’’بہت اچھا، تو ہم تمہاری داستان سننے کے بعد ہی فیصلہ کریں گے‘‘۔
عاصم نے اپنی داستان شروع کی اور معمولی اختصار کے ساتھ سین کے ساتھ آخری ملاقات سے لے کر خلقدون پہنچنے تک کے تمام واقعات بیان کردیئے۔ اور اس طویل گفتگو کے اختتام پر اس نے سراپا التجا بن کر کہا۔ ’اب میں آپ کے پاس یہ اُمید لے کر آیا ہوں کہ آپ انسانیت کو مزید تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ مجھے آپ کی مجبوریوں کا احساس ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ مجھے آپ کی جرأت اور ہمت پر بھروسا ہے‘‘۔
یوسیبیا اور فسطینہ ملتجی نگاہوں سے سین کی طرف دیکھنے لگیں۔ اور اس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’عاصم اگر تمہیں مجھ پر اس قدر اعتماد ہے تو میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا۔ عام حالات میں مَیں شاید صلح کا ایلچی بن کر کسریٰ کے پاس جانے کی جرأت نہ کرتا۔ لیکن ایرج کی موت کے بعد مجھے وہاں جانے کے لیے ایک معقول بہانہ مل گیا ہے۔ اور قیصر سے ملاقات کے بعد یہ مسئلہ اور زیادہ آسان ہوجائے گا۔ لیکن مجھے یقین نہیں آتا کہ ہرقل بذاتِ خود یہاں آنے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوجائے گا‘‘۔
’’عاصم نے جواب دیا۔ ’’ہرقل کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور آئے گا‘‘۔
یوسیبیا نے اپنے شوہر سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’لیکن ہرقل کو ملاقات کی دعوت دینے سے پہلے آپ کو اچھی طرح اس بات کا اطمینان کرلینا چاہیے کہ یہاں اسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ اور میں یہ اس لیے کہہ رہی ہوں کہ ہرقل کے ساتھ بدعہدی کی صورت میں صرف عاصم کو ہی اپنی زندگی سے محروم نہیں ہونا پڑے گا بلکہ میں بھی یہاں رہنے کی بجائے سمندر میں ڈوب مرنے کو ترجیح دوں گی اور شاید میری بیٹی کا انجام بھی مجھ سے مختلف نہ ہوگا‘‘۔
سین نے زخم خوردہ سا ہو کر کہا۔ ’’یوسیبیا اگر تمہیں مجھ پر اعتماد نہیں تو میں قیصر کو یہاں آنے کی دعوت دینے کی بجائے قسطنطنیہ جانے کے لیے تیار ہوں لیکن یہ بات کسریٰ کے لیے ناقابل برداشت ہوگی‘‘۔
یوسیبیا نے قدرے نادم ہو کر کہا۔ ’’نہیں نہیں میرا یہ مطلب نہ تھا۔ میں صرف یہ چاہتی تھی کہ آپ قیصر کو یہاں بلانے سے پہلے ان کی حفاظت کے متعلق اچھی طرح اطمینان کرلیں‘‘۔
سین عاصم کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’مجھے معلوم نہیں کہ کسریٰ کے دربار میں مجھے کس حد تک کامیابی ہوگی۔ لیکن میں وہاں جانے کے لیے تیار ہوں۔ تم ہرقل کو یہ پیغام دے سکتے ہو کہ میں اس سے ملاقات کے لیے تیار ہوں۔ لیکن تم وہاں کیسے جائو گے؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’آپ اس کی فکر نہ کریں۔ کل رات میرے لیے رومیوں کی ایک کشتی پہنچ جائے گی اور مجھے اس کشتی کی رہنمائی کے لیے سمندر کے کنارے صرف آگ جلانے کی ضرورت ہوگی۔ اور آپ کو صرف اس بات کی احتیاط کرنا پڑے گی کہ وہاں صرف چند انتہائی قابل اعتماد آدمی موجود ہوں‘‘۔
شام کے وقت فسطنیہ کی فصیل پر کھڑی تھی۔ عاصم دروازے کے سامنے کچھ فاصلے پر سروکے درختوں سے نمودار ہوا اور اُسے دیکھتے ہی زینے کے راستے نیچے اُتر آئی اور دروازے سے چند قدم دور رُک کر اس کا انتظار کرنے لگی۔ جب عاصم اس کے قریب پہنچا تو اس نے شکایت کے لہجے میں کہا۔ ’’آپ کہاں چلے گئے تھے؟‘‘
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں ذرا سیر کے لیے نکل گیا تھا‘‘۔
’’آئیے میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتی ہوں‘‘۔ فسطنیہ یہ کہہ کر زینے کی طرف بڑھی۔ اور عاصم اس کے پیچھے ہولیا۔
فصیل کے اوپر پہنچ کر فسطنیہ نے مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھئے آج نیا چاند نمودار ہوچکا ہے‘‘۔
عاصم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میں یہ چاند تم سے پہلے دیکھ چکا ہوں‘‘۔
’’نہیں نہیں آپ نے مجھ سے پہلے نہیں دیکھا ہوگا۔ میں غروب آفتاب سے پہلے ہی یہاں پہنچ کر اس کا انتظار کررہی تھی۔ اور پہلی رات کے چاند نے ہر مہینے مجھے اسی جگہ اپنا انتظار کرتے دیکھا ہے۔ میں ہر بار اپنے دل کو یہ تسلیاں دیا کرتی تھی کہ نیا مہینہ ختم ہونے سے پہلے تم واپس آجائو گے اور جب یہ اپنا مہینے بھر کا سفر پورا کرلیتا تھا تو نیا چاند مجھے نئی اُمیدوں کی روشنی دکھایا کرتا تھا۔ کل تم پھر جارہے ہو۔ اور میں تم سے یہ وعدہ لینا چاہتی ہوں کہ اب مجھے مہینوں اور برسوں تک تمہارا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ آج جب تم اپنی سرگزشت سنا رہے تھے تو میں یہ محسوس کررہی تھی کہ میں افریقہ کے صحرائوں اور جنگلوں میں تمہارے ساتھ تھی۔ جب تم زخمی تھے تو میں تمہارے زخموں پر مرہم رکھا کرتی تھی۔ جب تم بیمار تھے تو میں تمہاری تیمارداری کیا کرتی تھی۔ جب تمہارے دل میں تنہائی اور بے بسی کا احساس اپنی انتہا کو پہنچ جاتا تھا تو میں تمہیں آوازیں دیا کرتی تھی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اور تمہاری سرگزشت کے اختتام پر میں یہ محسوس کررہی تھی کہ میں راستے کی تمام منازل طے کرنے کے بعد تمہارے واپس آئی ہوں۔ میری باتیں سن رہے ہو، عاصم تم خاموش کیوں ہو؟‘‘
’’فسطنیہ! فسطنیہ!‘‘ عاصم نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’تمہارے دل میں یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ ہم دونوں مختلف راستوں پر چلنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں‘‘۔
چند ثانیے فسطنیہ کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ پھر اس نے کرب انگیز لہجے میں جواب دیا۔ ’’نہیں۔ میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ آپ میرے ہیں‘‘۔
’’لیکن تم سین کی بیٹی ہو فسطنیہ، اور میں…‘‘
فسطنیہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’اگر آپ سین کی بیٹی کا امتحان لینا چاہتے ہیں تو میرے ساتھ آئیے۔ میں ان کے سامنے یہ اعلان کرنے کے لیے تیار ہوں کہ میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر تمہاری محبت ایک جرم ہے تو میں اس کے لیے ہرسزا بھگتنے کو تیار ہوں۔ آئیے‘‘!
فسطنیہ اس کا بازو پکڑ کر کھینچنے لگی۔
’’نادان نہ بنو۔ تم نہیں جانتیں کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ اگر تم میرے دل کا حال جاننا چاہتی ہو تو سنو، اگر قیصر اور کسریٰ کے تاج میرے قدموں میں ہوتے اور تم ایک غریب چرواہے یا کسان کی لڑکی ہوتیں تو بھی میں تمہیں حاصل کرنا اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی سمجھتا‘‘۔
وہ بولی۔ ’’کیا یہ ایک جرم ہے کہ میں کسی کسان یا چرواہے کی بیٹی نہیں ہوں‘‘۔
’’نہیں فسطنیہ مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں۔ لیکن میں اگر اس بے چارگی اور بے بسی کی حالت میں تمہاری تمنا کروں تو یہ ایک جرم ہوگا۔ فسطنیہ تم پھولوں پر چلنے کے لیے پیدا ہوئی ہو اور میرا راستہ کانٹوں سے اَٹا ہوا ہے۔ میں غم کے پہاڑ اُتھا سکتا ہوں، لیکن تمہاری تذلیل برداشت نہیں کروں گا۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں فسطنیہ اور میری محبت کا تقاضا یہی ہے کہ میں تمہیں اپنے آلام و مصائب میں حصہ وار نہ بنائوں‘‘۔
فسطنیہ کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔ اور سسکیاں لینے لگی۔
عاصم نے کہا۔ ’’مجھ کو اپنی مجبوریوں سے زیادہ تمہاری مجبوریوں کا احساس ہے۔ تم ایک غریب الوطن اور بے سہارا انسان کے ساتھ بھٹکنے کے لیے نہیں بلکہ مرمریں ایوانوں کی زینت بننے کے لیے پیدا ہوئی ہو۔ میں اسے بھی قدرت کا ایک انعام سمجھتا ہوں کہ تم میرے پاس کھڑی ہو اور میں تمہارے ساتھ باتیں کررہا ہوں۔ اور اگر میں اس سے زیادہ چاہوں تو تمہارے والدین مجھے دیوانہ خیال کریں گے‘‘۔
اچانک کسی کے پائوں کی آہٹ سنائی دی اور وہ چونک کر زینے کی طرف دیکھنے لگے۔ یوسیبیا زینے سے نمودار ہوئی۔ اور اس نے کہا۔ ’’تم اس سردی میں یہاں کیا کررہے ہو؟‘‘
فسطنیہ نے آگے بڑھ کر کہا۔ ’’امی جان! اگر میں ابا جان کے سامنے یہ کہہ دوں کہ میں ان کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی تو وہ مجھے کیا سزا دیں گے؟‘‘
یوسیبیا نے جواب دیا۔ ’’تمہارے ابا جان تمہاری دیوانگی سے بے خبر نہیں ہیں۔ پھر وہ عاصم کی طرف متوجہ ہوئی۔ ’’بیٹا میں تمہاری باتیں سن چکی ہوں اور مجھے تمہاری شرافت سے یہی توقع تھی لیکن تمہیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ فسطنیہ کے والدین اس کے دشمن ہیں۔ میری بیٹی کو ان مرمریں ایوانوں کی ضرورت نہیں جو انسانوں کی بجائے درندوں کے مسکن ہیں۔ فسطنیہ کے ابا جان سے تمہارے دل کا حال بھی پوشیدہ نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میری بجائے وہ تمہاری باتیں سن لیتے تو انہیں زیادہ سے زیادہ اس بات کی فکر ہوتی کہ درندوں کی اس دُنیا میں کون سا گوشہ تمہارے لیے محفوظ ہے‘‘۔
عاصم کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا وہ دیر تک سر جھکائے کھڑا رہا اور بالآخر جب اس نے یوسیبیا کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں تشکر کے آنسوئوں سے لبریز تھیں۔ اس نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’آپ خدا سے دعا کریں کہ درندوں کی یہ دنیا انسانوں سے آباد ہوجائے۔ اور میں خوف کے بغیر یہ کہہ سکوں کہ میں کسی جنگل، پہاڑ یا صحرا میں بھی فسطنیہ کی حفاظت کی ذمہ داری لے سکتا ہوں۔ جب کسریٰ اور قیصر میں صلح ہوجائے گی تو میں اپنی غریب الوطنی اور بے چارگی کا احساس کیے بغیر فسطنیہ کے لیے ہاتھ پھیلا سکوں گا۔ لیکن سردست آپ دعا کریں کہ مجھے اس مہم میں کامیابی ہو‘‘۔
’’بیٹا تم نے ایک نیک کام اپنے ذمہ لیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔ چلو اب نیچے چلیں مجھے سردی محسوس ہورہی ہے‘‘۔ یوسیبیا یہ کہہ کر زینے کی طرف بڑھی اور عاصم اور فسطنیہ اس کے پیچھے چل دیے۔ زینے کے درمیان پہنچ کر عاصم نے فسطنیہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اور رُک کر سرگوشی کے انداز میں کہا۔ ’’فسطنیہ تم مجھ سے خفا تو نہیں ہو؟‘‘
’’نہیں‘‘۔ اس نے جواب دیا۔
’’میں قسطنطنیہ سے بہت جلد واپس آجائوں گا۔ لیکن اگر تمہارے ابا جان کو کسریٰ کے پاس جانا پڑا تو مجھے بھی ان کا ساتھ دینا پڑے گا۔ تم میرا انتظار کرسکو گی؟‘‘
’’ہاں۔ اگر مجھے اس بات کا یقین ہو کہ تم ضرور آئو گے تو میں مرتے دم تک تمہارا انتظار کرسکتی ہوں‘‘۔
یوسیبیا نیچے پہنچ کر ان کی طرف دیکھنے لگی۔ تو عاصم نے فسطنیہ کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اور آہستہ آہستہ زینے سے اُترنے لگے۔
(جاری ہے)