مصنوعی ذہانت کتنی مصنوعی ہے؟

671

ہم بات تو سوشل میڈیا کی کرتے ہیں مگر اب اس سوشل میڈیا کے اندر مصنوعی ذہانت اتنی زیادہ داخل ہوگئی ہے کہ اس پر مستقل بات کرنا اور اس کے خطرات اور اس کا رد کرنا ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔

حالیہ مہینوں میں مصنوعی ذہانت کی لیبارٹریاں ایسے طاقت ور ڈیجیٹل دماغ تیار اور استعمال کرنے کی دوڑ میں لگی ہیں جنہیں کوئی بھی سمجھ نہیں سکتا اور نہ ہی ان کے متعلق پیش گوئی، یا قابل اعتماد طور پر قابو پا سکتا۔

ہالی ووڈسے تو1989میں شاید پہلی بار ’’سائی بورگ‘‘ نامی فلم سے یہ تعارف سامنے آیا۔ اِس ’’سائی بورگ‘‘ کی تعریف یوں بنی کہ ’’ایسا انسان جس کے جسم کے کچھ حصے یا مکمل جسم کو الیکٹرو مکینیکل آلات قابو کر چکے ہوں‘‘۔

انسانی ٹیکنالوجی کا یہ سفر چلتا ہوا اب 33 سال بعد اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی لیبارٹریاں اب ایسے طاقتور ڈیجیٹل ’’دماغ‘‘ کو تیار اور استعمال کرنے کی دوڑ میں لگی ہیں جنہیں کوئی بھی کنٹرول نہیں کر سکتا۔ ذرا تصور کریں کہ دُنیا پر ایسی مشینیں قابض ہوجائیں جو پہلے سے دیے گئے پروگرام اور معلومات یا ازخود ڈیٹا وصول کرکے نتائج اخذ کرکے قدم اٹھائیں تو کیا حال ہوگا۔ ماہرین نے کہا ہے کہ اگر کمپنیاں مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی پر خود کام نہیں روکتیں تو حکومتوں کو مداخلت کرنی چاہیے۔

ایک سعودی محقق عبدالرحمن الثبیتی نے سعودی میڈیا فورم میں کہا کہ معاشرے میں مصنوعی ذہانت کی ترقی اور اِس کے بڑھتے ہوئے استعمال کے بعد بڑا خطرہ یہ ہے کہ انسانوں کا کردار کم ہو جاتا ہے۔ لیکن ان کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت انسان کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اِس ضمن میں مصنوعی ذہانتی نظام میں شفافیت اور احتساب کا فقدان ہے۔ انہوں نے تشویش ظاہر کی ہے کہ اس کے باوجود اجرت میں کمی یا کچھ ملازمتوں کو مکمل طور پر ختم ہونے سے لیبر مارکیٹ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ سعودیہ کا وژن 2030 پورے جوبَن پر ہے اور محمد بن سلمان کی سربراہی میں سعودی اتھارٹی ترقی اور جدت کو اپنانے میں شب و روز ایک کیے ہوئے ہے۔

اِس وقت سب سے جدید عوامی طور پر دستیاب مصنوعی ذہانت کا سسٹم جی پی ٹی4 ہے، جسے اوپن اے آئی نامی کمپنی نے بنایا۔ اس ضمن میں ہالی ووڈ مستقل اپنی فلموں اور ڈراموں سے مستقبل کی شکل انٹرٹینمنٹ کے نام پر دکھا رہا ہے۔ اَب تو اس مصنوعی ذہانت کے خطرات پر مبنی خط پر ٹوئٹر، ایپل اور ٹیسلا کے بانیوں اور چیف ایگزیکٹیوز کے علاوہ برکلے، پرنسٹن اور دیگر یونیورسٹیوں کے شعبے کے ماہرین کے دستخط بھی موجود ہیں۔ اَب تک جدید دنیا اور ٹیکنالوجی کے کوئی ہزار سے زائد سائنس دانوں نے واضح طور پر خبردار کیا ہے کہ ’’مصنوعی ذہانت کے تجربات‘‘ سے پوری انسانیت کے وجود کو خطرات لاحق ہو تے جا رہے ہیں۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بس اَب وقت آگیا ہے کہ ہم مزید ٹیکنالوجی کے اِس سفر کوروک دیں جو ڈھلان کی جانب گامزن ہے یا کم از کم اس وقت تک روک دینا چاہیے جب تک یہ یقینی نہ بنا لیا جائے کہ ان سب سے انسان کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ مگر اتفاق ایسا ہے کہ آج تک ہونے والی تمام ٹیکنالوجی کے اثرات انسانوں بلکہ دنیا کے لیے نقصان سے پاک نہیں رہیں۔ یہ نقصان کوئی معمولی نہیں بلکہ اتنا خطرناک ہے کہ کروڑوں، اربوں انسانوں کی جان لے لیتا ہے ، لے چکا ہے، یہی نہیں پوری دنیا کو تباہ کر رہا ہے۔ تو اس ٹیکنالوجی سے جو صرف سہل پسندی، سستی، کاہلی، انسانی عمل کی کمی، پیدا کر رہی ہوتی ہے اِس گھٹیا قیمت پر یہ نیا مقولہ جبرا ً مسلط کر دیا گیا کہ ’’نقصان تو ہر چیز میں ہوتا ہے۔‘‘

اور لوگ اب اِس سارے نقصان کو بہ خوشی قبول کرتے ہیں، اِس کی مثال سگریٹ کی ڈبی پر موجود تنبیہ اور تصویر سے بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ لوگ نتائج دیکھ کر بھی سگریٹ پینا نہیں چھوڑتے مگر کون ہے جو اِس نقصان کا انکار کرے گا؟

دوسرا موضوع اس ہفتہ سوشل میڈیا پر ’ناموس رسالتؐ کا رہا۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؓ نے بھی بار بار متوجہ کیا کہ:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
رُوحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیّلات
اسلام کو حِجاز و یمن سے نکال دو

فرنگی تخیلات سے مراد مغرب کی پوری استعماری فکر ہے، اقبال ؓنے صاف کہا کہ مسلمان نہ تو موت سے ڈرتا ہے اور نہ فاقہ کشی سے کوئی اس کو مسئلہ ہے کیوں کہ اس کے دل میں اپنے نبیؐ کی محبت، نبیؐ کا وہ اسوہ ہے جو اُس کو ہر باطل کے سامنے کھڑا کر دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اِس کے نبیؐ کی عظمت، نبیؐ کے اعلیٰ مقام، نبیؐ کی محبت کو دلوں سے نکالاجائے کہ یہی ’’فکر عرب‘‘ ہے۔ اِس کی جگہ مغربی فکر کو ڈالنا ہوگا۔

اس ہفتہ بول چینل کی رمضان ٹرانسمیشن میں ہونے والا ایک پروگرام (جسے میں ریٹنگ کی دوڑ ہی قرار دیتا ہوں) اُس میں ناموسِ رسالتؐ کے قانون پر ڈسکشن کیا گیا۔ بول ٹی وی کی ٹرانسمیشن میں ہونے والے سوالات اور موضوعات کو دیکھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ ریٹنگ کی خاطر یہ کام کرایا جا رہا ہے، اس دوران اچانک سے یہاں موضوع آگیا تو یہ بات ہوگئی۔ ڈسکشن کی گفتگو مجموعی طور پر ریاستی قوانین کی روشنی میں  درست جانب تھی، ظاہر سی بات ہے کہ میزبان کوئی مشین تو ہے نہیں، جیسا بھی ہے کلمہ گو مسلمان ہے، فیصل قریشی نے جب ڈارک ویب پر جا کر اپنے تئیں وہ گستاخیاں دیکھیں، تو بہرحال ایمانی جذبات میں آکر گستاخان رسول کے خلاف ایک مناسب زبان استعمال کی ، مطلب صرف یہ کہاکہ ’’ان خنزیروں کے چہرے اور کوائف سب کے سامنے لائے جائیں۔‘‘

اِس پروگرام کے دو دن بعد جو سوشل میڈیا پر ٹرینڈنگ شروع ہوئی اور ردِ عمل آیا تو جا کر بات کھلی کہ مسئلہ ہے کیا۔ سوشل میڈیا پر دو طرفہ جنگ چل پڑی، ایک جانب فیصل قریشی کے دفاع میں لوگ اُتر آئے، دوسری جانب فیصل قریشی کے خلاف بھی لوگ نکل پڑے کہ ’’فیصل نے لوگوں کو ترغیب دی ہے کہ یہ دیکھوسارے گستاخان، جہاں ملیں ان کو قتل کر دیں۔‘‘ فیصل قریشی نے باوجود اس کے کہ جامع وضاحت بھی دی اور ایک وڈیو بھی جاری کی، مگر مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ امت کی بڑی اکثریت جب فیصل قریشی کے ساتھ کھڑی ہو گئی تو اُس نے چند لبرلز کے بے کار پروپیگنڈے کو کیوں اہمیت دی اور خوف کا اظہار کیا؟ بہرحال سوشل میڈیا پر چند بودے لبرل دلائل سے فیصل کو دبائو میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ جہاں تک فیصل کے جملوں کی بات ہے وہ میرے نزدیک بہرحال ایمانی جذبے کا اظہار تھی۔ یہ عشقِ نبی دین اسلا م کی سب سے منفرد چیز ہے۔ علامہ اقبال نے اس ’’عشق نبی‘‘ کا خاکہ یا لفظی تصویر اپنی شاعری کے ذریعہ جس انداز سے پیش کی ہے اس کی گزشتہ صدی میں کوئی مثال نہیں کیوں کہ عشق اپنے فیصلے میں خود بڑا دلیر ہوتا ہے۔ یہ جو فیصلے کراتا ہے، یہ جان لیں کہ وہ عقل کی دسترس میں نہیں ہوتے۔

سوشل میڈیا پر ایک عاشقِ رسول نے یہ بات سمجھانے کے لیے یوں پوسٹ میں رپورٹ کیا کہ ’’ذرا بخاری شریف سے رپورٹ ہونے والا یہ عشق کا انوکھا منظر دیکھیں۔ اس محبت کا منظر بخاری کی کئی احادیث میں یوں درج ہوا ہے۔ مقام حدیبیہ کا ہے۔ مسلمان احرام پہن کر خانہ کعبہ کے لیے رسول اللہ کی سربراہی میں جمع ہیں۔ مکہ کے کفار نے معاہدے کے لیے سفیر بھیجا۔ عروہ بن مسعود۔ حدیبیہ کا یہ واقعہ کئی پہلو سے عشقِ نبی سے جڑا ہوا ہے۔ مگر صرف یہی سن لیں۔

محبت ایسی کہ کلمہ نہ بھی پڑھا ہو تو محبت کا منظر دیکھ کرکلمہ پڑھ لے۔ جو کچھ وہاں ہوا۔ اس کو عروہ نے جیسا دیکھا تو جب وہ واپس مکہ کے سرداروں کے پاس صورت حال بتانے گئے تو کہنے لگے۔

’’میں نے قیصر و کسریٰ ، نجاشی کے بڑے بڑے دربار دیکھے، سونے چاندی، ریشم دیکھے ، بڑی بڑی فوجیں دیکھی۔ مگر جو منظر میں نے یہاں دیکھا وہ کہیں نہیں دیکھا۔‘‘

کفار نے پوچھا کہ ’’بتا تو سہی کیا دیکھا؟‘‘

وہ بتاتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ’’صحابہؓ دوڑ پڑتے جب رسول اللہؐ اگر اپنا لعاب دہن بھی نکالتے تووہ ہاتھ آگے کرتے کہ یہاں ڈالیے۔‘‘

تو انہوں نے پوچھا کہ ’’وہ لعاب لے لی کر کیا کرتے؟‘‘ عروہ بتاتے ہیں کہ ’’وہ یہ لعاب لے کر اپنے چہرہ پر اور جسم پر مل لیتے۔ اور میں نے دیکھا کہ جب نبیؐ وضو کرتے توصحابہؓ دوڑ پڑتے اور قریب تھا کہ صحابیؓ ایک دوسرے کو تلوار مار دیتے کہ ظہر کا پانی تو تم نے لے لیا اب عصر کے وضو کا پانی تو مجھے لینے دو۔‘‘ یہ پانی وہ زمین پر گرنے نہ دیتے۔ کسی نے اجازت نہیں لی کہ یہ پانی لینا جائز ہے کہ نہیں۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ اس کے کیا فضائل ہیں۔ اب یہ منظر کون عقل کے چشموں سے دیکھ سکتا ہے؟بس یہ جان لیں کہ عشق رسول کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس عشق کے اندر محبت و تعزیم جڑی ہوئی ہے۔

رسول اللہؐ سے اہل مکہ محبت کرتے تھے۔ رسول اللہؐ چالیس سال ان کے درمیان تھے، ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول اللہؐ پیدائش سے ہی اللہ کے محبوب آخری نبی تھے۔ رسول اللہؐ نے اپنے منفرد کردار کی بہ دولت اہلِ مکہ کے دل میں عظمتِ رسول پیدا فرمائی۔ جو جو لوگ ایمان لاتے رہے‘ ہم دیکھتے ہیں کہ سب کا تعلق محبت و عشق سے جڑا ہوا ہے۔ یہی نہیں پھر خالق نے بھی اس عشق کی پوری تصدیق و تربیت کی۔ اہل ایمان کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت آپ کی عزت آپ کی تکریم قطعی قرآنی نصوص سے حکم الٰہی ہے’’اے نبیؐ! ہم نے تم کو شہادت دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کر دینے والابنا کر بھیجا ہے‘ تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اس کا ساتھ دو، اس کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘

اتباع و اطاعت سے قبل کا تعلق بلند محبت‘ عقیدت‘ تعظیم اور احترام سے جڑا ہوا ہے۔ یہ قرآن ہی ہے جو اللہ کا اپنے محبوب سے عشق ایسے جلال سے ظاہر کرتا ہے کہ اب یارِ غار صدیق اکبرؓ کا حوالہ تاقیامت رہے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ یارِ غار نے کیسے عشق کی منزل کو عبور کیا۔ ابو لہب کے ٹوٹے ہاتھ قیامت تک رہیں گے جس نے نبیؐ کے لیے دل میں بغض رکھا۔ یہ ایسا جلال ہے جو نبیؐ کے سامنے آواز بلند کرنے کو اتنی بڑی بے ادبی قرار دیتا ہے کہ سارے اعمال کھا جائے۔ یہ بتاتا ہے کہ کب نبیؐ کے دروازے پر جانا ہے کب نہیں؟ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح نبیؐ کو پکارنا ہے؟ یہ بتاتا ہے کہ نبیؐ سے بات کیسے کرنی ہے۔ کیا بولنا ہے اور کیا نہیں بولنا؟ یہ بتاتا ہے کہ جب محمدؐ کا نام آجائے تو درود بھیجنا ہوگا۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کی بنیادیں اتباع و اطاعت سے بڑھ کر گہری محبت سے جڑی ہوئی ہے۔ اس کے بغیر ایمان یا اس کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔ اس کی ایک شکل غزوۂ اُحد کے میدان سے دیکھیں جسم زخموں سے چور، بازو شل ہو چکے، نبیؐ رحمت پر ہونے والے وار کو ہاتھ سے روکتے ہیں‘ انگلیاں شہید ہو چکیں، سر سے خون بہہ رہا ہے طلحہ بن عبیدؓ کا اور نبی کو ٹیلے پر جانا ہے تو اپنے ٹوٹے بازو والے کندھے پیش کر رہے ہیں کہ اے اللہ کے رسولؐ یہاں پائوں رکھیں، یہاں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ان کے جسم پر ستر سے زیادہ زخم شمار کیے تھے۔ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جان بازی کے صلہ میں ’’خیر‘‘ کا لقب مرحمت ہوا۔

تو اس وقت تمام تر سوشل میڈیا پر اہلِ باطل کی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح دین اسلام سے نبیؐ کو مائنس کیا جائے، دین اسلام کو نبیؐ کے بغیر سوچا، سمجھا، پڑھا، اپنایاجائے، اس کام کے لیے وہ ہر بدترین حرکت کرنے کو تیار ہیں۔ سوشل میڈیا اس وقت ان کے لیے بڑاہتھیار ہے، بات پہنچانے کا عقائد مسخ کرنے کا۔اس لیے احتیاط کا دامن تھامنا ضروری ہے۔

حصہ