں گے تو احساسِ کمتری کا شکار ہوجائیں گے، تجھ کو اگر اس قسم کی کوئی بھی بات کرنی ہوا کرے تو اکیلے میں کرلیا کر، ان معصوموں کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کیا کر۔‘‘
’’زینب کے ابو! تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہیں شرمندہ کررہی ہوں؟ تم کیا سمجھتے ہو میں تمہاری دشمن ہوں؟ ارے تم میرے شوہر ہو، اور میں جانتی ہوں کہ تمہاری عزت کرنا میرا فرض ہے، ایسی کوئی بات نہیں۔ تم خود سوچو، عید پر اگر بچوں کے کپڑے نہیں بنیں گے تو ان پر کیا گزرے گی! کل رشید بھائی کا بیٹا آیا تھا، وہ تین سوٹ بنوانے کا بتا رہا تھا۔ ہمارا بیٹا ارسلان بھی اُسی کا ہم عمر ہے، ایسے میں ارسلان کے پاس ایک بھی نیا جوڑا نہ ہو تو اس کی کیفیت کیا ہوگی؟ بس یہی سوچ سوچ کر دماغ خراب ہوا جارہا ہے۔‘‘
’’میں ساری باتیں جانتا ہوں، بچوں کا مجھے بھی احساس ہے، پر مجبور ہوں۔ فکر نہ کر، کسی سے ادھار مانگا ہے،تُو دعاکر کہ مل جائے،کم سے کم بچوں کی تیاری تو ہوجائے گی۔‘‘
’’دعائیں ہی تو کررہی ہوں۔ ویسے اِس مرتبہ ایسا کیا ہوا جو اس قدر تنگی آگئی؟‘‘
’’میں نے کہا نا کہ مہنگائی نے جینا حرام کررکھا ہے، ہر تنخواہ دار طبقے کا یہی حال ہے۔ آمدن وہی، اور اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ گیس اور بجلی کے بل تین گنا بڑھ چکے ہیں جبکہ گھر میں آنے والے راشن اور روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی پر بڑھائی جانے والی قیمتوں نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پہلے جو سبزیاں 20 سے30 روپے کے درمیان ہوا کرتی تھیں وہ 80 سے 100روپے میں مل رہی ہیں۔ گھی اور آئل 140سے بڑھ کر600روپے تک فروخت ہورہے ہیں۔ چینی 80 روپے اضافے کے ساتھ 120 روپے کلو مل رہی ہے۔ ہر قسم کی دالیں انتہائی مہنگی ہوچکی ہیں۔ دودھ، آٹا، چاول اور مسالہ جات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ پہلے فیکٹری آنے جانے میں 100روپے کا پیٹرول استعمال ہوتا تھا،اب وہی پیٹرول 270 سے 300 روپے میں ملتا ہے۔ ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے جبکہ تنخواہیں وہی ہیں۔ ایسی صورت میں جب اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوجائے اور آمدن ایک جگہ رک جائے تو ہم جیسے غریبوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ ساری مصیبت ہم پر ہی ٹوٹا کرتی ہے۔ اللہ ان نااہل اور کرائے کے حکمرانوں کو نیک ہدایت دے جو اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے چکر میں عوام کی ایسی تیسی کررہے ہیں، انہی کے کرتوتوں کی سزا غریبوں کو بھگتنی پڑرہی ہے۔‘‘
بالکل، اس میں دو رائے نہیں کہ اس وقت ملک میں مہنگائی کا ایسا طوفان آیا ہوا ہے جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چھوٹا کاروباری طبقہ ہو یا گھریلو صنعتوں سے وابستہ افراد، دیہاڑی دار ہو یا سرکاری ملازم… سبھی مہنگائی کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کی معاشی صورتِ حال ہر آنے والے دن کے ساتھ ابتری کا شکار ہوتی جارہی ہے جو مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کا سبب ہے۔ ملک کی معاشی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ حالت مزید لاکھوں افراد کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل دے گی۔ اگر اس بگڑتی ہوئی معاشی صورتِ حال کو فوری طور پر سنبھالا نہ دیا گیا تو خدانخواستہ ہم ایسے معاشی بھنور میں جا پھنسیں گے جس سے نکلنا ناممکن ہوگا، اور اس سے نہ صرف بے روزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگا بلکہ امن و امان کی صورتِ حال میں بھی بگاڑ کا خطرہ ہے۔ ظاہر ہے جس غریب کے گھر کا چولھا ٹھنڈا ہو اُسے اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے حالات سے جنگ کرنا ہی پڑتی ہے، ایسے میں انسان تو انسان کوئی جانور بھی اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا۔ جس کے گھر دو وقت کی روٹی نہ ہو اُس کے لیے کیا خوشیاں! کیسی عید! وہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پستا ہی رہتا ہے۔ اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کی جانب سے دی جانے والی گردشیں اسے اس قابل ہی نہیں چھوڑتیں کہ وہ چند لمحے ہی سہی، خوشی کے ساتھ گزار سکے۔
ایک زمانہ تھا جب عید شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہوا کرتا تھا۔ اس دن بچے،جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے ملبوسات زیب تن کرتے اور مرد عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے۔ نمازِ عید سے فارغ ہوکر تمام لوگ ایک دوسرے سے گلے مل کر اپنی کوتاہیوں،زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے تھے۔ گھروں میں انواع و اقسام کے کھانے بنائے جاتے۔ اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہوتا تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ اور بہترین کھانے بناکر مہمانوں اور دیگر احباب و اقارب کی ضیافت کرتا۔ یعنی عید روایتی اور مذہبی جوش و خروش سے منائی جاتی تھی۔ ہر طبقہ عید کی خوشیوں میں اپنے تئیں شریک ہونے کی بھرپور کوشش کرتا۔ بچے بڑوں سے عیدی وصول کرتے اور ڈھیروں دعائیں سمیٹتے۔ دادی اماں صبح سویرے سے ہی شیر خورمہ تیار کرنے لگتیں۔ گھر کے چھوٹے بچے کھوپرا اور بادام کھانے کے لیے دادی اماں کے گرد جمع رہتے۔
وقت بدلا تو سب کچھ بدل گیا۔ ابتر ملکی معاشی حالات کی وجہ سے غربت، مہنگائی، بے روزگاری میں اس قدر اضافہ ہوا کہ میٹھی عید کی خوشیاں پھیکی پڑگئیں۔ یوں آج عید کی خوشیوں میں وہ روایتی جوش، ولولہ، امنگ، خلوص، محبت اور پیار ناپید ہوگیا جو ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ پہلے جیسا عید کا وہ انتظار اور اسے منانے کا وہ جوش و خروش اب کہیں دکھائی نہیں دیتا، بلکہ یوں لگتا ہے جیسے عید کے چاند کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بڑھتے مسائل کا گہن لگ چکا ہو، اور ماہِ صیام کے بعد سب سے زیادہ خوشی دینے والا یہ تہوار اب واجبی سا رہ گیا ہو، جس کی خوشیوں کی تلاش میں لوگ اپنے حقیقی عزیز و اقارب سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں عید کے رنگ ہی نرالے ہوا کرتے تھے۔ صبح صبح نمازِ عید کے بعد رشتے داروں کا ایک دوسرے کے گھروں کا چکر لگانا، اور تحائف کا تبادلہ کرنا، اپنے ہم عمر دوستوں اور رشتے داروں کو عید کی خوشیوں سے منسوب اشعار تحریر کرکے دعاؤں کے ساتھ خوب صورت عید کارڈ دینا میری زندگی کی بہترین یادیں ہیں۔ وقت کے ساتھ وہ سب کچھ مہنگائی کی نذر ہوکر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج شگفتہ جیسے غریب گھرانے عید کے روز بھی گھر کا چولھا روشن رکھنے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ملک پر مسلط سرمایہ دارانہ ذہن والے نااہل حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں نے عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا۔ زیادہ دور کی بات نہیں، 1990ء کی دہائی میں ہمارے ملک کا روپیہ پورے خطے کی کرنسی پر راج کرتا تھا۔ روپے کی اڑان بھارتی روپے اور بنگلہ دیشی ٹکے سے خاصی اونچی تھی۔ ملک خوشحالی کی طرف گامزن تھا۔ شرح غربت میں کمی ہورہی تھی۔ جی ڈی پی گروتھ کے اشاریے خاصے بہتر تھے۔ سب کچھ بہتری کی سمت بڑھ رہا تھا، لیکن بدقسمتی سے اناڑی حکمرانوں اور ہائبرڈ نظام مسلط کرنے والوں نے اپنے مفادات کی خاطر قوم کو آئی ایم ایف کا مقروض کرڈالا۔ یوں خوشحالی بدحالی میں بدلنے لگی۔ اگر کچھ باقی بچا بھی تو وہ اداروں کے درمیان ہونے والی اختیارات کی جنگ نے برابر کردیا، یعنی بیس بائیس برس کی مدت میں برسر اقتدار آنے والوں نے ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ قرض لے کر ایسا کمال کیا جس سے نہ صرف ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر آن پہنچی اور ڈالر کی اڑان بڑھی، بلکہ پورے خطے میں روپے کی قدر خاک سی ہوکر رہ گئی۔ ان نااہل حکمرانوں کی عوام دشمن،ناکام پالیسیوں نے نہ صرف مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کیا بلکہ برسرِ روزگار افراد کو بھی بے روزگاروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ اب تو یہ حالات ہیں کہ ان کی جانب سے بڑھائی جانے والی مشکلات پر قابو پانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ بات ہورہی تھی میٹھی عید کی جو کہاں سے کہاں نکل گئی۔ ہمارے حکمرانوں نے اس ملک کے ساتھ جو کیا اس گرداب سے ہم نہ جانے کب نکلیں، ہاں اگر معاشرے کے صاحبِ استطاعت لوگ اپنے طرزِعمل میں معمولی سی تبدیلی لے آئیں تو عید کی اصل خوشیوں کو دوبالا کیا جا سکتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے بچے کی ہر خواہش پوری ہو۔ باپ جیسی عظیم ہستی دن رات ایک کرکے اپنے بچوں کی خواہشات پوری کرتی ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں بہت سے بچے ایسے بھی ہیں جن کے سر پہ باپ کا سایہ تو موجود ہے لیکن غربت نے انہیں گھیر رکھا ہے۔ ہم عید پر اپنے بچوں کی تو ساری خواہشات پوری کرتے ہیں، لیکن ہمارا دھیان معاشرے میں تنہا رہ جانے والے یتیم، مسکین اور غریب بچوں سمیت ایسے گھرانوں کی جانب نہیں ہوتا جو سفید پوشی کی زندگی گزار رہے ہیں، جو فاقہ کشی پر مجبور ہیں مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ ان کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنوں کے ساتھ عید منائیں۔
یہ بات یاد رکھیے کہ ہمارا مال ہمارے لیے آزمائش ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے کر آزماتا ہے کہ ہم نے یہ مال اُس کی راہ میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کی مدد کے لیے خرچ کیا یا نہیں۔ ہمیں غور و فکر کرنا چاہیے کہ کیا ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر عمل پیرا ہورہے ہیں؟ہم ایسے ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کررہے ہیں؟ کیا ہم یتیم بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کررہے ہیں یا غربت کے ہاتھوں مجبور خاندانوں کی مدد کرکے انہیں خوشیاں دے رہے ہیں؟ ذرا غور کیجیے کیا ہم یتیم اور ضرورت مند بچوں کو چھوٹے چھوٹے تحفے تحائف دے کر انہیں اپنے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک کررہے ہیں؟ اگر نہیں تو ہمیں ان ننھے پھولوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنا چاہیے تاکہ یہ بھی کھل کا مسکرا سکیں۔ ہر صاحبِ استطاعت کو اپنے قریبی رشتے داروں اور ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔ یقین جانیے ان کی مدد کرکے اور انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کرکے ہی عید کی حقیقی مسرتیں دوبالا ہوسکتی ہیں۔