عمل سے زندگی بنتی ہے

365

’’سنو سائرہ! تم نے اس عید پر کیسے کپڑے بنائے؟‘‘ کالج کے گرائونڈ میں نوٹس بناتی ہوئی سائرہ سے زیبا نے اچانک سوال کیا۔

’’میرا کپڑے بنانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، میرے پاس پہلے ہی بہت کپڑے ہیں لیکن امی کل دو جوڑے لائی ہیں۔‘‘

’’وائو، آنٹی کی چوائس تو بہت زبردست ہے، کیسے ہیں؟‘‘ منیرہ نے پوچھا۔
’’پتا نہیں، غور نہیں کیا۔‘‘ سائرہ کے اس جواب پر سب تپ ہی گئیں۔
’’اُف ایک تو تم بھی انتہائی بور ہو، کسی موقع پر خوش نہیں ہوتیں، انجوائے نہیں کرتیں۔‘‘ اور گروپ کی شکل میں بیٹھی چاروں دوست اپنی اپنی عید کی تیاری کا ذکر کرنے لگیں، کسی نے لہنگا لیا، تو کسی نے برانڈڈ سوٹ، میچنگ جیولری وغیرہ۔ سائرہ کو یہ سب سن کر عجیب سا اختلاج ہونے لگتا تھا، وہ سب کے درمیان بیٹھ کر بھی غیر حاضر رہتی تھی، وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ سارا سال شاپنگ کرنے والوں کو عید کی خریداری میں کیا کشش محسوس ہوتی ہے؟ کبھی کبھی وہ اپنے آپ سے بھی نالاں ہوجاتی کہ مجھے کیوں عام سی لڑکیوں کی طرح یہ شوق نہیں؟ میرا کیوں دل نہیں چاہتا کہ عید کے تینوں دن کے جوڑے بنائوں، سجوں، سنوروں، ستائش سمیٹوں! لیکن یہ سب سوچ کر اسے مزید گھبراہٹ ہونے لگتی اور وہ سر جھٹک کر پھر اپنی پڑھائی میں لگ جاتی۔

ابھی کل ہی کی تو بات ہے امی اس کے لیے کپڑے لائیں اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود، جو مجبوراً اسے رکھنا پڑے۔ لیکن جب اس نے الماری کھولی تو پہلے سے موجود نئے جوڑے اور پھر یہ دو مزید جوڑے دیکھ کر طبیعت میں ایسی بے کلی پیدا ہوئی کہ اس نے اپنے دو جوڑے خاموشی سے کام والی کے حوالے کردیے کہ اس کی بیٹی عید پر یہ پہن کر خوش ہوجائے گی، اور بدلے میں دعائیں سمیٹنے کی اسے جو خوشی تھی وہ بیان سے باہر ہے۔ ہاں اِس خوشی میں یہ خوف پنہاں تھا کہ امی کو معلوم ہوگیا تو زبردست ڈانٹ پڑے گی۔

عید جوں جوں قریب آرہی تھی تیاریاں بھی سب کی عروج پر تھیں، ایک وہی تھی جس کی اس میں دل چسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ لائونج میں بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی کہ ایک خبر نے اسے ساکت و جامد کردیا ’’باپ نے تین بچوں کی عید کے جوڑے کی روز روز کی فرمائش سے تنگ آکر خودکشی کرلی…‘‘ اس سے پہلے کہ وہ مکمل خبر پڑھتی اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھاگیا۔ کیسے بے حس ماحول میں جی رہے ہیں ہم؟ اس نے خود سے سوال کیا۔ کسی سے بات کرو تو جواب آتا ہے: حکمرانوں کی ذمے داری ہے۔ بالکل صحیح، لیکن اگر حکمران بے حس ہوں تو کیا ہم جیسوں کی ذمے داری نہیں کہ اگر کچھ نہیں کرسکتے تو محرومیاں تو نہ بڑھائیں۔ دکھاوے اور نمود کی اس فضا نے لوگوں کا جینا مشکل کردیا ہے۔ وہ اپنے اندر کی جنگ سے گھبرا کر کھلی فضا میں سانس لینے آگئی۔ کچھ دیر میں خود کو پُرسکون محسوس کرکے اور اپنے حصے کی جوت جلانے کا خواب دیکھتے ہوئے وہ کمرے میں جاکر لیٹ گئی۔

اگلا دن کالج کا آخری دن تھا، اس کے بعد عید کی چھٹیاں۔ اس نے اپنی دوستوں کو کل والی خبر سنائی۔ سب نے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا۔ اس نے ان سے پوچھا ’’ہم کیا کرسکتے ہیں ایسے میں؟‘‘

’’ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے سائرہ! یہ حکومتوں کا کام ہے اور اتنی این جی اوز بھی تو کرتی ہیں یہ کام۔‘‘ زیبا نے جواب دیا۔
’’صحیح، لیکن اپنے حصے کا ایک ایک چراغ تو جلاسکتے ہیں…‘‘
’’مطلب…؟‘‘ سب نے اجتماعی طور پر پوچھا۔

’’بھئی دیکھو، ہمارے اردگرد بھی تو ہزاروں غریب بستے ہیں، ہم جو عید کے تین چار جوڑے اپنے لیے بناتے ہیں، اگر ایک ایک کم کرکے اُن تک پہنچادیں تو اُن کی عید بھی اچھی ہوجائے گی۔‘‘

’’ہاں یہ ہو تو سکتا ہے لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل بھی تو ہوں۔‘‘ منیرہ کی بات سن کر اسے دکھ تو ہوا جو ایک ایک جوڑا دس ہزار سے کم کا نہیں پہنتی تھی، لیکن بہت سکون سے بولی ’’وسائل تو ہوتے ہیں بس دلوں کو وسیع کرنا ہوتا ہے، ہم ایک سوٹ کم بنالیں یا کم قیمت کا، کیا فرق پڑجائے گا؟ پھر عید کا مقصد بھی یہی ہے نا، کہ ناداروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں۔ اچھا سنو، تم لوگ مجھے تحفہ دیتی ہو نا ہر سال عید پر، اِس بار جب ہم عید پر ملیں گے تو تم مجھے تحفہ دینے کے بجائے کسی ضرورت مند کو اس کی قیمت ادا کردینا، سچ مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔‘‘

اس کا یہ تیر ٹھیک نشانے پر لگا۔ ارم جو بہت دیر سے خاموش تھی، بولی ’’ویسے اس میں واقعی کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم تین میں سے ایک جوڑا کسی غریب کو دے دیں، اور ہمیں کیا کمی، سارا سال ہی بناتے ہیں۔‘‘

سب نے ارم کی اس بات سے اتفاق کیا کہ عید سے قبل کسی ایک گھرانے کو عید کی خوشی میں شریک کریں گے۔

اپنے حصے کی شمع جلانے کی کوشش میں کامیابی پر سائرہ بہت مسرور تھی۔گھر واپسی پر وہ جب نماز سے فارغ ہوکر آئی تو پرانی کام والی ماسی امی کے پاس بیٹھی انہیں بتارہی تھی ’’باجی! کہاں سے پورا کروں! چھے بچے ہیں، میاں کبھی دیہاڑی لاتا ہے کبھی نہیں۔ میں صبح سے شام تک خون پسینہ ایک کرکے مہینے کے پندرہ ہزار کماتی ہوں، اب اس میں کھائیں، کرایہ دیں، بل بھریں، کیا کریں؟‘‘وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی اور اُس کا دل غم سے لبریز ہوگیا۔ سارا سال تو بی بی ہم اترن پہنتے و پہناتے ہیں، ایک عید کا ہی تو تہوار ہوتا ہے جب بچے کہتے ہیں اماں آج تو نیا پہنادو، کچھ اچھا کھلا دو، تو بی بی! ہمارا دل کیسے دُکھتا ہوگا! آپ بھی تو ماں ہو۔ اور امی جس بے زاری سے یہ سب سن رہی تھیں اس نے سائرہ کو بے چین کردیا، اسے یقین تھا کہ امی پانچ سو سے زیادہ اس کے ہاتھ میں نہ رکھیں گی اور مہنگائی کے بے قابو جن کے آگے ان پانچ سو کی کیا حیثیت؟

وہ کمرے میں گئی اور اپنی پورے سال کی جمع شدہ رقم بغیر گنے لے آئی۔ اُسے یقین تھا شبو سچ بول رہی ہے، پندرہ سال اس نے سائرہ کے ہاں کام کیا، بستی تجاوزات کی زد میں آئی تو اسے شہر سے کہیں بہت دور کچی بستی میں جگہ ملی جس کی وجہ سے اسے یہاں کام چھوڑنا پڑا، اور آج امی کی یہ لاتعلقی سائرہ کا دل دُکھا گئی۔

شبو نے کہا ’’اچھا بی بی جی چلتی ہوں۔‘‘ امی نے توقع کے مطابق پانچ سو دیے۔ اس کا چہرہ دل کا حال بتا رہا تھا، اس نے لائونج میں سائرہ کو دیکھ کر سلام کیا اور جانے لگی۔ سائرہ نے روک کر خاموشی سے اسے پیسے پکڑا دیے۔

امی گرج دار آواز میں بولیں ’’کیا تم ہر وقت حاتم طائی بنی رہتی ہو، ان کی تو عادت ہوتی ہے۔‘‘

’’امی ایسے تو نہ کہیں، آپ کو خود معلوم ہے شبو ایسی نہیں ہے۔‘‘
’’ہونہہ سب ایک سی ہوتی ہیں، گھر گھر جائے گی یہ دیکھنا۔‘‘

’’ٹھیک ہے جائے گی، لیکن آپ کی طرح ہر گھر سے پانچ سو، ہزار ملے تو کتنے بچوں کے جوڑے بنالے گی، یا عید پر گوشت پکا کر کھلادے گی؟‘‘

سائرہ کے اس سوال سے امی چڑ گئیں ’’تم سے بات کرنا بے کار ہے۔‘‘

’’میری پیاری امی…‘‘ سائرہ نے پینترا بدلتے ہوئے انہیں شانوں سے پکڑ کر بہت پیار سے کہا ’’آپ خود بتائیں آپ میرے دو جوڑے کتنے کے لائی ہیں؟ کم از کم 6 ہزار کے تو ہوں گے نا؟ شاید اس سے زیادہ کے ہی ہوں۔ پھر یہ جو سال کے سال اپنے بچوں کے کپڑے بناتی ہیں، اگر ہزار بارہ سو کے ایک ایک بھی لیں تو 6 بچوں کے کتنے ہوجائیں گے؟ آپ اس طرح کیوں نہیں سوچتیں؟ پھر فرمان نبیؐ بھی تو ہے ’’جو اپنے لیے پسند کرو وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے‘‘۔ اس کے باوجود ہمیں برا لگتا ہے اگر وہ بھی ہمارے جیسا پہن لیں، کھا لیں۔ تو ہمارا یہ طریقہ کیا درست ہے؟‘‘

’’صحیح کہہ رہی ہو تم بیٹا! اس طرح تو میں نے سوچا ہی نہیں۔‘‘

اور امی کی سوچ کی تبدیلی اسے سرشار کر گئی۔ اگلے دن شبو کو پھر دیکھ کر وہ چونک گئی۔ پوچھنے پر امی نے بتایا کہ ’’میں نے بلایا ہے۔‘‘

شبو خوشی خوشی امی کو بتارہی تھی ’’کل سائرہ باجی نے جو پیسے دیے اور چار گھروں سے ملے، کُل ملا کر آٹھ ہزار تھے۔ میں نے جاکر بدھ بازار سے بچوں کے کپڑے خریدے، دو چھوٹوں کے جوتے تھے ہی نہیں، ننگے پیر رہتے تھے، اُن کے لیے جوتیاں بھی لے لیں…‘‘ یہ سب کہتے ہوئے شبو کے چہرے اور لہجے کی خوشی دیدنی تھی۔ ’’اور اپنے اور میاں کے لیے؟‘‘ ’’بی بی سوہنے رب کا شکر ہے بس بچوں کی خوشی میں خوش ہیں، ہمارے پاس لوگوں کے دیے پرانے کپڑے ہیں، وہ بہت ہے۔‘‘

’’اچھا یہ لو…‘‘ امی نے تین ہزار شبو کو دیے کہ ’’تم اپنا اور میاں کا جوڑا بنا لینا، اب پرسوں ہی تو عید ہے، آج ہی لے لینا۔‘‘

’’نا بی بی! آپ کا بہت شکریہ۔ کپڑوں کا کیا ہے، اس سے میں بچوں کے لیے عید والے دن مزیدار بریانی و کھیر بنادوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر شبو امی کو دعائیں دیتے ہوئے چلی گئی۔

سائرہ کے دیپ کی روشنی اس کے چہار اطراف کو منور کررہی تھی اور یہ بات اس کے لیے انتہائی خوشی اور اطمینان کا باعث تھی۔

حصہ