فقہ اکیڈمی پاکستان کی جہد مسلسل اسلامی انقلاب کی نوید ہے

325

جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

’’رشد‘‘ وہ دولت ہے جس نے ہر عہد میں فلسفے کے کان مروڑے ہیں۔ اس کی پہچان اور ادراک کے لیے کم از کم ایک صدی درکار ہے۔

مولانا مودودیؒ ہوں یا علامہ اقبالؒ، اُن کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے فلسفے کے دورِ عروج میں نصوص کو ہی رہنمائی کا ذریعہ سمجھا ہے اور یونانی و ایرانی فلاسفہ کو انہی کی pitch پر بولڈ کرکے اُمت کے ’’علمی فقر‘‘ کو امید و ایقان میں تبدیل کرکے دکھایا۔

آج مسلم معاشروں میں جہاں جہاں علمی روایات اپنی بنیادوں پر قائم ہیں، وہاں اعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں اجتہاد، تحقیق اور تخصص کے ساتھ ساتھ نئے رجحانات سامنے آرہے ہیں۔

فقہ اکیڈمی پاکستان کے تحت گزشتہ دس سال میں جن تخصصات کو مقبولیت حاصل ہوئی ہے ان میں تخصص فی فقہ المالیتہ اور تخصص فی فکر الاستاذ المودودی نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ تخصص فی فقہ الحلال والحرام اور تخصص فی فقہ المعاملات کو بھی چند برسوں سے بہت فروغ ملا ہے۔

مارچ 2023ء میں اعلیٰ تعلیم سے وابستہ 135 طلبہ و طالبات نے مذکورہ عنوانات میں تخصص مکمل کیا، جس کی اعزازی تقریب الفلاح ہال اسلام آباد میں منعقد کی گئی۔

16 ممالک سمیت ملک کے طول وعرض سے شریک طلبہ و طالبات کو اس کورس میں cooperative learning کے ذریعے ماخذاتِ کتب کا مطالعہ تفویض کیا گیا، جسے پریزنٹیشن کی صورت میں متفرق عنوانات کے تحت پیش کیا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا اور حوالہ جات کے کیٹ لاگ تیار کروائے گئے۔ ملکی تاریخ میں اب تک تخصص فی فکر الاستاذالمودودی کو جامعات اور مدارس میں متعارف کروانے کا اعزاز فقہ اکیڈمی کو حاصل ہے۔

تقریب میں خطیب و نگران شاہ فیصل مسجد اسلام آباد قاری ضیاء الرحمن، خطیب جامع مسجد کیچاو جاپان محمد انور فاروقی، صدر اسلامک فقہ اکیڈمی پاکستان ڈاکٹر مفتی نصراللہ خالد اور سابق نائب صدر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر طاہر منصوری سمیت اکابر علمائے کرام اور دعوت و تحریک سے وابستہ نامور شخصیات نے شرکت کی۔

ڈاکٹر طاہر منصوری نے اپنے خطاب میں بحیثیت پروفیسر شریعہ اور قانون فکر مودودی پر ہونے والے تخصص کو ’’اُم التخصص‘‘ قرار دیا، کیوں کہ اس نے اصول و کلیات وضع کرتے ہوئے دیگر تخصصات کو فکری غذا فراہم کرکے نظریاتی سمت عطا کی ہے، کیوں کہ معیشت کا کوئی بھی باب یا تمدن کا کوئی گوشہ مولانا مودودیؒ کی تحقیق سے خالی نہیں۔

مولانا مودودیؒ نے کمیونزم اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کی حیثیت کا بغور تجزیہ کرتے ہوئے 60 سال قبل جو عندیہ دیا آج اُس کے مظاہر یورپ اور اُس کے اتحادیوں کی ریاستوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مولانا نے معیشت میں اخلاق کے تصورکو واضح کیا جو کسی نظام کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ پوشیدہ سود اور ظاہر سود دونوں اللہ و رسولؐ کے خلاف اعلانِ جنگ ہیں،کیوں کہ حق ہر صورت حق رہتا ہے، اس کی رنگت وکیفیت نہ تبدیل ہوتی ہے اور نہ زمانے کے معیارات کے سامنے سرنگوں ہوتی ہے۔

آج حیل پر مبنی فقہ کا وجود شریعت کی روح اور مزاج کے منافی ہے۔ 70 سال قبل جس سرمایہ داری کی خون آشام فضائوں میں 70 افراد ساڑھے تین ارب انسانوں کا خون نچوڑ رہے تھے، آج 70 سال بعد اس کے تسلسل سے ان افراد کی تعداد 10 ہے جن کی دولت 7 ارب انسانوں کی کُل دولت کے برابر ہے۔

مولانا عطا الرحمن ڈائریکٹر قرآن و سنہ نے کہا کہ آج افغانستان اپنی کرنسی برقرار رکھے ہوئے ہے، جب کہ روپیہ آئے روز تنزل کا شکار ہے، جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ افغانستان اس سودی نظام کا حصہ نہیں ہے جس کے ذریعے معیشت بیساکھیوں کی محتاج ہوتی ہے۔ معاشی و اخلاقی زوال کے وقت دارالافتاء اکسیر کا کام کررہے ہیں، لیکن یہ منصب انتہائی حساسیت کا تقاضا کرتا ہے۔ فتاویٰ کی روشنی میں لوگ حلال و حرام کے فیصلے کرتے ہیں۔ اسی لیے مفتی اگر اجتہاد میں خطا کر بھی جائے تو اسے دو میں سے ایک اجر ملے گا۔

تقریب کے دوران خواتین کی جانب سے ماسٹر ٹریننگ حج فورم ڈاکٹر فرزانہ سلیمان کا سید مودودی ریسرچ اسکالر کے طور پر تعارف پیش کیا گیا۔

جمعیت طلبہ عربیہ سے وابستہ سابق رکن محمد انور فاروقی نے جاپان میں قیام کے دوران 122 افراد کے قبولِ اسلام اور ان کی تعلیم و تربیت جیسے امور کی عرض گزاشت پیش کی اور اسے تحریک کی برکت اور تحدیثِ نعمت شمار کیا، جہاں ایک غیر مسلم اکثریتی ریاست میں اسلامی تعلیمات اور جذبِ باہم نے آج بھی مسلمانوں کو جوڑ رکھا ہے۔
تقریب کے اختتام پر ڈائریکٹر فقہ اکیڈمی پاکستان مفتی مصباح اللہ صابر نے اکیڈمی کے جہدِ مسلسل پر مبنی سفر کو اسلامی نظریاتی انقلاب کا سنگِ میل قرار دیا۔اور 2050ء کے ہدف کا 80 فیصد بہ خوبی مکمل ہونے پر اللہ کا شکر ادا کیا، حی علی الحلال سیریز کے نتائج پر روشنی ڈالی جس میں حلال فوڈ انڈسٹری میں شریعہ ماہرین کی نگرانی میں معیارات کی جانچ اور تصدیق کے لیے جو طریق کار وضع کیا گیا ہے اس سے وطنِ عزیز میں حلال انڈسٹری کے لیے نئے امکانات وجود میں آئیں گے اور نظریاتی نمائندوں کی کھیپ ما لیاتی اداروں میں ’’یعجب الزراع ویغیظ بھم الکفار‘‘ کی تعبیر پیش کرے گی۔
تقریب کے اختتام پر طلبہ و طالبات میں اسناد اور شیلڈز تقسیم کی گئیں اور دعوت و تحریک سے وابستہ ہر طبقہ فکر کے افراد کی انجمن کو دیکھ کر وہی ابلیسی اندیشہ دوبارہ پیدا ہوتا دکھائی دیا:
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو

حصہ