سوشل میڈیا: میٹھی عید پر کڑوے سچ

470

سال کے‘ بلکہ زندگی کے قیمتی ترین ایام، رب کی رحمت، مغفرت پانے میں لگانے کے بعد عیدالفطر کی مبارک باد قبول کیجیے۔ ہم نے بھی کوشش کی کہ سوشل میڈیا کو اپنے اوپر سوار نہ کریں۔ رمضان بہت احتیاط سے نکالا، اس لیے نہیں کہ بعد میں خوب کرلیں گے بلکہ اس لیے کہ زندگی میں اس کے استعمال کو کم سے کم کرنے کی شعوری پریکٹس کر سکیں۔ اسلامی تہذیب و تاریخ میں تصورِ علم ’’لفظ‘‘ اور ’’ذات‘‘ مرکز ہوتا ہے، پوری اسلامی تہذیب و روایت میں ’’لفظ‘‘ کی اہمیت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ الفاظ کسی ’’ذات‘‘ سے نکلتے ہیں اور وہ ذات ایک پورا روحانی، اخلاقی اور معاشرتی وجود ہوتا ہے۔ اس ذات کے ساتھ خاص تعلق بنتا ہے، یہی وجہ ہے کہ معلم، اس کی شخصیت کو درجہ سند حاصل ہوتا ہے، اس کو ہی مرکزیت حاصل ہوتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ استعماری دور سے قبل تعلیم براہِ راست اساتذہ سے لی جاتی۔ لوگ دور دراز کا سفر کرتے اساتذہ کے پاس جاتے اور علم سیکھتے۔ اساتذہ کے ساتھ جو تعلق بنتا وہ مرتے دم تک بلکہ نسل در نسل چلتاکیوں کہ ’علم‘ الفاظ سے نکل کر کسی متقی، پرہیزگار، باعمل شخص کے عمل کی صورت ظاہر ہوتا، یوں آج کی زبان میں جو بھی  ڈگری جاری ہوتی وہ استاد خود کرتا۔ ماڈرن ایجوکیشن سسٹم میں استاد کا کوئی مقام نہیں کہ ڈگری تو اَب اِدارے جاری کرتے ہیں۔ آج کے تعلیمی اداروں پر کھڑے معاشرے میں جہاں استانی یا طالبہ کے ساتھ عاشقی کے معاملات چلتے ہوں، وہاں اس کوکسی قسم کا روحانی، اخلاقی اور معاشرتی وجود سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ استاد سے تعلق نمبروں کی حد تک رہ گیا ہے، جو کسی بھی طریقہ سے لے لیے جائیں تو بس کام ختم۔ یوںجدیددور میں سارا تصور علم صرف شے مرکز ojbect or thing centric ہوتا ہے،اس کے پیچھے سائنس کھڑی ہوتی ہے، اس لیے وہ پورا نظام مادہ پرست materialistic افراد تیار کرتا ہے، جن میں مادیت کے علاوہ کوئی اخلاقی، روحانی، فکری عنصر نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے آج 2023 میں یہ باتیں آپ کو اجنبی لگیں، تو پریشان نہ ہوں، اگر آپ کے نانا، دادا حیات ہوں تو اُن سے معلوم کریں کہ اُن کے دادا کیسے تعلیم حاصل کرتے تھے اور استاد سے ان کا تعلق کیسا ہوتاتھا؟ ان سے پوچھیں کہ پہلے ایسا کیا ہوتا تھا جو آج نہیں ہو رہا؟ یقین مانیں وجہ صرف یہی سامنے آئے گی کہ اِس پورے وقت میں تعلیم فرد سے اداروں کو منتقل ہوکر مادہ پرستی یعنی بھاری فیسوں پر کھڑی ہوئی ہے۔

اس ہفتے‘ بلکہ اس رمضان سوشل میڈیا بہت ہی کڑوے، تلخ اور افسوس ناک ایشوز میں رہا۔ یہ عمران خان یا پی ڈی ایم سے متعلق نہیں۔ یہ ایشوز بھارت میں مسلمان رکن اسمبلی کی پولیس حراست میں سر عام قتل ہونے والے ایشو سے بھی نہیں۔ اس کا تعلق رمضان ٹرانسمیشن سے بھی نہیں۔ شبِ قدر، اعتکاف کے ٹرینڈ سے بھی نہیں… جی ہاں اس ہفتے سوشل میڈیا پر دعوت اسلامی کے امیر الیاس قادری کی سال گرہ کے ٹرینڈ سے بھی نہیں نہ ہی اس کا تعلق ڈیجیٹل مردم شماری کے خلاف کراچی سے اٹھنے والی آواز سے ہے‘ نہ ہی یہ پارلیمان اور عدلیہ کی لڑائی سے ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور مفتی عبدالشکور کی حادثاتی موت سے بھی نہیں، گو کہ اُن کے اعلیٰ کردار کی گواہیوں سے ان کی پرانی وڈیوز، ان کی سادگی و امانت و دیانت کے چرچے سے سوشل میڈیا پر خوب مہم چلی۔ یہ سب ایشوز اس ہفتے چلے، مگر یقین مانیں جس ایشو پر دل گرفتہ ہے‘ جو کڑوے سچ کی مانند مستقل سرایت کر رہا ہے وہ بہت اہم ہے۔

وہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 295 سی ہے، اس کا اطلاق ہے۔ یہ ایمانی معاملہ ہے، عقائد کا معاملہ ہے، چیزوںکو سمجھنے کا معاملہ ہے۔ مرزا انجینئر جہلمی اس بار بڑا موضوع بنا، شیخ التفسیر والقرآن علامہ پیر افضل قادری نے انجینئر کے خلاف پرچہ کٹوانے اور کیس چلانے کے ساتھ ، اس کے سر کو لانے والے کے لیے پانچ لاکھ روپے کا انعام مقرر کر دیا۔ پھر یہی نہیں اس ہفتے پاکستان کی حدود میں تین ایسے واقعات سامنے آئے جن میں ایک خاتون نے لاہور سے انٹرنیٹ پر اپنا بیان جاری کرتے ہوئے (جھوٹی) نبوت کی بڑھکیں ماری اور اپنے بیٹے کو امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ دوسرا کیس 15 اپریل کو سرائے عالمگیر گجرات کی ایک مسجد میں نماز ظہرکے بعد ہوا جس میں ایک شہباز نامی بندہ چھری لے کر مسجد میں آگیا اور منبر پر بیٹھ کر اعلان نبوت کر دیا۔ جب لوگوں نے روکا تو ان کو زخمی بھی کیا۔ تیسرا کیس 17 اپریل کو داسو میں ہوا جس میں توہین مذہب کے الزام میں چینی شہری عوامی مطالبے پر گرفتار ہوا۔ کوہستان سے آنے والی خبر یوں اہم ہے کہ اب کی بار بھی عوام نے سوکالڈ قانون ہاتھ میں نہیں لیا۔ مگر لبرلز کی چیخیں اب بھی آسمانوں کو چھو تی نظر آئیں۔ فرح ناز اصفہانی تو کہہ رہی ہے کہ چینی فنڈنگ رک جائے گی۔ میں نے پوچھا ’’الزام درست ثابت ہوا پھر بھی؟‘‘ ویسے چین کی تاریخ ایسی ہے نہیں۔

جامعہ کراچی کا واقعہ تو بلاسفیمی نہیں تھا ناں؟اس سے پہلے بھی کئی چینیوں کو دنیا خراب کرنے سے روکا گیا ہے، مگر مجال ہے جو چین نے کوئی ایسی حرکت کی ہو کہ وہ اپنا پروجیکٹ ختم کردے۔ یہ ہوتی ہے دوستی۔

مگر دوسری طرف دوستی نہیں‘ ایمان ہے۔ شہباز بابو کا امتحان ہے۔ ہو سکتا ہے کیس جھوٹا ہو، ہو سکتا ہے کیس سچا ہو۔ اب فیصلہ عدالت کرے گی۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ جن لوگوں کو مروڑ اٹھ رہی ہے وہ بہت مزے دار بات ہے۔ پہلے کہتے تھے کہ قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں اب کہتے ہیں کہ کیوں گرفتار کیا؟ یہ کیا بات ہے کہ کوئی کچھ بول دے تو گرفتار کر لوگے؟ دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھ کر ایسے ایسے تجزیے و تبصرے پھینک رہے ہیں کہ ہنس ہنس کر پیٹ میں درد ہوگیا۔ کوہستان کے لوگ تو سارے ایویں ہیں اور یہ ہیں بڑے عالم پرہیزگار متقی۔

اتوار کی دوپہر کا واقعہ ہے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع اَپر کوہستان میں داسو ڈیم کی تعمیراتی کام میں شامل ایک چینی افسر سے یہ جرم سرزد ہوا ہے۔ جس نے مقامی ورکر سے مخاطب ہوتے ہوئے نازیبا کلمات اور اشارے کیے۔ مقامی لوگوں نے واقعہ دیکھا اور گواہیاں دیں۔

لوگ مشتعل ہوئے اور معاملہ قانون کے ہاتھ جا پہنچا۔ کوہستان بالا کی ایک مقامی مسجد میں علماء اپنی ذمے داری پوری کرتے ہوئے اس پورے معاملے کی گواہیوں اور حقیقت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ایسا احتجاج وہاں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ شاہراہ قراقرم کو بھی بند کیا گیا۔ علما کا صاف کہنا ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی سزا ملے گی۔ اس لیے تحقیقات ہم بھی کر رہے ہیں۔ اب ملازم نماز کا بہانہ کرے یا روزے کا، سست نماز پڑھے یا تیز، ڈیوٹی پوری کرے یا آدھی، اگر تم نے اس کے ایمانی شعائر کو ہلکا سا بھی تضحیک کا نشانہ بنایا تو پھر بندہ کوہستانی ایکشن میں تو آئے گا۔ سوشل میڈیا پر چائنز اور کوہستان ٹرینڈ کرتے رہے اور لبرل خصوصاً ہندو‘ خوب ایشو بناتے رہے کہ اتنی سی بات پر کیسے پکڑا جا سکتا ہے؟ حالانکہ پہلے کہتے تھے کہ مارو نہیں قانون کو کام کرنے دو۔ اب قانون کے حوالے کیا ہے تو جج بن کر سات سمندر پار سے فیصلے کر رہے ہیں۔

فیصل آباد اور لاہور میں بھی ایسا کیس ہوا، اب کی بار دو خواتین بہنیں تھیں، مرکزی والی جس کا نام ثناء اللہ بتایا گیا‘ وہ لاہور بحریہ ٹائون میں ہوتی ہے اور وہ تصوف کے نام پر یہ کام عرصے سے کر رہی ہے۔ دوسری بہن حنا انجم فیصل آباد سے تھی۔ اس نے دفاع کرتے ہوئے وڈیو میں کہاکہ ’’ہم اللہ کی نوازی ہوئی بندیاں ہیں، ہمارا تصوف کا سلسلہ ہے، خواب سے تعلیمات آتی ہیں، ہمیں دنیا سے کوئی لینا دینا نہیں، ہم صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے پابند ہیں۔ میں اس کی نبوت کی گواہی دیتی ہوں۔ میں نمازی، پرہیز گار ، گھر میں رہنے والی عورت ہوں، میری بہن بھی نمازی پرہیز گار عورت ہے۔ اس راہ میں شہادت لکھی ہے تو ہمیں اس راہ میں شہادت کی موت قبول ہے۔‘‘

فیصل آباد والی بہن تو گرفتار ہوگئی ہے البتہ لاہور والی کی تاحال کوئی خبر نہیں۔ خاتون کے زبانی دعوئوں اور وڈیو وائرل ہونے کے بعد فیصل آباد میں لوگ جمع ہوگئے، یہا ں بھی عوام نے قانون پر یقین کرنے کی کوشش کی، یوں ایف آئی آر کٹ گئی‘ ایک بہن گرفتار ہوگئی دو مزید افراد بھی گرفتار ہوئے۔

اس بار تو چیف پولیس افسر فیصل آباد کی وڈیو خواب وائرل رہی جس میں وہ ایمانی جذبے سے کہہ رہا ہے کہ’’ختم نبوت کا نعرہ ہمارے خون میں ہے۔ آپ سب بھائیوں کو یقین دلانے کے لیے میں دوبارہ کھڑا ہوں کہ اس ملعونہ اور اس گروپ میں جو جو لوگ شامل ہیں سب کو قانون کے کٹہرے میں لے جانے اور تختہ دار تک پہنچانا میری ذمے د اری ہے اور میں یہ ذمہ داری ادا کرکے دکھائوں گا۔ میرے بھائیوں، بہنوں اور بزرگوں نے جس طرح مجھ پر، میری بات پر، قانون پر اعتماد کیا ہے، میں علی ناصر رضوی بحیثیت سی پی او فیصل آباد میں اس یقین کا رکھوالا ہوں۔ مجھے قیامت کے دن پلِ صراط پر سب کو جواب دینا ہے۔ آپ کو مایوس کرنا اپنے آپ کو مایوس کرنا ہوگا، میں نے جس ماں کا دودھ پیا ہے، پروفیشنل انداز میں اس مقدمے کی تفتیش ہوگی اور ایک ایک نکتے پر اللہ کو حاضر و ناظر جان کر جامع تفتیش ہوگی۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ اِن شا اللہ اِس ملعونہ کو کیفر کردار تک پہنچائیںگے۔‘‘

اب ایسی ایمان افروز تقریر کو وائرل تو ہونا ہی تھا، ساتھ ہی بے شمار وی لاگرز اس ملعونہ خاتون کی وڈیو کو لے کر یوٹیوب پر دوڑ پڑے اور خوب ریٹنگ بناتے رہے۔

تیسرا کیس گجرات کی مسجد میں ہوا، اس کی کوئی ڈھائی منٹ کی وڈیو سوشل میڈیا پر دندناتی رہی، شروع میں تو کسی کی سمجھ نہیں آیا کہ کیا ہوا۔ ظہر کی نماز کے بعد وہ شخص مسجد میں جوتوں سمیت داخل ہوا پھر سیدھا منبر پر پہنچ کر اعلان کرنے لگا۔ لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی، کچھ دیر بعد اس کی باتیں سنی، اس کے عجیب دعوے سن کر، پھر لوگوں کو معاملہ سمجھ آیا، بعد ازاں یہاں بھی پولیس کو شامل کیا گیا اور عوام کا بھرپور دبائو رہا، بندے کو گرفتار کیا گیا۔ ڈی ایس پی گجرات نے خود تصدیقی وڈیو میں کہا کہ ہم پوری قانونی کارروائی کر رہے ہیں اور مطالبہ پر 295 سی کی دفعہ ہی پرچہ میں لگائی گئی ہے۔

کہنے کو تو یہ یکے بعد دیگرے ماہِ رمضان میں تین واقعات ہیں۔ مگر میں نے پچھلے ہفتے بھی لکھا تھا کہ اب 2023 میں مسئلہ خدا کے وجود کا نہیں رہا، اب بھی تمام تر سوشل میڈیا پر باطل پرستوں کی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح دین اسلام سے نبیؐ کو مائنس کیا جائے، دین اسلام کو نبیؐ کے بغیر سوچا، سمجھا، پڑھا، اپنایاجائے۔ اس کام کے لیے وہ ہر بدترین حرکت کرنے کو تیار ہیں اور سوشل میڈیا اس وقت ان کے لیے ایک بڑا ہتھیار بنا ہوا ہے۔

میں سوشل میڈیا پر بے شمار لوگوں کی زبانی اس عمل کو ’’ذہنی مرض‘‘ کہتا دیکھ کر افسوس کر رہا تھا۔ اگر اس حرکت کو ’مرض‘ کے دائرے میں لے کر گئے تو پھر ’’مسلیمہ کذاب‘ کو بھی یہی رعایت ملنی چاہیے‘‘ کا نعرہ بلند ہوگا۔ یہی نہیں پھر تو قادیانیت مشکوک ہو جائے گی کیوں کہ مرزا قادیانی تو خود لکھتا ہے کہ ’وہ جس گْڑکی ڈلی سے استنجا کرتا ہے اکثر اس کو روٹی میں لگا کر کھا لیتے‘‘۔ اس تحریری اقرار نامے کے بعد تو وہ بھی ’’ذہنی مریض‘‘ ہو جاتا ہے، مگر مجال ہے کوئی اس کو یہ بولے۔

خوب جان لیں کہ ایمان بچانے کی شدید جنگ ہے۔ دین کو رسول اللہؐ سے کاٹ کر، من پسند تشریح کرنے کا خطرناک کام جاری ہے۔ ایک جانب مرزا جہلمی ہے، جس کے اندھے فالوورز، اس کی متن پرستی کا شکار ہو کر عقلی بنیادوں پر دین کی من پسند تشریحات کر کے اپنے عقائد بھی مسخ کر رہے ہیں اور توہین صحابہؓ سمیت کئی سخت جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میں سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ نہ اس وقت پاکستان یا عالم اسلام میں حضرت علیؓ کی خلافت کوئی مسلمانوں کا مسئلہ ہے، نہ معاویہ بن ابی سفیان ؓ کی خلافت، نہ امام حسنؓ کی صلح ، نہ امام حسینؓ کی شہادت۔ تو پاکستان کی اکثریت جب متفق ہے صحابہؓ پر توکیوں مشاجرات صحابہؓ چھیڑے جا رہے ہیں، مستقل نبی پاکؐ کی شان میں ایسے الفاظ جن کی کوئی تاریخی سند نہیں ، وہ کیوں بار بار بولے جا رہے ہیں؟ ریشنل دعووئوں کو بنیاد بنا کر اولیائے کرام، اکابرین کو ’’بابے‘‘ کہہ کر کیوں تضحیک کی جا رہی ہے؟ کیا یہ نزاع کا مسئلہ ہے۔ اگر انگریز کے دور میں کسی وقت کسی دیوبند یا کسی بریلوی عالم نے 150سال قبل کسی کے عقائد کی تاریخ نکالی اور اس پر کوئی بات لکھی تو آج آپ کیوں اور کس کھاتے میں وہ مضامین نکال رہے ہیں؟ یہ اُمت کو ایک کرنے کا درد اس طرح سے کیسے حل ہوگا؟ کیا آپ مکلف ہیں اس کام کے؟

یہ اور اس جیسے کئی سوالات ہیں جنہیں کوئی پوچھے بغیر چٹپٹی باتوں کی لذت میں کھو جائے تو یقین مانیں رمضان بھی ضائع، ایمان بھی ضائع، عقیدہ بھی ختم۔

یہ بھی جان لیں سورۃ الفتح کی آخری آیت میں ’لیغیظ بھم الکفار ‘پر امام مالک علیہ ؒ نے ، صحابہؓسے بغض رکھنے والوں پرکفرکا استدلال بیان کیا ہے،(تفسیر ابن کثیر میں امام ابن کثیرؒ نے نقل کیا ہے) یہی نہیں، کئی صحابہ کے فضائل اوراُن کی لغزشوں سے چشم پوشی کی کئی احادیث بھی موجود ہیں کہ بعد کے لوگ اِس پر ڈسکشن نہ کریں۔

حصہ