فتح مکہ ہی وہ فیصلہ کن معرکہ اور فتح عظیم ہے جس نے بت پرستی کی کمر مکمل طور پر توڑ کر رکھ دی اور اس کا کام تمام کر دیا کہ جزیرہ العرب میں اس کے باقی رہنے کی کوئی گنجائش اور کوئی وجۂ جواز نہ رہ گیا کیوں کہ عام قبائل منتظر تھے کہ مسلمانوں اور بت پرستوں میں جو جو معرکہ آرائی چل رہی ہے اس کا انجام دیکھیں کیا ہوتا ہے؟ ان قبائل کو یہ بات بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ حرم کا حق دار وہی ہو سکتا ہے جو حق پر ہو۔ ان کے اس یقین کامل میں مزید حد درجہ پختگی نصف صدی پہلے اصحاب فیل ابرہہ اور اس کے ساتھیوں کے واقعہ سے آگئی تھی کیونکہ اہل عرب نے دیکھ لیا تھا کہ ابرہہ اور اس کے ساتھیوں نے بیت اللہ کا رُخ کیا تو اللہ نے انہیں ہلاک کرکے بھس بنا دیا تھا۔
فتح مکہ آپؐ کی پیغمبرانہ زندگی کی سب سے اہم ترین کامیابی تھی جو مسلمانوں نے حاصل کی تھی اس کی وجہ سے عرب کی فضا میں تغیر آگیا تھا۔ چونکہ قریش اہلِ عرب کی نظر میں دین کے محافظ اور انصار تھے اور پورا عرب اس بارے میں ان کے تابع تھا اس لیے قریش کی سراندازی کے معنی یہ تھے کہ پورے جزیرہ نمائے عرب میں بت پرستی کا خاتمہ ہو گیا۔
اس غزہ کا سبب صلح حدیبیہ کی ایک شق سے روگردانی تھی اس معاہدے میں مسلمان اور مشرکین دو فریق تھے اور ان فریقین کے ساتھ کوئی بھی شریک ہوسکتا تھا۔ بنو خزاعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور بنی بکر مشرکین مکہ کے ساتھ شامل ہوگئے‘ جو قبیلہ جس فریق کے ساتھ شامل ہوگا اس فریق کا حصہ سمجھا جائے گا اور ا س قبیلہ پر حملہ یا زیادتی خود اس فریق پر حملہ یا زیادتی تصور کی جائے گی۔ بنو بکر اور بنو خزاعہ میں دورِِ جاہلیت سے عداوت چلی آرہی تھی۔ صلح حدیبیہ کے بعد دونوں فریق ایک دوسرے سے مطمئن ہوگئے۔ بنو بکر نے ان موقع کو غنیمت جان کر بنو خزاعہ سے اپنا پرانا بدلہ چکانا چاہا اور نوفل بن معاویہ نے بنو بکر کی ایک جماعت کے ساتھ شعبان 8 ہجری میں بنو خزاعہ پر رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا۔ بنو خزاعہ کے متعدد لوگ مارے گئے۔ قریش نے بھی اس حملے میں بنو بکر کی مدد کی اور بنو خزاعہ کو دھکیلتے ہوئے حرم تک پہنچا دیا۔ ادھر بنو خزاعہ نے مکہ پہنچ کر بدیل بن ورقہ خزاعی کے گھر پناہ لی۔ عمرو بن سالم خزاعی نے وہاں سے نکل کر فوراً مدینے کا رخ کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر دہائی دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے عمرو بن سالم تیری مدد کی گئی۔‘‘ اس کے بعد آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا دکھائی دیا۔ آپؐ نے فرمایا ’’یہ بادل بنو کعب کی مدد کی بشارت سے دمک رہا ہے۔‘‘
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد شکنی کی خبر نے سے تین روز قبل ہی حضرت عائشہؓ کو حکم دے دیا تھا کہ آپؐ کا ساز و سامان تیا کر دیں لیکن کسی کو پتا نہ چلے۔
رازی داری کی غرض سے آپؐ نے شروع رمضان 8 ہجری میں ابوقتادہ بن ربعی کی قیادت میں آٹھ آدمیوں کا ایک سریہ بطن اہم کی طرف روانہ فرمایا۔ یہ علاقہ مدینہ سے 36 میل کے فاصلے پر ہے۔ مقصد خبروں کا خبروں کا اِدھر اُدھر پھیلانا تھا۔ لیکن یہ سریہ جب اپنے مقررہ مقام پر پہنچ گیا تو اسے خبر ملی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں۔
10 رمضان المبارک 8 ہجری کو رسول اکرمؐ نے مدینہ چھوڑ کر مکے کا رُخ کیا اس میں آپؐ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام تھے۔ مدینہ میں آپ ابوذر غفاریؓ کو مقرر فرمایا۔
آپؐ نے سفر جاری رکھا اور کے کسی پہر وادط پہنچ کر نزول فرمایا اور لوگوں نے آپؐ کے حکم پر الگ الگ آگ جلائی اس طرح دس ہزار چولہوں سے آگ جلائی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قریش پر ساری خبروں کی رسائی روک دی تھی۔ اس لیے انہیں حالات کا کچھ علم نہ تھا۔ البتہ وہ خوف اور اندیشے سے دوچار تھے۔ ابو سفیان حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقا کے ساتھ باہر نکلے ہوئے تھے۔ حضرت عباسؓ کا بیان ہے کہ بخدا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار تھا کہ مجھے ابو سفیان اور بدیل بن ورقا کی گفتگو سنائی دی۔ وہ دونوں آپس میں بحث کر رہے تھے کہ ایسی آگ اور لشکر کبھی نہیں دیکھا۔ حضرت عباسؓ نے ابو سفیان کی آواز پہچان کر بتایا یہ رسول اللہ ہیں ۔ اس نے کہا اب کیا حیلہ ہے؟ میں نے کہا واللہ اگر وہ تمہیں پا گئے تو تمہاری گردن مار دیں گے لہٰذا اس خچر پر بیٹھ جائو میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلتا ہوں اور تمہارے لیے امان طلب کرتا ہوں۔ اس کے بعد ابو سفیان میرے پیچھے بیٹھ گئے۔ اس کے دنوں ساتھی واپس لوٹ گئے۔ حضرت عباسؓ ابو سفیان کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر گئے۔ آپؐ نے فرمایا عباس! ابو سفیان کو اپنے ڈیرے میں لے جائو صبح میرے پاس لانا۔ صبح ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا۔ حضرت عباسؓ نے کہا یا رسول اللہ ابو سفیان اعزاز پسند ہے لہٰذا اسے کوئی اعزاز دے دیجیے۔آپؐ نے فرمایا ’’ٹھیک ہے جو ابو سفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان ہے جو اپنا دروازہ بند کرلے اسے امان ہے جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے اسے امان ہے۔‘‘ اسی صبح منگل 17 رمضان 8 ہجری کو حضور مکہ روانہ ہوئے۔
انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہؓ کے پاس تھا وہ ابو سفیان کے پاس سے گزرے تھے بولے ’’آج خونریزی اور مار دھاڑ کا دن ہے‘ آج حرمت حلال کر دی جائے گی‘ آج اللہ نے قریش کی ذلت مقدر کر دی ہے۔‘‘ آپؐ نے یہ بات سنی تو فرمایا ’’آج کا دن کعبہ کی تعظیم کا دن ہے‘ قریش کی عزت کا دن ہے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے حضرت سعدُ سے جھنڈا لے کر ان کے صاحبزادے کے ہاتھ میں دے دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو عاجزی و تواضع سے اپنا سر اتنا جھکایا ہوا تھا کہ آپؐ کی داڑھی کے بال کجادے کی لکڑی سے جا ملے تھے۔ ذی طویٰ میں آپؐ نے لشکر کی ترتیب فرمائی۔ خالد بن ولیدؓ کو داہنے پہلو پر رکھا اور حکم دیا کہ اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے تو سے کاٹ کر رکھ دیں۔ حضرت ابو عبیدہ پیادے پر مقرر تھے۔ معمولی سی جھڑپ میں 12 مشرک مارے گئے۔ آپؐ مسجد حرام کے اندر تشریف لے گئے‘ آگے بڑھ کر حجراسود کو چوما بیت اللہ کا طواف کیا‘ آپؐ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی۔ بیت اللہ کے گرد اور چھت پر تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپؐ اسی کمان سے بتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ’’حق آگیا اور باطل چلا گیا‘ باطل جانے والی چیز ہے۔‘‘ تکمیل طواف کے بعد حضرت عثمانؓ بن طلحہ کو بلا کر ان سے کعبہ کی چابی لی۔
بیت اللہ کے سامنے قریش صفیں لگائے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ آپؐ نے دروزاے پر کھڑے ہو کر انہیں مخاطب کیا ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ تنہا ہے‘ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا‘ اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے جھتوں کو شکست دی۔ سنو! بیت اللہ کی کلید برداری اور حاجیوں کو پانی پلانے کے علاوہ سارا اعزاز یا کمال یا خون میرے دونوں قدموں کے نیچے ہے۔ قتلِ خطا کی دیت سو اونٹ ہے۔‘‘
اس کے بعد آپؐ نے فرمایا ’’قریش کے لوگوں تمہارا کیا خیال ہے میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘
انہوں نے کہا ’’آپ کریم بھائی اور کریم بھائی کے صاحبزادے ہیں۔‘‘
آپ ؐ نے فرمایا تو میں تم سے وہی بات کہہ رہ اہوں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی۔ ’’آج تم پر کوئی سرزنش نہیں‘ جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘ اس کے بعد آپؐ نے حضرت عثمانؓ بن طلحہ کو کعبہ کے دروازے کی کنجی تھی۔ اس کے بعد حضرت بلالؓ نے کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذن دی۔ اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہنی کے گھر تشریف لے گئے‘ وہاں غسل فرمایا اور ان کے گھر میں آٹھ رکعت نماز پڑھی۔ یہ چاشت کا وقت تھا۔
فتح کے دوسرے دن آپؐ نے خطبہ دیا اور فرمایا ’’لوگو! اللہ نے جس آسمان کو پیدا کیا سی دن مکہ کو حرام ٹھہرایا اس لیے یہ قیامت تک کے لیے محترم اور حرام ہے۔ کوئی شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے یا یہاں کا درخت کاٹے۔ مجھے یہ اجازت صرف دن کی ایک ساعت کے لیے حلال کی گئی۔ میرے اس مقام کے بعد اگر کسی نے کسی کو قتل کیا تو مقتول کے اولیا کو دو باتوں کا اختیار ہوگا یا تو قاتل کا خون بہا لیں اور چاہیں تو دیت لیں۔
اس کے بعد آپؐ نے اسلام کے تابع دار بننے کی بیعت لی۔ مکہ میں آپ نے 19 دن قیام فرمایا اس دوران آپؐ شعائر اسلام کی تجوید کرتے رہے۔ آپؐ نے مکہ کے ہر گھر میں رکھے جانے والی بتوں کو توڑنے کی ہدایت کی۔
یہ ہے غزوہ فتح جس نے بت پرستی کی قوت مکمل طور پر توڑ کر رکھ دی اور اس کا کام تمام کر دیا۔ اس فتح کے بعد پورے جزیرۃ العرب کے سیاسی اور دینی افق پر مسلمانوں کا سورج چمک اٹھا۔