عید الفطر اور تجدید عزم

338

اہلِ اسلام کی دو عیدیں ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی، اور ہر عید کسی بڑی عبادت یا کسی بڑے فرض کے بعد آتی ہے۔ عیدالاضحی فریضۂ حج، اور عیدالفطر ماہِ رمضان کے بعد آتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان فرائض و عبادات کی ادایگی کے بعد تم اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمھیں اس ادایگی کی توفیق و رہنمائی عنایت فرمائی۔

عیدالفطر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی توفیق و عنایت پر اس کا شکر ادا کرنے کا ایک اظہار یہ ہے کہ مسلمان عید کی اس خوشی سے تنہا محظوظ نہ ہو، بلکہ فقیروں اور مسکینوں کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کرے۔ رمضان کی زکوٰۃ، ’فطرانہ‘ اسی لیے فرض کیا گیا ہے۔ مسلمان یہ زکوٰۃ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے ادا کرتا ہے۔ یہ ایک معمولی سی مقدار ہے جو ہر اس شخص پر واجب ہے جو عید کے دن اوررات کے کھانے کے علاوہ کچھ اپنے پاس رکھتا ہو۔ جمہور علما کے نزدیک اس شخص کی ملکیت کا نصاب کو پہنچنا ضروری نہیں۔ دراصل اسلام مسلمان کو خوشی غمی کے ہرموقع پر انفاق کا عادی بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس صدقۂ فطر کی ادایگی کرتا ہے خواہ وہ فقیر ہی ہو۔ اگر وہ فقیر ہو تو ایک طرف وہ خود صدقہ ادا کرتا ہے اور دوسری طرف اسے دوسروں سے موصول ہو رہا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: اس روز انھیں [فقرا و مساکین کو] کوچہ و بازار میں نکل کر مانگنے سے بے نیاز کردو۔

برادرانِ اسلام! عید کا دن وعید کے دن سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں: وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ o ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ o وَوُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَۃٌ o تَرْہَقُھَا قَتَرَۃٌ o (عبس ۸۰: ۳۸-۴۱) ’’کچھ چہرے اُس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اُڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی‘‘۔ تروتازہ اور خوش باش چہروں والے ہی تو ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے صیام و قیام کی نعمت مکمل فرمائی۔ لہٰذا آج کے دن وہ خوش ہوں گے اور یقینا اُن کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں۔ دوسری طرف وہ چہرے جن پر کلونس چھائی ہوگی، یہی وہ چہرے ہوں گے جنھوں نے اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی اور قیام و صیام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی پروا نہ کی۔ ان کے لیے عید کا دن وعید کی حیثیت رکھتا ہے۔ برادرانِ اسلام! ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کے لیے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وتیرا ہے کہ اُن کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔

اللہ کی کبریا تکبیر، ہم مسلمانوں کی عیدوں کی شان ہے۔ یہ تکبیر اللہ اکبر، مسلمانوں کا شعار ہے۔ مسلمان روزانہ پانچ وقت اپنی نماز میں اسی عظیم کلمے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز کے لیے کیا جانے ولا اعلان ’اذان‘ اسی کلمے سے شروع ہوتی ہے۔ نماز کی اقامت کا آغاز اسی کلمے سے ہوتا ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت مسلمان اسی کلمے کو ادا کرتا ہے۔ یہ بہت عظیم کلمہ ہے اللہ اکبر! ’اللہ اکبر‘ ہر موقع پر مسلمانوں کا شعار ہوتا ہے۔ مسلمان میدانِ جہاد کے معرکے میں داخل ہو تو اللہ اکبر یہ نعرئہ تکبیر دشمن کے دل میں خوف و دہشت طاری کر دیتا ہے۔ اللہ اکبر عید کی شان ہے۔ اسی لیے یہ تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جائو: اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لا الٰہ الا اللّٰہ ، واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، وللّٰہ الحمد۔

برادرانِ اسلام! رمضان متقین کا موسم ہے، صالحین کا بازار ہے اور بازار میں کاروبار کرنے والا تاجر خاص موسم میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کرتا ہے، لیکن وہ دکان کو اس خاص موسم کے بعد بند نہیں کردیتا۔ رمضان وہ موسم ہے جس میں ہم اپنے دلوں کو تقویٰ و ایمان کے مفہوم و معانی سے بھر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلوں کو اُس چیز کے حصول کی ترغیب دلاتے ہیں، جو اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کی خوشنودی اور نعمتوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ رمضان کی عبادتوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ انسان رمضان کے بعد بھی اللہ کی رسّی کو پکڑے رکھے۔ وہ اپنے رب کے ساتھ استوار ہوئے تعلق کو ٹوٹنے نہ دے۔ بعض اسلاف تو یہ کہتے ہیں کہ بہت بُرے ہیں وہ لوگ جو اللہ کو صرف رمضان ہی میں پہچانتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ مسلمانو! ربانی بنو، رمضانی نہ بنو۔ ایسے موسمی نہ بنو جو اللہ تعالیٰ کو سال میں صرف ایک مہینے کے لیے پہچانتے ہیں۔ پھر اِس کے بعد اُس کی عبادت و اطاعت کا سلسلہ توڑ دیتے ہیں۔

عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ تعالیٰ کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اُسے کبھی فنانہیں!

جس شخص کے روزے اور قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی! اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے:

وَالَّذِیْنَ اہْتَدَوْا زَادَھُمْ ہُدًی وَّاٰتٰھُمْ تَقْوٰھُمْo(محمد ۴۷:۱۷) اور وہ لوگ جنھوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انھیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔

نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری رہنا ہے، اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔ لہٰذا میرے مسلمان بھائیو! اللہ کے ساتھ دائمی تعلق استوار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اطاعت ہمیشہ کے لیے فرض کی ہے۔ وہ نافرمانی کو بھی ہمیشہ کے لیے ناپسند کرتا ہے۔اگر رمضان کا رب وہ ہے تو شوال، ذوالقعدہ اور دیگر مہینوں کا رب بھی وہی ہے۔ اللہ کی معیت میں چلنا ہے تو دائمی چلو، اس سے ہرجگہ ڈرو، خواہ کسی بھی زمانے میں ہو، اور کسی بھی حال میں ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔

برادرانِ اسلام! ہر اُمت کا ایک امتیاز ہوتا ہے، اور ہر امتیاز کی ایک کلید ہوتی ہے۔ جب آپ کسی قفل کو کلید کے بغیر کھولیں گے تو وہ ہرگز نہیں کھلے گا۔ اسی طرح اس اُمت کا بھی ایک امتیاز ہے، اور اس امتیاز کی کلید ’ایمان‘ ہے۔ اسے ’ایمان‘ کے ذریعے متحرک کیجیے، یہ حرکت میں آجائے گی۔ ایمان کے ذریعے اس کی قیادت کیجیے، یہ پیچھے چلنے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان کے جذبات کے ذریعے حرکت دی جائے تو ایک بہترین اُمت تیار ہوسکتی ہے۔ یہ بڑی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرلیتی ہے، مشکل ترین اہداف کو حاصل کرلیتی ہے، اور بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتی ہے۔ یہ خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کا دور واپس لاسکتی ہے۔

یہی وہ چیز ہے جس سے اس اُمت کے دشمن خائف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ اُمت اسلام کی بنیاد پر متحرک نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کے بعد دوسری رکاوٹ کھڑی کردیتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کا چہرہ مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے دنیا کو ڈراتے ہیں۔ ان کی دعوت سے متنفر کرتے ہیں۔ اُن کے بارے میں افواہوں کا جال پھیلا دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان تحریکوں سے زیادہ صاف و شفاف کوئی تحریک نہیں۔ اپنے اسلوب، طریق کار، قیادت و کارکنان کے اعتبار سے یہ مثالی تحریکیں ہیں۔ یہاں ہرچیز شفاف اور ہرعمل میں اخلاص ہے۔ ہر کام میں ایمانی جھلک موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس پر اہلِ ایمان فرحت محسوس کرتے ہیں۔

برادرانِ اسلام! آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو فتنوں کا دَور ہے، آزمایشوں کا دور ہے۔ نبی کریمؐ نے ہمیں اس دور سے ڈرایا ہے جس میں فتنے سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں ماریں گے، جن کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں: لوگ ان فتنوں کے کاموں کی طرف اس طرح بڑھیں گے جیسے سخت اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر ہوگا، شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہوگا۔ آدمی دنیا کی بہت تھوڑی قیمت پر اپنے دین کو بیچ دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں جن فتنوں سے ڈرایا گیا ہے اُن میں عورتوں کا سرکش ہوجانا، جوانوں کا فسق میں مبتلا ہوجانا، جہاد کا ترک کر دیا جانا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہ ہونا، بلکہ اُن پیمانوں ہی کا بدل جانا، یعنی لوگوں کا اچھائی کو بُرائی اور بُرائی کو اچھائی سمجھنے لگنا بھی شامل ہیں۔

برادرانِ اسلام! اس اُمت کے لیے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ قرآن ہی ہے، انسانوں کے وضع کردہ قوانین نہیں۔ نہ دائیں بازو اور بائیںبازو کی تنظیمیں اس کے مرض کا علاج کرسکتی ہیں۔ یہ صرف قرآنِ مجید ہے جو اسے بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ ہمارے اُوپر یہ فرض ہے کہ ہم اس کی طرف واپس آئیں اور اس کی ہدایت پر چلیں۔ ہم نے اُوپر رمضان اور قرآن کی بات کی، تو یہ حقیقت ہے کہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن کی برکت، اس کی پیروی اور اس کے مطابق عمل کرنے میں ہے۔ اس کی برکت اس میں نہیں ہے کہ ہم اس کی آیات کے فریم زینت کی غرض سے دیواروں پر لٹکا لیں، یا اسے مُردوں کے پاس تلاوت کرلیں، یا اس کو بچوں اور عورتوں کے لیے تعویذ بنا لیں۔ قرآن تمام انسانیت کے لیے ہرقسم کی گمراہی سے بچنے کے لیے آڑ ہے۔ قرآن اس لیے نازل ہوا ہے کہ زندوں کے معاملات کا فیصلہ کرے، نہ اس لیے کہ مُردوں پر پڑھا جائے۔ قرآن نازل ہوا ہے کہ عدالتوں میں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے نہ کہ اسے محض ثواب اور اپنے مُردوں کے ایصالِ ثواب کے لیے پڑھا جائے۔ قرآن اس اُمت کا دستور ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اسی کی طرف رجوع کریں۔ اس کی آیات کو سمجھیں، اس کے فہم میں گہرائی پیدا کریں، اور اسے اپنا اخلاق بنا لیں، جیساکہ نبی کریمؐ کے اوصاف میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن آپؐ کا اخلاق تھا۔ قرآن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰــتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوا الْاَلْبَابِo(صٓ ۳۸:۲۹) یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ) ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔

برادرانِ اسلام! اس موقع پر یہ بہت مناسب ہوگا کہ ہم پوری اُمت کو رجوع الی الاسلام کی دعوت دیں۔ قرآن کی طرف بلائیں، دین کی طرف بلائیں۔ ہم نے دائیں بازو یا بائیں بازو کی تنظیموں اور مشرق و مغرب سے درآمد شدہ حل آزمائے۔ ہم نے دوسروں سے امداد کی بھیک کا تجربہ بھی کرلیا۔ ان تمام نے ہمیں کیا دیا؟ شکست، رسوائی، ندامت، نقصان، اخلاقی فساد اور غلامانہ انتشار کے سوا ہمیں کیا ملا ہے! ہمیں نہ معاشی آسودگی میسر آسکی، نہ سیاسی استحکام نصیب ہوا نہ معاشرتی تعلقات میں بہتری آسکی، اور نہ اخلاقی ترقی ہوئی نہ روحانی رفعت حاصل ہوسکی۔

ہمارے پاس اسلامی اصول، ربانی شریعت، محمدی طریق ہاے کار اور عظیم ورثہ موجود ہے۔ لہٰذا ہم امیر ہیں اور دوسروں سے ان چیزوں کے معاملے میں بے نیاز ہیں۔ پھر کیوں سب کچھ درآمد کرتے اور بھیک مانگتے پھرتے ہیں؟ ہمیں اپنے قرآن، آسمانی ہدایت اور نبویؐ سنت کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسولؐ اللہ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ ببانگِ دہل توحید کے عقیدے پر کاربند ہوجائیں۔ اسی طرح مسلمان ہوجائیں جیسے کبھی ہوا کرتے تھے، یعنی حقیقی مسلمان، نہ کہ نام کے مسلمان، یا موروثی مسلمان۔ مسلمانوں کو مستعد و متحرک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دین کے راستے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرسکیں، اس دین کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ لہٰذا ملت کا ہر فرد اور مسالک کے تمام ذمہ دار اپنے دین کے لیے قربانی دیں۔ کیا ہم اسلام کی راہ میں قربانی نہیں دے سکتے؟

برادرانِ اسلام! یہ دین اللہ کے فضل اور مومنوں کی نصرت کے ذریعے بالآخر فتح یاب ہوگا، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ سے فرمایا:

ھُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ (انفال ۸:۶۲) وہی (اللہ) تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعے سے تمھاری تائید کی۔

برادرانِ اسلام! مسلمانوں کی تعداد اس وقت اربوں میں ہے، لیکن اہمیت تعداد کے زیادہ ہونے یا لشکروں کے بھاری ہونے کی نہیں ہوتی بلکہ اہمیت معیار کی ہوتی ہے۔ جب مسلمان ۳۱۳ تھے تو انھوں نے عظیم فتح حاصل کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس دن کو ’یوم الفرقان‘ کا نام دیا، یعنی جس میں حق اور باطل کے درمیان فرق سامنے آگیا اور اللہ نے تو سچ ہی فرمایا ہے کہ:

وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o (اٰل عمران ۳:۱۲۳) اور اللہ نے بدر میں تمھاری مدد کی حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے۔ لہٰذا تمھیں چاہیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، اُمید ہے کہ اب تم شکرگزار بنو گے۔

وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَ اَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَ رَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo (انفال ۸:۲۶) یاد کرو وہ وقت جب کہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں مٹا نہ دیں۔ پھر اللہ نے تم کو جاے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمھارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمھیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکرگزار بنو۔

گویا جب مسلمان کم تھے مگر اللہ کے ساتھ تھے، حق، یعنی اسلام کے ساتھ تھے، تو اللہ نے لاکھوں پر انھیں غالب کیا۔ آج اُن اربوں مسلمانوں کی کوئی وقعت نہیں جو انصارِ مدینہ کی صفات سے متصف نہ ہوں۔ انصار کی صفت تھی کہ وہ خوف کے موقع پر سب اُمڈ آتے تھے اور طمع و طلب کے وقت خال خال دکھائی دیتے تھے۔ آج ہماری حیثیت آخری دور کے ان مسلمانوں جیسی ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان کی حیثیت سیلاب کے کوڑے کرکٹ جیسی ہوگی جنھیں سیلاب بہا لے جاتا ہے۔برادرانِ اسلام! عظیم فیصلے اور عظیم ارادے بڑے اجتماعات ہی میں ہوتے ہیں۔ اہلِ اسلام کو عید کے موقع پر اسلام کی نصرت کا عزم کرنا چاہیے۔ روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز اپنے اصحاب کی ایک جماعت سے پوچھا: سب سے زیادہ کن لوگوں کا ایمان تمھارے نزدیک عجیب ہوسکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: فرشتوں کا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ کیوں ایمان نہ لائیں گے وہ تو اپنے رب کے پاس ہی ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر انبیا کا۔ آپؐ نے فرمایا: وہ کیوں نہ ایمان لائیں گے، جب کہ ان کے اُوپر تو وحی نازل ہوتی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: تو پھر ہمارا۔ آپؐ نے فرمایا: تم کیوں ایمان نہ لاتے، جب کہ میں تمھارے درمیان موجود ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا: سنو! میرے نزدیک سب سے زیادہ عجیب ایمان اُن لوگوں کا ہے جو تمھارے بعد آئیں گے اور کتاب کو پڑھ کر ہی ایمان لے آئیں گے‘‘۔

برادرانِ اسلام! یہ ہیں وہ بنیادیں جن کے اُوپر ہمیں اپنی عملی زندگی کی عمارت تعمیر کرنی ہے، لہٰذا آیئے اور اللہ کے انصار بن جایئے۔ رسولؐ اللہ کے پیروکار بن جایئے۔ بعید نہیں کہ تمھی وہ گروہ قرار پائو جو اللہ کے دین کو غالب کرنے ولا ہو۔

حصہ