اسرائیل کہنے کو ایک ملک ہے مگر اس کا وجود ایک ’’دائمی سازش ‘‘ ہے ۔ 1948 سے پہلے دنیا کے نقشے پر اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا۔ لیکن صہیونیوں اور مغربی طاقتوں کی مشترکہ سازش سے اسرائیل روئے زمین پر ایک ملک بن کر ابھر آیا۔ ملک تاریخ بناتی ہے مگر فلسطین میں یہودیوں کی تاریخ کو معطل ہوئے ڈھائی ہزار سال ہوگئے تھے اور پوری دنیا کی تاریخ میں ’’معطل تاریخ‘‘ نے کبھی کسی قوم یا ملک کو جنم نہیں دیا۔ ملک عوامی جدوجہد سے بھی بنتے یہں۔ مگر اسرائیل کے لیے کوئی عوامی جدوجہد موجود نہ تھی۔ ملک اکثریت کے اصول پر بنتے ہیں اور یہودی کبھی ارضِ فلسطین پر ’’اکثریت‘‘ نہ تھے۔ کہا گیا ہے کہ فلسطین ہیکل سلیمانی کا مرکز ہے اور یہودی ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے ذریعے اپنے گمشدہ ماضی کو دریافت کرنا چاہتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے کا پورا حق ہے۔ اس اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو ہمیں پوری دنیا کی تاریخ پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ امریکا بنیادی طور پر ریڈ انڈینز کا ملک ہے مگر اب اس پر سفید فام غالب ہیں۔ تاہم ریڈانڈینز چاہیں تو یہودیوں کی طرح آج یا دوہزار سال بعد امریکا کی ملکیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں اور سفید فام امریکی ان کے دعوے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے پابند ہوں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہیں ریڈانڈینز کے لیے امریکا خالی کرنا پڑے گا یا پھر امریکا کے ’’مضافات‘‘ میں فلسطینیوں کی طرح حقیر اقلیت بن کر رہنا ہوگا۔ براعظم آسٹریلیا بھی سفید فاموں کا ملک نہیں ہے بلکہ ایب اوریجنز کا ملک ہے۔ چنانچہ ایب اوریجنز جب چاہیں پورے آسٹریلیا پر اپنا حق جتا کر سفید فاموں کو فلسطینیوں کی طرح ان کی زمین سے بے دخل کرسکتے ہیں۔ بھارت کبھی دراوڑوں کا ملک تھا مگر آج وہ آریائوں کا ملک ہے چنانچہ دراوڑ نسل کے لوگ آج یا ڈھائی ہزار سال بعد آریائوں سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک سے نکلو ہم یہاں دراوڑوں کی ریاست تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اسرائیل کا جواز ثابت کرنے کے لیے دنیا کے بڑے بڑے ملکوں اور خطوں کی تاریخ کو یکسر بدلنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا تاریخ کے اس تغیر کے لیے تیار ہے۔؟
یہودیوں نے ارض فلسطین پر ایک ناجائز ریاست قائم کی اور اعلان کیا کہ وہ ’’پرامن بقائے باہمی‘‘ پہ کامل یقین رکھتے ہیں۔ لیکن اسرائیل 1948 سے اب تک مسلسل اپنا رقبہ بڑھا رہا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہودیوں نے پرامن بقائے باہمی کے اصول کی کبھی حقیقی معنوں میں پاسداری نہیں کی۔ اسرائیل کے جنگی عزائم کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ اسرائیل کا جغرافیہ پانچ منٹ کے فضائی سفر میں ختم ہوجاتا ہے مگر اسرائیل دنیا کی دس بڑی عسکری طاقتوں میں سے ایک طاقت ہے۔ اسرائیل کے جنگی جنون کا ایک پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کے ہر بالغ شہری کے لیے فوجی تربیت لازمی ہے۔ اسرائیل کے جنگی جنون کو ’’مغربی دنیا‘‘ بالخصوص امریکا نے جس طرح فروغ اور تحفظ دیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ امریکا اسرائیل کو ہر سال نہ صرف یہ کہ تین ارب ڈالر کی اقتصادی امداد فراہم کرتا ہے بلکہ وہ اپنے جدید ترین ہتھیار بھی اسرائیل کو مہیا کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل دنیا کا سب سے مسلح ملک ہے۔ مگر اس کے جنگی جنون کا ایک فیصد بھی مغربی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں امریکا اور یورپ کی فوجی چوکی کا کام انجام دے رہا ہے اور اس نے گزشتہ پچاس برسوں کے دوران مشرقی وسطیٰ کو امریکا کا باج گزار بنائے رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا نے اسرائیل کے ہاتھ میں قتل عام کا لائسنس تھما رکھا ہے۔ ظاہری طاقت کے اعتبار سے اسرائیل اور فلسطینیوں کی معرکہ آرائی ڈائنا سوراور چیونٹی کی جنگ ہے۔ مگر امریکا اس جنگ کے مرحلے میں یہ اعلان کردیتا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ مگر چیونٹی کے مقابلے پر ڈائنا سور کے دفاع کے حق کا کوئی مفہوم ہی نہیں۔ اس معر کے میں دفاع کا حق تو صرف فلسطینی استعمال کرتے ہیں۔ اسرائیل اس کشمکش میں جارحیت اور نسل کشی کا حق بروئے کار لاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل کی اصل طاقت خود اسرائیل نہیں امریکا ہے۔ اسرائیل کو معلوم ہے کہ اسے اسلحہ کی ضرورت ہوگی تو امریکا اسے فراہم کرے گا۔ مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو امریکا اپنے خزانوں کے منہ کھول دے گا۔ اخلاقی حمایت کی ضرورت ہوگی تو امریکا کے رہنما بیانات کے انبار لگا دیں گے۔ اس کے خلاف سلامتی کونسل میں کوئی قرار داد آگئی تو امریکا اسے ویٹو کردے گا۔ اس طرح ساری دنیا مل کر بھی اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ لیکن یہ معاملہ صرف امریکا تک محدود نہیں۔
اسرائیل کی تخلیق کا اصل ذمہ دار امریکا نہیں برطانیہ ہے اور وہ اپنے اس تاریخی جرم پر آج بھی پشیمان نہیں بلکہ وہ بھی دامے، درمے قدمے، سخنے اسرائیل کی مدد کرتا رہتا ہے۔ اسرائیل نے چند سال پہلےفلسطینیوں کے خلاف جارحیت کے ابتدائی پانچ دنوں میں پانچ فضائی حملے کیے تو برطانیہ نے صاف کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ ہے۔ البتہ اس نے اسرائیل کو مشورہ دیا ہے کہ وہ زمینی مداخلت نہ کرے۔ لیکن یہ مشورہ بھی فلسطینیوں کے حق میں نہیں اسرائیل ہی کے حق میں تھا۔ اس لیے کہ برطانیہ کو خدشہ تھا کہ کہیں زمینی مداخلت سے بین الاقوامی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہی نہ ہوجائے۔ روس کو فلسطینیوں کا بڑا ’’حامی‘‘ کہا جاتا ہے۔ مگر روس نے اسرائیل کی جارحیت کے حوالے سے صرف یہ کہا ہے کہ اسرائیل طاقت کا غیر متناسب استعمال کررہا ہے۔ یعنی اسے جہاں پانچ دس حملے کرنے چاہئیں، وہاں وہ پانچ سو حملے کررہا ہے۔ جہاں اسے دو چار لوگ مارنے چاہئیں، وہاں وہ سیکڑوں لوگوں کو مارچکا ہے۔ تو کیا انصاف اس کو کہتے ہیں؟ غور کیا جائے تو اس صورتِ حال کا مفہوم عیاں ہے۔ اس روئے زمین پر مسلمانوں کو اللہ کے سوا کسی کا سہارا نہیں۔
اسرائیل کے حوالے سے مسلم دنیا کے حکمرانوں کا طرزِ عمل بھی ہمارے سامنے ہے۔ وہ اسرائیل کے سینے میں عرصے سے نشتند وگفتند وبرخاستند کی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ اسرائیل کے باب میں مسلم حکمرانوں کے تین مسائل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ خود ظالم ہیں اور وہ ظالم ومظلوم کے فرق کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ دوسرا یہ کہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی آرزوئیں مسلم عوام کی آرزوں سے مختلف ہیں۔ تیسرا یہ کہ مسلم دنیا کے حکمران اسرائیل کے سلسلے میں امریکا کا طرزِ عمل دیکھ کر کلام کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اسرائیل نے ساٹھ سال میں 160 سال کے برابر ظلم کرڈالا ہے۔ اس ظلم کا اثر یہ ہے کہ امریکا کے سابق وزیر خارجہ ہینری کیسنجر نے جو خود یہودی ہیں ایک بیان میں اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ شاید اسرائیل دس برس بعد اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے۔ ہینری کیسنجر کے تجزیے کی بنیاد یقینا مابعد الطبیعاتی یا اخلاقی نہیں ہوگی۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ روئے زمین پر اسرائیل کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے کہ مابعد الطبیعاتی اور اخلاقی بنیادوں پر ہی نہیں عقلی بنیادوں پر بھی اسرائیل کا وجود قصّہ ماضی بنتا نظر آرہا ہے۔ مابعد الطبیعاتی اور اخلاقی اعتبار سے دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے تین تقاضے کرتاہے
حق کے مطابق جدوجہد کرنا۔
حق کی بالادستی کی راہ میں قربانیاں پیش کرنا
حق کی جدوجہد میں استقامت کا مظاہرہ کرنا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو فلسطین اور کشمیر کے لوگوں نے جدوجہد کے تقاضے پورے کیے ہیں اور اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ چنانچہ فلسطین اور کشمیر کے لوگوں کی کامیابی زیادہ دور نہیں۔