سب سے پر مسرت ملک کی کہانی

350

کیسا ہوتا ہے سچا سُکھ؟ یا یوں کہیے کہ سچا سُکھ کسے کہا جاسکتا ہے۔ بھری دنیا میں کوئی بھی شخص سچے سُکھ کی ایسی جامع تعریف متعین نہیں کرسکتا جو سب کے حلق سے اُتر جائے۔ ہر ایک کا سچے یا حقیقی سُکھ کے بارے میں اپنا ہی تصور یا نظریہ ہے۔ جو خالص مادّہ پرست ہیں اُن کے نزدیک مادّی آسائشیں ہی سب کچھ ہیں۔ وہ دولت کے حصول کو سب کچھ مانتے ہیں۔ اُن کی نظر میں حقیقی سُکھی انسان وہ ہے جس کا گھر بڑا ہو اور اُس میں زمانے بھر کی چیزیں بھری ہوئی ہوں۔ حقیقی سُکھ اور مسرت کی تلاش میں انسان زندگی بھر سرگرداں رہتا ہے۔ کوئی بھی پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ حقیقی مسرت کا حصول کس حالت میں ممکن ہوپاتا ہے۔ مگر ہاں، آج کل مسرت کی بھی پیمائش ہورہی ہے۔ ماہرین نے مختلف معیارات مقرر کیے ہوئے ہیں، ان معیارات کی کسوٹی پر پرکھ کر طے کیا جاتا ہے کہ کون سا ملک بہت خوش ہے اور کون سا ناخوش۔ مسرت اور سُکھ کے گراف میں سب سے بلند مقام اِس وقت بحیرۂ بالٹک کے خطے میں واقع چھوٹے سے ملک فِن لینڈ کا ہے۔ اُسے دنیا کا خوش حال ترین ملک قرار دیا جاتا ہے۔

حال ہی میں گلوبل ہیپی نیس انڈیکس نے اعلان کیا ہے کہ مسرت کے حوالے سے اس وقت بہترین ملک فِن لینڈ ہے۔ دوسرے نمبر پر ڈنمارک، تیسرے نمبر پر آئس لینڈ، چوتھے نمبر پر اسرائیل اور پانچویں نمبر پر نیدر لینڈز (ہالینڈ) ہے۔ ایسے کسی بھی انڈیکس میں بھارت اور پاکستان جیسے ممالک 100 سے بھی نیچے آتے ہیں۔ ہر سال ’’عالمی یومِ مسرت‘‘ کے موقع پر گلوبل ہیپی نیس انڈیکس خوش حال ترین ممالک کی رینکنگ جاری کرتا ہے۔ یہ رینکنگ سہولتوں سے مزین طرزِ زندگی، فی کس آمدن، معاشرتی معاملات میں اشتراکِ عمل کی روش، بدعنوانیوں سے پاک طرزِ حکمرانی، اعلیٰ درجے کے اور احساسِ ذمہ داری سے آراستہ انتظامی معاملات، تعلیم و صحتِ عامہ کی سہولتوں، پوری خودمختاری سے اور دباؤ کے بغیر فیصلے کرنے کی گنجائش اور چند دوسرے امور کی بنیاد پر طے پاتی ہے۔ اس انڈیکس میں ایک سے دس تک پوائنٹس دیے جاتے ہیں۔

فِن لینڈ میں لوگ غیر معمولی سُکھی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس کا ایک بنیادی سبب ہے اعلیٰ درجے کا معیارِ زندگی۔ فِن لینڈ میں فی کس اوسط آمدنی 3750 ڈالر ہے۔ اوسط درجے کے خاندان کو ڈھنگ سے جینے کے لیے محض 700 تا 800 ڈالر ماہانہ خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ لوگ اچھی خاصی بچت کر پاتے ہیں۔ پانی سمیت تمام بنیادی سہولتیں مفت ملتی ہیں۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا بھی یہی حال ہے۔ بجلی اور یومیہ سفر کی سہولت بہت معمولی رقم خرچ کرنے پر ملتی ہے۔

فِن لینڈ بنیادی طور پر زرعی ملک ہے مگر اُس کی زرعی پیداوار زیادہ نہیں اور صنعتی پیداوار بھی قابلِ رشک نہیں۔ افرادی قوت کا بیشتر حصہ خدمات کے شعبے سے وابستہ ہے۔ لوگ دفاتر، فیکٹریوں اور دکانوں وغیرہ میں کام کرتے ہیں۔ طبی سہولتوں کا معیار اِتنا بلند ہے کہ ڈاکٹر اور نرس گھر آکر بھی علاج کر جاتے ہیں۔ صحتِ عامہ کا معیار بلند رکھنے کے لیے حکومت نے ہیلتھ ورکرز کی فوج بنا رکھی ہے۔ حال ہی میں اعلان کیا گیا ہے کہ 2030ء تک فِن لینڈ میں مزید 30 ہزار نرسوں کی بھرتی ہوگی۔

ایک زمانہ تھا جب جنوبی ایشیا کے فلم میکرز رومانی گانوں کی شوٹنگ کے لیے سوئٹزرلینڈ جانا نہیں چُوکتے تھے۔ تب امریکا اور کینیڈا وغیرہ میں شوٹنگ کا چلن عام نہیں ہوا تھا۔ اب اِس خطے کے بہت سے فلم میکرز انتہائی دل کش اور مسحور کن لوکیشنز کی تلاش میں فِن لینڈ بھی جانے لگے ہیں۔

فِن لینڈ یورپ کے فینو اسکینیڈین خطے میں واقع نارڈک ملک ہے۔ اس کی سرحدیں مغرب میں سوئیڈن، مشرق میں روس اور شمال میں ناروے سے ملتی ہیں۔ فِن لینڈ سے سَٹی ہوئی خلیج کے پار جنوب میں ایسٹونیا واقع ہے۔ فِن لینڈ کے دارالحکومت کا نام ہیلسنکی ہے۔

فِن لینڈ کا رقبہ 3 لاکھ 38 ہزار 455 مربع کلومیٹر ہے۔ آبادی صرف 56 لاکھ ہے یعنی آبادی کے اعتبار سے رقبہ اچھا خاصا ہے۔ فی مربع کلومیٹر صرف 20 افراد! فِن لینڈ شمالی سے جنوب کی طرف 1160 کلومیٹر لمبا اور مشرق سے مغرب کی طرف 540 کلومیٹر چوڑا ہے۔ ملک کی بیس فیصد آبادی دارالحکومت ہیلسنکی اور اُس کے نزدیک واقع نصف درجن چھوٹے شہروں میں بسی ہوئی ہے۔ ملک کی بیشتر آبادی جنوب میں رہتی ہے۔ فِن لینڈ رقبے کے اعتبار سے یورپ میں آٹھویں نمبر پر ہے اور آبادی کے اعتبار سے سب سے چھوٹا ہے۔ صرف 5.5 فیصد آبادی سوئیڈش بولتی ہے، باقی سب فِنش زبان بولتے ہیں۔

فِن لینڈ تاریخی طور پر سوئیڈن کا حصہ رہا ہے۔ 1809ء میں فِن لینڈ روس کے ماتحت رہا۔ روس کے ساتھ خانہ جنگی کے بعد فِن لینڈ نے 1917ء میں آزادی کا اعلان کیا۔ فِن لینڈ 1955ء میں اقوامِ متحدہ کا رکن بنا۔ 1969ء میں اِسے یورپ میں سلامتی و تعاون کی تنظیم او ای سی ڈی کی رکنیت ملی۔ 1995ء میں فِن لینڈ یورپی یونین اور یورو زون کا حصہ بنا۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق معاشرتی، سیاسی، معاشی اور دفاعی اشاریوں کی رُو سے فِن لینڈ کو دنیا کا دوسرا مستحکم ترین ملک قرار دیا جاسکتا ہے۔ یوکرین پر روس کی لشکرکشی کے بعد گزشتہ برس فِن لینڈ نے سوئیڈن کے ساتھ مل کر معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کی رکنیت مانگی ہے۔ موسمِ گرما میں رات کے بارہ بجے فِن لینڈ میں رات شروع ہوتی ہے۔ رات کے دس بجے تک تو شام کا سماں رہتا ہے۔ موسمِِ سرما میں تو فِن لینڈ اندھیرے ہی میں ڈوبا رہتا ہے۔ صرف دوپہر کے وقت کچھ دیر کے لیے سورج کا دیدار نصیب ہوپاتا ہے۔ جولائی اور اگست میں تو رات کے بارہ بجے بھی سورج افق پر دکھائی دیتا رہتا ہے۔ یہ نظارہ دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

ان دو مہینوں کے دوران سورج غروب نہیں ہوتا اور ہر وقت اجالا رہتا ہے۔ اس کے برعکس شمالی فِن لینڈ کے کچھ حصوں میں موسمِ سرما کے دوران کئی ہفتوں تک سورج طلوع ہی نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں غروبِ آفتاب کے وقت شفق پر لالی چھائی رہتی ہے۔ فِن لینڈ میں یہ لمحات قوسِ قزح کے رنگوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔
؎
فِن لینڈ کی حکومت نے سیاحت کے شعبے کو غیر معمولی ترقی دی ہے۔ معیشت کا مدار بہت حد تک سیاحت سے ہونے والی آمدنی پر ہے۔ آبادی کم ہے اور آمدن زیادہ۔ ایسے میں حکومت سیاحتی مقامات کو زیادہ سے زیادہ پُرکشش بنانے پر خاص توجہ دیتی ہے۔ سیاحوں کے لیے سہولتوں کا اہتمام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی۔ دنیا بھر سے آنے والوں کا خندہ پیشانی سے خیرمقدم کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے ہیلسنکی پہنچنے والے اپنے ساتھ بہت کچھ لاتے ہیں۔ وہ اچھی خاصی رقوم فِن لینڈ میں خرچ کرتے ہیں۔ یوں معیشت مضبوط ہوتی رہتی ہے۔ ہیلسنکی میں کئی غیر معمولی تفریحی مقامات ہیں۔ اِن مقامات کی سیر کے لیے کارڈ کی سہولت موجود ہے۔ حکومت نے کارڈ خریدنے والوں کے لیے گاڑیوں کا اہتمام کیا ہے۔ دنیا بھر کے تفریحی دورے میں لوگ کئی مقامات بھی دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے ربط بھی بڑھاتے ہیں۔ یوں بھرپور تفریح یقینی بنائی جاتی ہے۔ جو لوگ شہر کی سیر کے لیے ٹکٹ خریدتے ہیں اُنہیں عجائب گھر، چڑیا گھر اور دیگر بڑے تفریحی مقامات کا الگ سے ٹکٹ نہیں خریدنا پڑتا۔ 1550ء میں آباد کیا جانے والا ہیلسنکی 1812ء میں دارالحکومت بنا۔ یہ شہر 185 مربع کلومیٹر زمین اور 256 مربع کلومیٹر پانی پر مشتمل ہے۔ ہیلسنکی کا ایئرپورٹ وانٹا کہلاتا ہے۔

ہیلسنکی سمیت پورے فِن لینڈ میں ہر قانون پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ ہیلسنکی کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ بیشتر دکانیں مقررہ وقت پر بند ہوجاتی ہیں۔ اگر دکان بند کرنے کا وقت ہوگیا ہو اور کوئی آکر بہت قیمتی چیز بھی مانگے تو دکان دار خاصے نرم لہجے میں معذرت کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ کل صبح آئیے گا۔

فِن لینڈ کی نصف کروڑ کی آبادی میں بیس لاکھ سونا بار ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا برفانی قلعہ، لکڑی کا سب سے بڑا کلیسا اور یورپ کا سب سے بڑا انڈور ایکوا پارک فِن لینڈ میں ہے۔ ہیلسنکی کے وانٹا ایئرپورٹ کا شمار دنیا کے بہترین ایئرپورٹس میں ہوتا ہے۔ یہاں کا باون میٹر اونچا لائٹ ہاؤس شمالی یورپ میں اپنی نوعیت کی سب سے بڑی عمارت ہے۔

فِن لینڈ میں ایک لاکھ 87 ہزار سے زائد تالاب اور ایک لاکھ 79 ہزار سے زائد جزائر ہیں۔ 98 ہزار جزائر تالابوں کے درمیان ہیں۔ فِن لینڈ کے 10 فیصد رقبے پر پانی، 69 فیصد رقبے پر جنگل ہے۔ صرف 8فیصد رقبہ خشکی پر مشتمل ہے۔ فِن لینڈ کا سائما نامی تالاب یورپ میں پانچویں نمبر پر ہے۔ 4400 مربع کلومیٹر رقبے والا یہ تالاب دریا کی طرح موجیں مارتا ہے۔ اس تالاب سے نکلنے والی نہریں فِن لینڈ کے کئی علاقوں کے تالابوں اور نہروں سے جڑی ہوئی ہیں۔

ہیلسنکی کو عجائب گھروں کا شہر قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان میں نیشنل میوزیم، ہیلسنکی سٹی میوزیم اور بچرس ہاؤس نمایاں ہیں۔ ہیلسنکی کا چڑیا گھر بھی بہت بڑا ہے۔ اس چڑیا گھر کی بھرپور سیر کے لیے ایک دن کافی نہیں۔ کارکیسری زُو اور پِڈلا بھساری تفریحی پارک جزائر پر واقع ہیں۔ ان جزائر تک جانے کے لیے فیری سروس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

فِن لینڈ میں رات کی زندگی ذرا سُست ہے۔ ہیلسنکی اور چند دوسرے شہروں میں نائٹ کلب ہیں تاہم ملک کی آبادی کی اکثریت رات کو آرام کرتی ہے۔ لوگ رات کا کھانا باہر کھاتے ہیں اس لیے ہوٹل، بار بہت بڑی تعداد میں ہیں۔ فِن لینڈ کے لوگ بیئر بہت شوق سے پیتے ہیں۔ صرف ہیلسنکی میں 300 سے زائد بیئر بار ہیں جو آدھی رات تک کھلے رہتے ہیں۔ لوگ پانی کی طرح غٹاغٹ بیئر پیتے ہیں مگر آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں۔ کوئی اُکسائے تب بھی نہیں لڑتے۔ فِن لینڈ کے لوگ خاصے مہمان نواز ہوتے ہیں۔ وہ غیر ملکی مہمانوں کا بہت احترام کرتے ہیں، اُن کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ فِن لینڈ کے بیشتر باشندے ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول پاتے ہیں مگر پھر بھی غیر ملکی سیاحوں کی راہ نمائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔

ہیلسنکی تاریخی عمارتوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایک ہی پتھر کو تراش کر بنایا جانے والا ٹیمپلی یاوکو چرچ بہت مقبول ہے۔ ہیلسنکی میں بڑے سائن بورڈ، پوسٹر اور ہورڈنگز دکھائی نہیں دیتے۔ شہر کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ پوسٹ آفس، مرکزِ معلومات، ہوٹل اور بار میں خواتین کام کرتی ہوئی ملتی ہیں۔

بسوں، ٹرینوں اور ٹراموں میں مسافروں کی راہ نمائی کے لیے ریکارڈنگ چلتی رہتی ہے۔ جیسے ہی ٹرین یا بس کسی اسٹیشن پر پہنچتی ہے، وہاں کے بارے میں تمام معلومات مختلف زبانوں میں دی جانے لگتی ہیں۔ گائیڈ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ٹیکسی بہت مہنگی پڑتی ہے اس لیے بیشتر سیاح کارڈ خرید کر بس کے ذریعے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ مغربی یورپ میں سب سے سستا ریلوے پاس فِن لینڈ میں ہے۔

فِن لینڈ کی اہم برآمدات میں کاغذ، ڈیری مصنوعات اور نرم لکڑی کا فرنیچر نمایاں ہیں۔ فِن لینڈ کے ساحلی علاقوں میں یورپ کے اُن باشندوں کی قبریں آج بھی موجود ہیں جنہوں نے کبھی یہاں لُوٹ مار کی تھی۔

فِن لینڈ میں عجیب و غریب ایونٹس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہاں بیوی کو کاندھوں پر اٹھاکر دوڑنے کی ورلڈ چیمپین شپ، مچھر مارنے کی ورلڈ چیمپین شپ، سونا بیلنگ ورلڈ چیمپین شپ، سانٹا کلاز رینڈیئر سٹی ریس، مڈنائٹ سن میراتھون، موبائل فون کے ذریعے زخمی کرنے کی چیمپین شپ ہوتی ہے۔

یہ تو ہوا کھیلوں کا معاملہ۔ تعلیم و تربیت کے معاملے میں بھی فِن لینڈ کے لوگ کسی سے پیچھے نہیں۔ پورا ملک تعلیم یافتہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم پر بھی خاصی توجہ دی جاتی ہے۔ اسکول اور کالج کی سطح پر اعلیٰ تعلیم کی فیس برائے نام ہے۔ تعلیم یافتہ ہونے کی بہ دولت فِن لینڈ کے لوگ خاصے مہذب ہیں۔ 15 سال تک کے طلبہ کی قابلیت جانچنے کے پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس اسیسمنٹ میں فِن لینڈ کے طلبہ ٹاپ پر ہیں۔ اب فِن لینڈ میں خواندگی کی شرح 100 فیصد ہے۔ فِن لینڈ کے تعلیمی نظام میں فیس نہیں لی جاتی اور 7 سے 16 سال تک کے لڑکے لڑکیوں کے لیے اسکول جانا لازم ہے۔ فِن لینڈ کی جامعات کی جاری کردہ اسناد دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہیں۔

لوگ اَپ ڈیٹڈ رہنے کے بھی بہت شوقین ہیں۔ اِتنے سے ملک میں 200 اخبارات اور 320 جرائد شایع ہوتے ہیں۔ 69 کمرشل ریڈیو اسٹیشن ہیں، جبکہ بار ٹی وی بھی عام ہیں۔ موبائل کمپنی نوکیا کا آبائی وطن فِن لینڈ ہے۔

فِن لینڈ میں شہر سے باہر ذاتی فارم ہاؤس رکھنے کی روایت جڑ پکڑ چکی ہے۔ لوگ چھٹی کا دن اپنے فارم ہاؤس پر گزارتے ہیں۔ جزائر پر مکانات تعمیر کرنے پر پابندی عائد ہے۔ صحتِ عامہ کا معیار خاصا بلند ہونے کی بہ دولت اوسط عمر بھی 85 سال ہے۔ لوگ خوش رہتے ہیں تو عمر بھی بڑھتی ہے اور بیماریاں بھی نزدیک نہیں آتیں۔ فِن لینڈ باقی دنیا کے لیے ایک اچھی مثال ہے کہ کس طور زیادہ زیادہ خوش رہا جاسکتا ہے اور معیاری زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔

حصہ