اب جو اخبار نکالتا ہے سمجھتا ہے کہ ہر جائز و ناجائز کام کا ہتھیار مل گیا ،سید محمود احمد مدنی کا ایک یادگار انٹریو

488

سید محمود احمد مدنی سے میں ملاقات سے قبل بھی آشنا تھا۔ اوّلین ملاقات جنگ کے دفتر میں تیس چالیس سال قبل ہوئی تھی‘ جب میں اپنے خاندان کے ایک بزرگ کے انتقال کی خبر لے کر بہ غرض اشاعت ِگیا تھا۔ مدنی صاحب اپنے کمرے میں مصروف تھے۔ میں ان کے لیے اجنبی تھا لیکن انہوںنے نہایت شفقت سے میری بات سنی اور وعدہ کیا کہ خبر کل صبح شائع ہو جائے گی۔ مجھے یقین نہ آیا۔ چلتے چلتے میں نے رک کر ان سے ملتجیانہ لہجے میں کہا ’’مدنی صاحب! یہ خبر ضرور چھاپ دیجیے گا۔‘‘ نام لینے پر انہوں نے چونک کر دبیز فریم کی عینک کے پیچھے سے مجھے بہ غور دیکھا اور پھر سر جھکا کر کام میں مصروف ہو گئے۔ اگلی صبح انہوں نے اپنا وعدہ کر دیا تھا‘ خبر پچھلے صفحے پر نہایت نمایاں شائع ہو گئی تھی۔ اس چھوٹے سے واقعے نے ان کی شخصیت کا نہایت دل کش نقش میرے دل پر مرتب کیا۔

سید محمود احمد مدنی طویل عرصے تک ملک کے کثیر الاشاعت اخبار رونامہ ’’جنگ‘‘ کے ایڈیٹر رہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ جماعت اسلامی کے رکن بھی تھے لیکن انہوں نے اپنی جماعتی ووابستگی کو کبھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر اثر انداز نہ ہونے دیا۔ بہ ظاہر دیکھنے میں کم گو‘ مگر نہایت شگفتہ اور شائستہ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ 21 جولائی 1926ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے‘ والد صاحب سید نذر عباس حیدرآباد دکن میں ملازم تھے‘ اس لیے ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ 1948ء میں سقوط حیدرآباد دکن کے بعد کراچی ہجرت کی۔ آپ شیخ الاسلام سید قطب الدین احمد مدنی کے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے‘ جو مدینہ منورہ سے ہجرت کرکے فریضۂ جہاد کے لیے ہندوستان تشریف لائے تھے اور الٰہ آباد فتح پور کے قرب و جوار کے علاقوں کو تسخیر کرکے یہاں اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ مدینہ منورہ کی نسبت سے مدنی کہلائے۔ ہندوستان کے مشہور و ممتاز عالم دین مولانا سیدابوالحسن ندوی رشتے میں آپ کے نانا تھے۔

سید محمود احمد مدنی نے 1956ء میں بہادر یار جنگ سیکنڈری اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ ممتاز محقق ڈاکٹر جمیل جالبی‘ جو بعدازاں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے‘ اُن دنوں اس اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ اپریل 1961ء میں مدنی صاحب نے ’’جنگ‘‘ میں بہ حیثیت سب ایڈیٹر اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ 1962ء میں کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ چند سال بعد وہاں شعبۂ معارف اسلامیہ قائم ہوا تو اس میں داخلہ لے کر ازسر نو تعلیمی زندگی کا آغاز کیا۔ کراچی یونیورسٹی سے بیرونی امیدوار کے طور پر صحافت میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ آپ یونیورسٹی میں انجمن طلبہ کے ’’اخبار جامعہ‘‘ کے سب سے پہلے ایڈیٹر تھے۔

مدنی صاحب 1985ء کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ انہوں نے الیکشن میں حصہ لینے سے پہلے اخبار سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ انتخابات ہارنے کے بعد روزنامہ ’’جسارت‘‘ کے ایڈیٹر بنا دیے گئے۔ آپ نے ایک سال تک روزنامہ ’’حریت‘‘ میں بھی بہ حیثیت مدیر فرائض انجام دیے۔

طاہر مسعود: آپ طویل عرصے تک صحافت کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں۔ ہمیں یہ بتائیں کہ آپ اس پیشے میں کیسے آئے اور وہ زمانہ صحافیوں کی تنخواہوں اور مالی مراعات کے اعتبار سے کیسا تھا؟

محمود احمد مدنی: مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق تو بچپن سے تھا اور ہائی اسکول میں بھی ایک رسالہ نکالا تھا جس کا ایڈیٹر میں تھا۔ اس وقت تو ذہن میں نہیں تھا کہ مجھے صحافت کو بہ طور پیشے کے اختیار کرناہے اور اس وقت صحافت بہ طور پیشے کے کوئی معروف پیشہ بھی نہیں تھا لیکن بعد میں جب کراچی میں صحافتی سرگرمیاں بڑھیں تو کسی نے مجھ سے کہا کہ ایک اخبار میں سب ایڈیٹر کی ضرورت ہے وہاں جا کر آپ رابطہ کریں تو شاید آپ کے لیے کوئی گنجائش نکل آئے۔

طاہر مسعود: یہ کس سن کی بات ہے؟

محمود احمد مدنی: 1961ء کی بات ہے۔ چنانچہ میرے ایک دوست تھے احمد اسحاق مرحوم‘ وہ اس اخبار میں سینئر سب ایڈیٹر تھے اور سینئر رپورٹر۔ ان کے ذریعے میں وہاں پہنچا۔ انہوں نے میری ذمہ دار لوگوں سے ملاقات کرائی۔ ان لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ٹھیک ہے آپ بیٹھ جایئے۔ کام شروع کر دیجیے۔ اس طرح میں نے کوئی سوا مہینے بغیر کسی تنخواہ اور تقرری کے اس اخبار میں کام کیا۔ اس کے بعد وہاں کے سب ایڈیٹر چھٹی پر جا رہے تھے تو ان کی جگہ پہ مجھے رکھ لیا گیا۔ یہ بات ہے 4 اپریل 1961ء کی۔ اس دن جو ہم نیوز روم میں داخل ہوئے تو پورے چوبیس سال اس اخبار میں کام کیا۔ میں بھرتی ہوا تھا بہ طور اپرنٹس اور اس وقت کوئی ویج بورڈ نہیں تھا‘ کوئی مراعات نہیں تھیں‘ کوئی حقوق نہیں تھے اور کوئی بات طے نہیں تھی۔ یکم جنوری سے (جنرل) ایوب خان نے پہلا ویج بورڈ نافذ کیا۔ جنرل برکی صاحب وزیر محنت تھے۔ انہوں نے ویج بورڈ بنا کر نافذ کیا تھا۔ اس ویج بورڈ میں یہ تھا کہ یا تو آدمی کے پاس تین سال کا تجربہ ہو یا پھرو وہ گریجویٹ ہو۔ بدقسمتی سے اس وقت میں فورتھ ایئر میں پڑھتا تھا۔ تین سال کا تجربہ کہاں سے لاتا۔ لہٰذا ویج بورڈ میں سب ایڈیٹر کی جو تنخواہ لکھی ہوئی تھی‘ اس کی آدھی تنخواہ مجھے ملتی تھی۔ 175 روپے میری تنخواہ تھی۔ لیکن وہ انتہائی سستا زمانہ تھا اور یہ تنخواہ میرے لیے کافی تھی۔ مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ میں غریب آدمی ہوں۔ اس کے پھر ایک سال بعد میں نے گریجویشن کر لیا اور تجربے کی شرط بھی پوری ہوگئی۔ اس کے بعد مجھے انہوں نے سب ایڈیٹر کا گریڈ دے دیا اور میری تنخواہ تین سو روپے مقرر ہوئی۔ میں ایک بات بتا دوں کہ یہ تنخواہ غیر معمولی تنخواہ تھی۔ اس لیے کہ اس وقت گزیٹیڈ آفیسر کی تنخواہ تین سو روپے ہوتی تھی۔ کسی نے جسٹس سجاد احمد جان سے‘ جو ویج بورڈ کے چیئرمین تھے‘ پوچھا کہ آپ نے صحافی کی تنخواہ گزیٹیڈ افسر سے زیادہ مقرر کر دی؟ انہوں نے جواب دیا کہ صحافی رات میں جاگ کر کام کرتا ہے اور یہ طبی طور پر طے شدہ بات ہے کہ مسلسل جاگنے سے آدمی کی عمر کم ہو جاتی ہے جب کہ گزیٹیڈ افسر رات میں نہیں جاگتا‘ اس کی نارمل ڈیوٹی ہوتی ہے‘ صبح سے شام تک۔ اس لیے میں نے صحافیوں کی تنخواہ پچیس روپے زائد مقرر کی ہے۔ آج کل کے صحافیوں کو یہ پتا بھی نہیں ہوگا کہ ان کی تنخواہ زیادہ کیوں مقرر ہوئی ہے۔ اس لیے کہ ان کا کام غیر معمولی ہے اور یہ بات درست ہے کہ میں نے اخبار میں چوبیس سال نوکری کی ہے‘ اس میں سولہ سال نائٹ ڈیوی کی ہے۔ میں اپرنٹس سے سب ایڈیٹر ہوا‘ سینئر سب ایڈیٹر ہوا‘ اس کے بعد اسسٹنٹ نیوز ایڈیٹر ہوا‘ پھر نیوز ایڈیٹر ہوا‘ پھر اس کے بعد میں ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہوا تو نائٹ ڈیوٹی سے میری جان چھوٹی لیکن چونکہ عادتیں خراب تھیں لہٰذا اُس وقت بھی میں رات کے بارہ بجے تک اخبار کے دفتر میں بیٹھا رہتا تھا۔ آج کے جرنلسٹ تو اس محنت کا تصور بھی نہیں کرسکتے اور نہ انہیں یہ اندازہ ہے کہ شروع میں کیا حالات تھے‘ کتنی مشکلات تھیں۔

طاہر مسعود: اس وقت کی صحافت کا موازنہ جب آپ آج کی صحافت سے کرتے ہیں تو صحافتی حالات اور صحافیوں کے کمٹ منٹ کے اعتبار سے کیا فرق نظر آتا ہے؟

محمود احمد مدنی: اس وقت صحافت میں لوگ ڈرتے ہوئے آتے تھے کہ ہم سے کوئی غلطی نہ ہو جائے‘ ہم سے کوئی ایسی خبر نہ چھپ جائے جس سے اخبار بدنام ہو جائے‘ جس سے ملک و قوم کو نقصان پہنچ جائے اور ہمیں جواب دہی کرنا پڑ جائے۔ ان کا مطمعٔ نظر بھی یہ نہیں ہوتا تھا کہ اس سے اپنی زندگی کو خوش حال بنانا ہے۔ اب تو صورت حال بالکل مختلف ہے۔ اب جو اخبار نکالتا ہے وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اب مجھے ہر جائز اور ناجائز کام کا ہتھیار مل گیا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مجھے ہر کام کرنا ہے۔ میرے پاس اخبار ہے کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہی حال ہمارے چھوٹے اخبار نویسوں کا ہے کہ جب وہ اس پیشے میں آتے ہیں تو یہ سمجھتے ہوئے آتے ہیں کہ اب ہمارے پاس ایک ایسا ہتھیار آگیا ہے کہ کوئی ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ یہ بڑا فرق ہو گیا ہے۔ پہلا کمٹ منٹ ملک و قوم سے اعلیٰ پیشہ ورانہ معیار سے ہوتا تھا‘ اب کمٹ منٹ اپنی خوش حالی سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحافت کا معیار بدل گیا ہے ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اخبار نکال لے اور ایڈیٹر بن جائے۔

طاہر مسعود: آپ اخبار کے ایڈیٹر بھی رہے اور ساتھ ہی ایک جماعت کے رکن بھی رہے اور اس کے انتخابی امیدوار بھی رہے۔ آپ کا اخبار غیر جانب دار ہونے کا دعویٰ کرتا رہا ہے تو اس اخبا رمیں آپ نے جماعتی وابستگی کے ساتھ جو کام کرنے کا تجربہ حاصل کیا اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

محمود احمد مدنی: یہ آپ نے بہت اچھا سوال کیا۔ اکثر لوگ یہ بات پوچھتے ہیں اور لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک پولیٹیکل کمٹ منٹ والا آدمی ایک غیر جانب دار اخبار نویس کیسے بن سکتا ہے؟ اس کی وجہ ہے اور پہلی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں نے جس اخبار میں کام کیا وہ پرائیوٹ اخبار تھا۔ ایک شخص کا اخبار تھا اور مالک یہ دیکھتا تھا کہ کارکردگی کے اعتبار سے کون آدمی میرے اخبار کے لیے مناسب ہے۔ میری مالک سے کوئی رشتے داری نہیں تھی۔ میرے اندر کوئی غیر معمولی لیاقت قابلیت نہیں تھی۔ وہ بھی جانتے تھے کہ میرا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اور تمام دنیا جانتی تھی لیکن اس سے بجائے نقصان کے یہ فائدہ ہوا کہ وہ مجھ پر کارکردگی کے اعتبار سے اور ذہانت کے اعتبار سے پورا بھروسہ کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی جب اخبار میں ایڈیٹر کی پوسٹ پر پہنچتا ہے تو اس کے لیے مواقع بہت پیدا ہو جاتے ہیں۔ مثلاً جب جنرل ضیا الحق مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے اور انہوں نے پہلا بجٹ پیش کیا تو رات دس بجے ان کا فون میرے پاس آگیا کہ میں ضیا الحق بول رہا ہوں آپ نے بجٹ پڑھا‘ آپ کو بجٹ کیسا لگا؟ اور آپ صبح بجٹ کے بارے میں کیا چھاپ رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتا دیا۔ میں بتا رہا ہوں کہ مواقع کیسے پیدا ہوتے ہیں ایک اخبار والے کے لیے۔ ورنہ ایوب کے بعد سے جتنے سربراہ مملکت ہوئے ہیں‘ ان سب میری براہ راست واقفیت رہی ہے۔ وہ مجھے پہچانتے تھے‘ میں اُن کو پہچانتا تھا۔ وہ بلاتے رہے ہیں۔ میں ان سے بات کرتا رہا ہوں۔ لیکن ایک بات کی گارنٹی ہے اور اس چیز نے مجھے فائدہ پہنچایا کہ میرے اخبار کا مالک یہ جانتا تھا کہ یہ شخص اپنی پوزیشن سے کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھائے گا اور میری چوبیس سال کی زندگی ہے اخبار میں‘ وہ اس بات کی گواہ ہے۔ جب میری (صدر) ضیا الحق سے فون پر بات ہوگئی تو میں نے فوراً اخبار کے مالک کو فون کیا اور انہیں گفتگو سے آگاہ کر دیا۔ ضیا الحق صاحب کے پاس جتنے وی آئی پیز ہوتے تھے‘ ان کی فہرست ہوتی تھی‘ وہ رات میں ہر آدمی سے بات کر لیتے تھے۔ پھر ضیا الحق نے ہمارے اخبار کا دورہ کیا۔ مجھ سے ملاقات ہوئی۔ اسلام آباد میں میٹنگیں ہوئی تھیں تو وہاں میری ان سے ملاقاتیں رہتی تھیں۔ ان سے میرا ذاتی رابطہ قائم ہو گیا تھا۔ لیکن ضیا الحق کو بھی معلوم تھا اور میرے مالک کو بھی معلوم تھا کہ اس تعلق سے میں نے ان سے کبھی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا۔ ممکن ہے میرا پولیٹیکل کمٹ منٹ نہ ہوتا تو میں بھی سوچتا کہ کچھ کر لوں۔

طاہر مسعود: اچھا یہ بھی تو ہوتا ہوگا کہ آپ کی جماعت آپ کے اخبار سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہو خبروں کے حوالے سے‘ آپ کے مالک کی وہ ترجیح نہ ہو‘ اس وقت آپ کیسے ایڈجسٹمنٹ کرتے تھے؟

محمود احمد مدنی: ایسے بہت سے لمحے آئے۔ لیکن میں بتا دوں کہ میں نے پارٹی والوں پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ دیکھیے میں ایک اخبار کا ملازم ہوں اور میری پالیسی وہی ہے جو مالک کی پالیسی ہے۔ یہ پرائیویٹ اخبار ہے‘ میرا اخبار نہیں ہے۔ پارٹی کا اخبار نہیں ہے۔ لہٰٰذا اس ملک و قوم کے مفاد کی حد تک میں اس پر تھوڑا بہت اثر انداز ہو سکتا ہوں لیکن آپ یہ توقع رکھیں کہ میں اس کو پارٹی لائن پر چلائوں گا تو یہ میں نہیں کرسکتا۔ پارٹی یہ بات سمجھتی تھی اور میرالک بھی یہ سمجھتا تھا۔

طاہر مسعود: ہم نے یہ سنا ہے کہ آپ کے اخبار کے مالک کام کے معاملے میں ملازموں پر سخت تھے‘ کوئی کام خراب ہوجاتا تھا تو ملازم صحافیوں کو بلا کر بدتہذیبی کرنا اور سخت روّیے سے پیش آنا ان کا معمول تھا‘ آپ کے ساتھ ان کا روّیہ کیسا تھا؟

محمود احمد مدنی: میرے مالک بہت ہارڈ ٹاسک ماسٹر تھے۔ ان کی کارکردگی کا معیار بہت سخت تھا۔ وہ کوئی نرمی کی گنجائش باقی نہیں رکھتے تھے لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے‘ میرے ان سے ذاتی تعلقات تھے اور یہ تعلقات بہت اچھے رہے۔ مجھے ان سے یہ شکایت کبھی نہیں رہی کہ انہوں نے میرے ساتھ زیادتی کی بلکہ بعض معاملات ایسے ہوئے کہ وہ ناراض ہو گئے لیکن بعد میں انہوں نے بلا کر معذرت کر لی اور مجھ سے کہا کہ تمہاری رائے صحیح تھی۔ مثال کے طور پر کوثر نیازی صاحب کا ایک مضمون آیا۔ وہ ہم نے روک دیا‘ نہیں چھاپا۔ کوثر نیازی اس وقت وزیر اطلاعات تھے۔ مالک صاحب نے کہا کہ یہ چھپے گا‘ کیوں نہیں چھپے گا۔ میں نے کہا کہ آپ مضمون پڑھ لیجیے اور سوچ لیجیے۔ بعد میں انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ تمہاری رائے صحیح ہے اور تم اپنی مرضی سے فیصلہ کرو۔ روزانہ جب ایسے معاملات آتے تھے جب میرا مالک مجھے دست یاب نہیں ہوتا تھا تو مجھے خود فیصلے کرنے ہوتے تھے۔ اگر میں اس انتظار میں بیٹھا رہتا کہ مالک ہی سے پوچھوں تو بڑا مسئلہ ہو جاتا۔ کام ہی اچھا نہیں چل سکتا۔

طاہر مسعود: آپ کے اخبار کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ یہ مفاد پرست اخبار ہے‘ ہر دور میں حکومت کا حامی رہتا ہے۔ اپوزیشن کی طرف اس کا جھکائو بہت کم رہتا ہے۔ خاص طور پر اس کی ایڈیٹوریل پالیسی بہت زیادہ خوشامدانہ اور مفاہمانہ رہتی ہے تو اس تاثر کی بنا پر آپ نے کبھی محسوس کیا کہ یہ ملازمت آپ کے لیے موزوں نہیں ہے؟

محمود احمد مدنی: میں نے ایسا کبھی محسوس نہیں کیا کیوں کہ میرا تعلق بنیادی طور پر نیوز روم سے تھا‘ خبروں سے تھا۔ خبروں کے معاملے میں مجھ پر کبھی یہ دبائو نہیں ڈالا گیا کہ اس خبر کو چھاپ لیں اور اس کو روک لیں۔ نہ گورنمٹ کی طرف سے یہ دبائو آیا اور نہ مالک کی طرف سے آیا۔ خبر تو میرٹ کی بنیاد پر جاتی تھی۔ ہاں بس یہ ہے کہ ہم اس کو جاذبِ نظر (Display) بنا کر چھاپنے میں کمی یا زیادتی کر سکتے تھے۔ مثلاً نواب صاحب کالا باغ گورنر تھے۔ بڑے جابر اور طمطراق کے گورنر تھے۔ ایک زمانے میں تو یہ کہا جانے لگا تھا کہ ایوب خان بھی ان سے ڈرتے ہیں۔ خبر یہ آئی کل نواب صاحب کو نوکری سے فارغ کر دیا جائے گا۔ یہ خبر اخبار کے مالک صاحب لے کر آئے۔ انہوں نے مجھے بلایا کہ دیکھو یہ خبر ہے۔ ظاہر ہے مالک خبر دے رہا ہے اس کے عواقب و نتائج کی ذمہ داری ان پر ہے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ خبر کیسے دینی چاہیے۔ دو طریقے تھے ایک تو ہم لیڈ لگا دیتے کہ آج نواب صاحب کا دھڑن تختہ ہو جائے گا دوسرا یہ تھا کہ اسے ٹون ڈائون کر کے دیتے۔ میں نے کہا کہ دیکھیے خبر تو چھپا نہیں سکتے بہت بڑی خبر ہے۔ جب ہمیں ملی ہے تو ہمیں یہ خبر چھاپنی چاہیے۔ اب یہ ہے کہ اگر یہ خبر غلط ہوئی تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟ اگر آپ نے اس کو نمایاں کر دیا تو اس کے نتائج بھی بہت نمایاں ہوں گے اور اگر آپ نے اس کو ٹون ڈائون کر دیا تو اس میں گنجائش رہتی ہے یہ کہنے کی کہ غلطی ہوگئی۔انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ چنانچہ یہ خبر کہ نواب صاحب سبکدوش کر دیے جائیں گے‘ اگلے دن کے اخبار میں سنگل کالم چھپی اور یہ خبر صحیح نکلی۔ یہ مطلب یہ ہے کہ ہم خبروں کی اشاعت کے نتائج پر بات کر لیا کرتے تھے یہ کبھی نہیں ہوا کہ ہم سے کبھی کسی خبر کو Kill کرنے کے لیے کہا گیا ہو۔

طاہر مسعود: یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اگر اشتہار گیا ہے تو خبر اکھاڑ دی گئی ہے؟

محمود احمد مدنی: یہ تو تمام دنیا میں ہوتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے اخبارات میں بھی ایسا ہوتا ہے۔

طاہر مسعود: ہمارے بعض اخبارات ایسے ہیں جو خبر پر اشتہار کو کبھی ترجیح نہیں دیتے مثلاً ڈان؟

محمود احمد مدنی: اب کیا ہو رہا ہے اس کا تو میں جواب دہ نہیں۔ لیکن اس وقت ہم یہ خیال رکھتے تھے کہ خبروں کا حصہ اشتہارات سے زیادہ ہو لیکن میرے مالک کی سوچی سمجھی رائے یہ تھی کہ اخبار چلانے کے لیے میں اپنی جیب سے پیسہ خرچ نہیں کر سکتا اور کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ اخبار چلانے کے لیے ہمیں اپنے وسائل فراہم کرنے ہیں اور وہ طریقہ ہے اشتہار۔ اشتہار کو اس طرح نظر انداز نہیں کرسکتے کہ اخبار کے لیے مسائل پیدا ہو جائیں۔ لیکن اس وقت یہ مسئلہ اتنا بے قابو نہیں تھا جتنا اب ہو گیا ہے۔ یہ رجحان اب ساری دنیا میں ہے کہ خبریں کم ہو رہی ہیں اور اشتہارات بڑھ رہے ہیں۔

طاہر مسعود: بہرحال آپ کا اخبار بنیادی طور پر تجارتی اخبار تو شروع سے رہا ہے‘ اس کے تجارتی مفادات اس کے سیاسی مفادات پر حاوی رہے ہیں۔

محمود احمد مدنی: ہمارے اخبار کا سیاسی مفاد تو کبھی کوئی رہا نہیں ہے۔ اس کا کوئی سیاسی کمٹ منٹ نہیں ہے نہ وہ کسی سیاسی جماعت کو فروغ دیتا ہے۔ اس کی پالیسی یہ رہی ہے کہ جو پارٹی بھی پاپولر پارٹی ہے اس کی خبر چھپنی چاہئیں خواہ وہ کوئی پارٹی ہو اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ درست پالیسی ہے۔

طاہر مسعود: پاکستان کے دو وزرائے اعظم کا مشہور واقعہ ہے‘ ایک حسین شہید سہروردی دوسرے ذوالفقار علی بھٹو۔ یہ دونوں جب اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے کہ جس دن ہم اقتدار میں آئیں گے ’’جنگ‘‘ کو بند کر دیں گے۔ اتفاق سے اقتدار میں آئے تو ان کے قریبی حلقوں نے کہا کہ اب اس اخبار کو بند کر دیں تو سنا ہے سہروردی نے کہا اچھا کل طے کرتے ہیں۔ اگلے دن انہوںنے سب کو ایک ایک اخبار تھما دیا اور کہا کہ یہی ایک اخبار تو ہماری حمایت میں لکھ رہا ہے تو کیا اب اسے بھی بند کردیں۔ یہی بھٹو نے کہا کہ ایک ہی اخبار تو ہماری حمایت کر رہا ہے۔

محمود احمد مدنی: میرے اخبار کی پالیسی یہ رہی ہے کہ کسی پارٹی کو نہ پروجیکٹ کرنا ہے اور نہ اس کا دفاع (Defend) کرنا ہے ہاں جو پاپولر پارٹی ہے اس کی خبریں چھپنی چاہئیں۔

طاہر مسعود: دیکھے ادارتی صفحہ رائے ساز صفحہ ہوتا ہے لیکن آج آپ کے اخبار میں جتنے لکھنے والے ہیں وہ سب کسی نہ کسی سفارش پر لکھ رہے ہیں۔ آپ کے زمانے میں کیا صورت تھی‘ آپ ادارتی صفحے پر لکھنے والوں کا انتخاب کس طرح کرتے تھے۔

محمود احمد مدنی: میرے زمانے میں پالیسی یہ تھی کہ اخبار خبروں کے لیے ہوتا ہے جس کو مضمون پڑھنا ہے وہ رسالہ پڑھیں۔ روزنامہ اخبار میں خبریں زیادہ سے زیادہ ہونی چاہئیں۔ آج بھی لاہور کے اخبارات میں جتنا زور میگزین پر دیا جاتا ہے کراچی میں یہ رجحان نہیں ہے۔ کراچی کے لوگوں کو شروع میں اداریہ پڑھنے کی عادت ہی نہیں تھی۔ ہمارے ہاں روز یہ باتیں ہوتی تھیں کہ صفحہ اوّل اور صفحہ آخر پر اتنی خبریںدے دو کہ آدمی ناشتہ کرتے ہوئے معلوم کر لے کہ کل دنیا بھر میں کیا کیا ہوا ہے۔ کراچی میں آدمی کے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ پوری خبر پڑھے۔ سرخیوں اور تصویروں کی مدد سے خبروں کو واضح کر دو۔ چنانچہ ہمارے اخبار کی پالیسی یہ رہی ہے کہ چند الفاظ میں خبروں کا خلاصہ پیش کر دو۔

طاہر مسعود: یہ پالیسی کہ اتنی خبریں دے تو کہ آدمی اَپ ٹو ڈیٹ ہو جائے‘ یہ مسئلہ 1980ء کی ابتدائی دہائی تک رہا ہے۔ اب اتنے میڈیا چینلز آچکے ہیں اور لوگوں کا خبری شعور اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب صرف خبروں پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا۔ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیںکہ کوئی واقعہ ہوا ہے تو کیوں ہوا ہے؟

محمود احمد مدنی: اخباروں میں اب جو تبصرہ اور تجزیہ آتا ہے اس کی شکل بھی اب خبر کی سی ہو گئی ہے۔

طاہر مسعود: اب پرنٹ میڈیا کو زندہ کرنے کے لیے صرف مطلع کرنے کی ذمہ داری نہیں رہی۔ اب اسے واقعات کا تجزیہ بھی کرنا ہے کیوں کہ مطلع تو ٹیلی ویژن کر رہا ہے۔ تجزیہ کرنا پرنٹ میڈیا کی ذمہ داری بن گئی ہے‘ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟

محمود احمد مدنی: اخبارات میں تجزیے کا عنصر بڑھ رہا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے مقابلے میں پرنٹ میڈیا کی اہمیت یہ ہے کہ اس کی مستقل اہمیت ہوتی ہے۔

طاہر مسعود: آپ کے اخبار میں لکھنے والوں کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ بہت سے ایجنسی اسپانسرڈ لوگ لکھ رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے بارے میں یہ کہ وہ چار سطریں خود نہیں لکھ سکتے لہٰذا وہ کسی سے معاوضہ دے کر لکھواتے ہیں؟

محمود احمد مدنی: یہ کہنا کہ ایجنسیاں لکھوا رہی ہیں تو لوگوں کو معلوم ہے کہ کون سی ایجنسیاں لکھوا رہی ہیں۔ جیسے جیسے ایجنسی کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے تو ان کا دائرۂ کار بھی بڑھ رہا ہے۔

طاہر مسعود: ملک میں آزادیٔ صحافت کی جو صورتِ حال ہے‘ اس کے حوالے سے یہ بتایئے کہ آج صحافت ماضی کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے یا اس پر مختلف قسم کے پریشر ماضی کی نسبت بڑھ گئے ہیں؟

محمود احمد مدنی: میں سمجھتا ہوں کہ ماضی کے مقابلے میں آج صحافت زیادہ آزاد ہے۔ بعض سیاسی جماعتیں بعض لسانی جماعتیں اور پریشر گروپ ایسے ہیں جو دھمکیاں دیتے ہیں اور اخبارات پر دبائو ڈالتے ہیں‘ یہ پہلے نہیں تھا‘ یہ ایک نیا عنصر ہے جو ہمارے ملک میںآیا ہے۔ اب تو بہت کم ہو گیا‘ پہلے زیادہ تھا لیکن حکومت کی طرف سے پہلے بھی جو دبائو ہوا تھا‘ میرے خیال میں اب وہ نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اخبارات کا مؤقف بھی بالکل واضح ہے‘ سیاسی جماعتوں کا بھی مؤقف بالکل واضح ہے‘ کون کیا چاہتا ہے اور کہاں کھڑا ہے‘ یہ سب کو معلوم ہے۔ حکومت کو بھی اور اپوزیشن کو بھی۔ لہٰذا انفرادی بنیاد پر کوئی کوشش تو ہوسکتی ہے کہ کسی اخبار میں کوئی خبر چھپوا دی جائے لیکن اب حکومت کی یہ کوشش نہیں ہوتی کہ کسی خبر کو Kill کرا دے یا خبر کو روک دیا جائے۔ ایک بات اور بھی ہے کہ گزشتہ پندرہ سال سے میرا تعلق جسارت سے رہا ہے‘ لہٰذا میرا تجربہ نہیں ہے کہ حکومت کی طرف سے کبھی کوئی دبائو ڈالا گیا ہو کہ آپ یہ چھاپیے اور یہ نہ چھاپیے۔ اگر دبائو حکومت کی طرف سے ڈالا جاتا ہے تو ان ہی پر ڈالا جاتا ہے جن سے حکومت کو توقع ہوتی ہے کہ یہ دبائو قبول کر لیں گے جن کے بارے میں حکومت کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دبائو قبول نہیں کریں گے حکومت ان پر دبائو نہیں ڈالتی ہے۔ تو یہ اخبار کے اپنے روّیے پر ہے کہ اس نے حکومت سے کیسے تعلقات رکھتے ہیں۔ اگر اخبار حکومت سے کچھ لینا چاہتا ہے تو اسے کچھ دینا بھی پڑے گا لیکن اگر آپ کے ہاتھ صاف ہیں تو دبائو کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ میری رائے میں صحافت اب پہلے کے مقابلے میں زیادہ آزاد ہے۔

(جاری ہے)

حصہ