چیٹ جی پی ٹی آج کل بڑا موضوع بنا ہوا ہے، کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، یعنی مصنوعی ذہانت کی اِس ٹیکنالوجی نے گویا انسان سے اس کا وجود ہی چھین لیا ہے۔ مستقل فیس بک پر ٹوٹکے آرہے ہوتے ہیں کہ آپ گھر بیٹھے کم سے کم محنت میں کیسے سیکڑوں ہزاروں ڈالر کما سکتے ہیں۔ سارے کام ان مصنوعی ذہانت والی ویب سائٹس سے ہورہا ہے۔ جو چاہو لکھ دو، وہ کرکے دے دے گا۔ اس کو پہلے موضوع بتاؤ، وہ اسکرپٹ بنا دے گا، پھر اس کو بولو وڈیو بنادے، تو وہ وڈیو بھی خود ہی بنادے گا۔ وہ وڈیو اَپ لوڈ کرو اور یوٹیوب سے پیسے کماؤ۔ اسی طرح مختلف کاموں کی تفصیل بتائی جارہی ہوتی ہے۔ اِس موضوع پر تفصیلی بات ضرور کریں گے، مگر ابھی اس کی بڑھتی چڑھتی شہرت کی کیفیت کا ایک ہلکا سا جائزہ لے لیں۔ ہوا یہ کہ بھارت کے ایک نیوز چینل نے اس ہفتے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی سے ایک نیوز اینکر بھی بنائی اور اس سے موسم کی خبریں پڑھوائیں۔ پھر اس کامیابی کا خوب ڈھنڈورا پیٹا۔ پھر اس مصنوعی خاتون کا انٹرویو بھی کیا۔ کہنے کو تو بڑی کمال کی بات تھی، مگر اس کو دیکھ کر کم از کم صحافیوں نے ضرور منہ میں انگلیاں ڈالیں کہ یہ کیا؟ اب تو سب انسان مائنس ہوتے چلے جائیں گے۔ انسان کی جگہ سارے کام کمپیوٹر کردیا کرے گا۔ تو پھر انسان کیا کریں گے؟ جی، یہ ہے ایک اہم سوال۔ اس کا جواب بھی ہمیں سوشل میڈیا سے ہی مل گیا۔
انسانوں کا جب کوئی کام نہیں ہوگا تو وہ اس دنیا میں کیا کریں گے؟ اس کا جواب ایک طرح سے بیلجیم کے رہائشی ایک شخص نے اپنے آپ کو ختم کرکے دیا ہے۔ 30 مارچ کو یہ خبر سامنے آئی کہ دو بچوں کے باپ ایک بیلجیئن شخص نے مبینہ طور پر ایک مصنوعی ذہانت والے چیٹ بوٹ کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں گفتگو کے بعد المناک طور پر خودکشی کرلی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے زمین کو تباہی سے بچانے کے لیے خود کو قربان کردیا۔ متعارف کراتے وقت یہ بتایا گیا کہ مختلف تجرباتی و تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق، چیٹ بوٹس انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ چیٹ بوٹس ایک طرح سے اسکرین کے اندر بند روبوٹ کہے جا سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک ایپلی کیشن کی مانند انسٹال ہوجاتے ہیں۔ اس وقت کئی قسم کے چیٹ بوٹس سافٹ ویئر بنائے جا چکے ہیں۔ ان میں ’ایلکسا‘ خاصا مشہور ہے۔ ان کا بنیادی کام سوالات کے جواب دینا ہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مختلف کاروباری امور میں بھی معاونت کرتے ہیں۔ ان کے اندر معلومات ایسی ہوتی ہیں کہ وہ سیکنڈوں میں گوگل سرچ سے ڈیٹا نکال کر پڑھ کر جواب بھی دے دیتے ہیں۔ اب موسمی تبدیلی پر بات ہورہی ہو تو لازمی بات ہے کہ وہ یہی بتائیں گے کہ موسمیاتی تبدیلیاں آلودگی کی وجہ سے ہیں، اور آلودگی انسانی عمل کی وجہ سے ہے، تم بھی بے شمار اشیا استعمال کرکے اِس کے صارف اور استعمال کنندہ کے طور پر ڈھیروں ایسی خطرناک گیسیں خارج کرتے ہو جو پوری دنیا کو تباہ کررہی ہیں۔ اُس شخص کی بیوہ نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب میرے شوہر نے مجھ سے ماحولیاتی تباہی کے بارے میں بات کی، تو مجھے بتانا تھا کہ گلوبل وارمنگ کا کوئی انسانی حل نہیں‘‘۔ بیوہ نے کہا ’’اس نے اپنی تمام امیدیں ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت پر مرکوز رکھیں تاکہ اس سے نکل سکے۔ وہ اپنی ماحولیاتی پریشانی اور اس سے نکلنے کے راستے کی تلاش میں اتنا الگ تھلگ تھا کہ اُس نے اس چیٹ بوٹ کو تازہ ہوا میں سانس لینے کے طور پر دیکھا۔“ اب یہ بات واضح ہے کہ سافٹ ویئرتو ہر جگہ سے ڈیٹا لے گا اور لاگ لپٹ کے بغیر ہی بیان کرے گا۔ اس کے پاس دستیاب ڈیٹا صاف بتاتا ہے کہ اس وقت دنیا بھر کی تباہی انسانوں ہی کے ہاتھوں ہورہی ہے… اس جدید سائنس و ٹیکنالوجی، کیمیکل اخراج اور مشینوں سے۔ چنانچہ دنیا کو تباہی سے بچانا ہے تو لازمی بات ہے کہ یہ کام ختم کرنا ہوگا۔ یہ کام ختم کرنے کے لیے اگر انسان ہی ختم ہوجائے تو بات ہی ختم ہوسکتی ہے اور دنیا محفوظ ہوسکتی ہے۔ اب اس سادے سے آدمی نے مبینہ طور پر یہی سوچا ہوگا کہ مجھے اس دنیا کو بچانا ہوگا۔ دنیا کو بچانے کا تصور مغرب اپنے تمام تر ہیروز کے ذریعے میڈیا میں مستقل دکھاتا رہتا ہے۔ ہر شخص دنیا کا محافظ بننا چاہتا ہے تو اُس نے بھی ایسا ہی کیا۔ اب چیٹ بوٹ کے مطابق دیکھا جائے تو دنیا میں آلودگی بڑھانے والا ایک انسان کم ہوگیا۔ یہی نہیں، بھارت میں بھی اس ہفتے پہلی بار کسی عدالت نے کسی فوجداری معاملے پر رائے لینے کے لیے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا۔ ہائی کورٹ نے ایک ملزم کی ضمانت کی درخواست کے بارے میں اپنی رائے کو درست کرنے کے لیے ChatGPT کا استعمال کیا اور ضمانت مسترد کردی۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ چیٹ بوٹ ایک بہت بڑا ڈیٹا سینٹر بن گیا اور بننے جارہا ہے۔ اس لیے چیٹ بوٹ کو وہ بات ہرگز نہ بتائیں جو آپ راز رکھنا چاہتے ہیں۔ اب اندازہ کرلیں کہ یہ ”ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت‘‘۔ اقبال نے تو جس چیز کو مشین کہا تھا، وہ اب ایک چیٹ بوٹ کی صورت میں بھی مسلط ہوچکی ہے، روبوٹ الگ ہیں۔
اس رمضان، دوسرے عشرے میں بدھ کو سحری کے بعد دوبارہ ناپاک اسرائیلی افواج نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر قبلہ اول کی شان میں گستاخی کی اور وہاں موجود مسلمانوں کو عبادت کے دوران تشدد کا نشانہ بنایا۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی یہ تصویر جس میں مسجد کے اندرونی حصے میں مسلمانوں کو ہتھکڑی لگا کر چت لٹایا ہوا تھا اور اوپر سے ڈنڈے برسائے جارہے تھے۔55 سال سے کم عمر افراد کو مسجد میں رات کی عبادت کرنے کے لیے الگ سے اجازت نامہ لینا پڑتا ہے۔ لبنان نے اس جارحیت کی مذمت کی ہے۔ مسجد میں زہریلی گیس کے علاوہ اسٹن گرینیڈ کا بھی استعمال کیا گیا۔ اسلامی اور یہودی تعطیلات ایک دوسرے سے متصل ہونے کی وجہ سے وسیع تر کشیدگی کا خدشہ تھا۔ مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں کئی ماہ سے کشیدگی پہلے ہی بہت زیادہ چل رہی ہے۔ گزشتہ سال بھی رمضان میں اسرائیل نے ایک جنگ کا آغاز کیا تھا۔ فلسطین، مسجد اقصیٰ کا موضوع دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے اتنا حساس ہے کہ سوشل میڈیا پر دیکھتے ہی دیکھتے ٹرینڈ بن گیا اور یہودیوں کی ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف لوگ یک زبان ہوگئے۔ تل ابیب انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ایک فلسطینی نے دو پولیس اہلکاروں کو خنجر سے زخمی کیا، وہ فلسطینی مجاہد گرفتار بھی ہوا، مگر ان کے یہ کافی نہ تھا۔ ایک اور معاملہ یہ بھی تھا کہ یہودی مذہبی رسم ’پاس اوور‘ اور عیسائی رسم ’ایسٹر‘ بھی رمضان کی تاریخوں میں آرہی تھیں، اس میں یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی مسجد اقصیٰ میں آنا ہوتا ہے کیونکہ وہاں دیگر انبیا کے بھی تبرکات موجود ہیں۔ بہرحال سعودیہ سے لے کر مراکش، قطر، لبنان، جرمنی، کینیڈا، امریکا، اقوام متحدہ… سب نے اسرائیل کے عمل کی حمایت نہیں کی بلکہ اپنے اپنے الفاظ میں مذمت ہی کی ہے۔ ایک خاتون کے خون کے چھینٹوں والے اسکارف کی تصویر بہت وائرل رہی اور مسلم غیرت کو جگانے کی کوشش کرتی نظر آئی۔ تشدد و حملے کی وڈیوز تو ناقابلِ بیان ہیں جن میں مرد و خواتین تشدد کے دوران اللہ کی کبریائی کے نعرے لگا رہے ہیں اور اسرائیلی فوجی ان پر ڈنڈے برسا رہے ہیں۔ بات یہاں رکی نہیں، لبنان کی جانب سے اسرائیل پر 34راکٹ لانچر حملے ہوئے، جس میں ان کے تقریباً 165 افراد مارے گئے۔ جواب میں آخری اطلاعات تک غزہ پر بمباری شروع ہوچکی ہے۔ اس میں ڈرون حملے اور ہوائی جہازوں سے حملے بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ پچھلے سال بھی اسرائیل کی طرف سے 7-8 دن کی جنگ انہی وجوہات پر جاری رہی تھی۔ ٹوئٹر پر مستقل حملے اور بعد کی وڈیوز آتی رہیں اور امت درد کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کرتی نظر آئی۔
ایک اور اہم ایشو اس ہفتے سوشل میڈیا پر ڈونلڈ ٹرمپ کا رہا۔ امریکا کے 76 سالہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک رقم کی ادائیگی چھپانے پر فردِ جرم عائد کردی گئی اور وہ گرفتار ہوگیا۔ 34 جرائم ڈونلڈ ٹرمپ پر ڈالے گئے ہیں۔ اس کاآسان مجموعہ یہ ہے کہ ٹرمپ نے ایک خاتون کو خطیر رقم دی جس کا اپنے کاغذات میں کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس ایک عمل کی وجہ سے جھوٹ، بدکاری، دھوکہ دہی سمیت کئی جرائم کا وزن اُس پر آگیا۔ ٹرمپ نے تو عدالت میں جرم ماننے سے انکار کردیا، بلکہ جج کے متعصب ہونے پر بھی سوال اٹھا دیئے، کیونکہ ٹرمپ یو ایس کیپٹل کے واقعے میں اس جج کو پہلے بھی تنقید کا نشانہ بنا چکا ہے۔ اب ظاہر ہے وہ تو یہی کہے گا جب تک اس کے وکیل کو عدالت میں شکست نہ ہوجائے۔ ٹرمپ کے چاہنے والوں نے اس کے حق میں ریلی بھی نکالی۔ سفید فاموں کے نمائندہ اور سفید فام فخر ابھارنے والے سابق امریکی صدر نے 2016ء میں ایک جرم کیا جس پر اِس سال 2023ء میں مقدمہ چلا اور فردِ جرم لگ گئی، گرفتاری بھی ہوگئی۔
ویسے پاکستان کے بھی ایک معروف وزیراعظم نے ڈھیروں باتیں پوشیدہ رکھیں، یعنی کئی جھوٹ بولے، مگر اب 2023ء میں کیس ایسے چل رہے ہیں کہ جج باہر آکر حاضری لیتا ہے، کئی کئی گھنٹے ایک ملزم کے عدالت پہنچنے کا انتظار کرتا ہے، پھر اس سے پوچھ کر اس کی مرضی کی تاریخ دیتا ہے۔ سب کچھ کلیئر ہوتا ہے مگر کسی کی ہمت نہیں کہ گرفتار کرسکے۔ کیس چل رہا ہے عدالت میں، مگر عدالتیں معلوم نہیں کہاں سے ہدایات لے رہی ہیں! کئی دہائیوں کے دوران، اس نے وہ توجہ حاصل کی جس کی وہ خواہش کرتا تھا: اس کی شادیوں اور معاملات کے بارے میں متنازع کہانیاں، اس کی اشتعال انگیز ریلیوں کی انتھک کوریج، یہاں تک کہ 2016ء کی صدارتی مہم کے دوران خالی اسٹیج کی کیبل ٹی وی فوٹیج، سمیت کئی ایشوز غالب رہے۔ ٹرمپ خود کو ”ریٹنگ مشین“ کہتا تھا۔ اب بات یہ ہے کہ یہ سوشل میڈیا پر بڑے اہتمام سے ڈسکس کی گئی۔ میں نے سمجھایا کہ براہ کرم ڈونلڈ ٹرمپ کی گرفتاری کو امریکا کی کسی قسم کی اعلیٰ اخلاقی قدر قرار دینے کی غلطی مت کیجیے گا۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص کرکٹ میں بولڈ ہو اور ایمپائر انگلی اٹھا دے تو وہ خاموشی سے واپس چلا جائے۔ اس عمل کو اخلاقی قدر نہیں کہا جائے گا، یہ کھیل کا تقاضا ہوگا۔ جدید ریاست کو چلانے کے لیے ایسی پابندیاں سب کرتے ہیں۔ اخلاق کا تصور اپنی نہاد میں مذہبی ہے۔ اس لیے کہ نیکی اور بدی کا شعور مذہب کے سوا کہیں آ ہی نہیں سکتا۔ لیکن مغرب سے مرعوب لوگ کہتے ہیں کہ عمومی اخلاق آفاقی ہوتے ہیں، جیسے جھوٹ بولنے کو مذہبی معاشرہ بھی برا خیال کرتا ہے اور لادین معاشرہ بھی۔ چوری کرنا، قتل کرنا وغیرہ۔ مگر سچ بولنا اگر مذہبی معاشرے کی ایک بڑی قدر ہے تو یہ حقیقت جاننا چاہیے کہ یہ اس لیے نہیں کہ سچ بولنے سے لوگ خوش ہوں، کاروبار اچھا ہو، حکومت چلتی رہے، بلکہ ایک مذہبی انسان صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت، اُس کی محبت اور آخرت میں جواب دہی کے تصور کے تحت سچ بولتا ہے (جب بھی بولتا ہے)، غیر مذہبی شخص کے لیے سچ بولنا، ایک ذہنی و سماجی عادت ہوتی ہے۔ شاہنواز فاروقی بتاتے ہیں کہ مذہبی انسان کا سچ اپنی اصل میں ’’مطلق‘‘ یا Absolute ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں اور سچ بولنے سے کیسا ہی نقصان کیوں نہ ہوتا ہو مذہبی انسان ہر حالت میں سچ بولے گا کیونکہ اس کے پیچھے اطاعت و آخرت کا پورا تصور موجود ہے۔ اس کے برعکس غیر مذہبی انسانوں کا سچ اپنی اصل میں موضوعی یا Subjective یا اضافی یعنی Relative ہوتا ہے۔ جیسے ٹرمپ نے اپنا سچ چھپایا، یہ چھپانا جرم تھا، گناہ نہیں۔ اس موضوعی سچ کی گواہیاں انفرادی سطح پر بے شک کم نظر آئیں کہ آپ ایک ایک کی زندگی میں جھانک نہیں سکتے، مگر اجتماعی سطح پر یہ بہت عام ہے۔ مثلاً مغربی دنیا انسانی حقوق کی سب سے بڑی علَم بردار ہے۔ مغربی دنیا کے سیاسی رہنما اور دانش ور آئے دن تیسری دنیا کے لوگوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ انسانی حقوق کتنے مقدس ہیں اور ان کا تحفظ کتنا ضروری ہے۔ لیکن عملی سطح پر دیکھا جائے تو مغربی ممالک سے بڑھ کر انسانی حقوق کو پامال کرنے والا کوئی نہیں۔ جنگِ عظیم اوّل ہو یا دوم، افغانستان ہو یا عراق، گوانتانامو بے ہو یا دیگر پابندیاں… اس میں کیا شک ہے؟