کلمہ شکر

184

کبھی کبھی ہم اپنے رب کی نعمتوں کو بہت زیادہ فورگرانٹڈ (Forgranted) لے لیتے ہیں۔ اُن نعمتوں کو بھول جاتے ہیں جو ہمارے پاس ہوتی ہیں، اور اُن کے لیے حسرت کرتے ہیں جو ہمارے پاس اس وقت موجود نہیں ہوتیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب میں اپنا بارہ تیرہ سال پہلے کا وقت یاد کررہی تھی جب میرے بچے بہت چھوٹے تھے اور ہر وقت ایسا لگتا تھا کہ کام کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ ہمیشہ ایک کے بعد ایک کام منتظر ہی رہتے۔ جب تھک ہار کر بستر پر جاکر لیٹتے تو کچھ سوچنے سے پہلے ہی نیند سے بوجھل آنکھیں بند ہوجاتیں۔

مجھے یاد ہے اس مصروف وقت میں امی سے بات کرنے کا وقت بھی بے انتہا مشکل سے ملتا تھا اور جب بھی بات ہوتی، امی سے مصروفیات کا رونا روتے روتے ہی آدھا گھنٹہ نکل جاتا تھا، اور اس دوران بھی میں کچھ نہ کچھ کام کر ہی رہی ہوتی تھی۔ لیکن اللہ نے ماں اتنی پیاری ہستی بنائی ہے کہ جب بھی ہمارے دکھڑے سنتیں تو ہمیشہ تسلی ہی دیتیں کہ بیٹا ابھی تھوڑا مشکل وقت ہے، اِن شاء اللہ آگے جاکر یہی بچے تمہارا ہر کام میں ہاتھ بٹائیں گے۔ اور ان کی یہ باتیں سن کر دل کو تسلی تو ہوتی تھی لیکن ساتھ میں یہ سوچ بھی آتی کہ وہ دن تو ابھی بہت دور ہیں، جب تک بچے بڑے ہوں گے ہم بوڑھے ہوجائیں گے۔ لیکن آج اچانک افطار کے برتن دھوتے دھوتے ایک دم خیال آیا کہ نہیں بھئی وہ دن تو اللہ نے عطا کردیے کہ جب بچوں نے ہاتھ بٹانا شروع کردیا، اور اچانک یہ خیال ہمیں اس لیے آیا کیوں کہ افطاری کرنے کے فوراً بعد ہم تو دستر خوان سے اٹھ جاتے ہیں اور جب نماز پڑھ کر باورچی خانے کا رخ کرتے ہیں تو کب افطار کے برتن سنک میں پہنچ جاتے ہیں، دستر خوان کب اٹھ جاتا ہے اور کرسیاں کب سمٹ جاتی ہیں پتا ہی نہیں چلتا، تو اُس وقت بے اختیار شکر کا کلمہ منہ سے نکلتا ہے، کیوں کہ پہلے یہ تمام کام ہمیں خود ہی اکیلے کرنا پڑتے تھے۔

اب بھی اکثر پہلے کا وقت سوچتی ہوں تو بے انتہا حیرت ہوتی ہے کہ کیسے میرے پیارے رب نے وہ وقت گزروا دیا، حالانکہ ابھی بھی میرے بچے بہت بڑے نہیں، چھوٹے ہی ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ سب سے بڑی 9 سال کی ہے اور اس کے بعد بالترتیب 6، 7 اور 8 سال کے ہیں، لیکن پھر بھی کم از کم اپنے سارے کام اور گھر کے چھوٹے چھوٹے کام خود ہی کرلیتے ہیں جیسے دستر خوان اٹھانا بچھانا، اپنی اپنی پلیٹیں خود دھو لینا، کچرا کچرے دان میں پھینکنا، اپنے بستر خود جھاڑ لینا… اور اس کے علاوہ اور بھی ایسے بہت سے سیکڑوں کام خود ہی کرلیتے ہیں۔

بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں نکل گئی! خیر مختصراً یہ کہ ہمیں وقتاً فوقتاً اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے اور اپنے دماغ کو جان بوجھ کر اُن نعمتوں کا شکر ادا کرنے پر لگانا چاہیے جو کہ بظاہر تو ہمیں بہت چھوٹی لگ رہی ہوتی ہیں لیکن اگر یہ میسر نہ ہوں تو زندگی گزارنا مشکل ہوجائے۔

حصہ