ننھے جاسوس۔ ادھوری ڈکیتی

286

لوٹ مار، چھینا جھپٹی، چوری چکاری اور ڈاکازنی میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے انسپکٹر حیدر علی کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ ان کے تھانے کی کارکردگی اعلیٰ پولیس حکام کی نظروں میں ہمیشہ مثالی گنی جاتی تھی۔ حیدر علی کو ڈر تھا کہ کہیں ان کے ماضی کا ریکارڈ خراب نہ ہو جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسپکٹر حیدر علی کو اپنے وقار کا بڑا خیال تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے ذاتی وقار کو اولیت دیا کرتے تھے۔ ان کو اپنی عزت اور وقار سے کہیں زیادہ عوام کو تحفظ دینے کی فکر رہا کرتی تھی۔ پولیس کا اولین مقصد ہوا ہی یہ کرتا ہے وہ شہریوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرے اور جرائم پیشہ افراد سے عام آدمی کو محفوظ رکھے خواہ اس فرض کی ادائیگی میں اس کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
جمال اور کمال کی چھوٹی سی شہر نما آبادی میں جہاں غریب اور متوسط طبقے کے گھرانے آباد تھے وہیں کچھ گھرانے متوسط طبقے سے اوپر حیثیت والے بھی تھے جن میں بزنس کرنے والے یا زمینداری کرنے والے بھی شامل تھے۔ برسہا برس سے آباد یہ خاندان سب کے سب نہایت شریف اور غریبوں کے ہمدرد شمار کئے جاتے تھے۔ جمال اور کمال کی آبادی والوں کے علاوہ آس پاس کی آبادی والوں میں سے بھی کسی کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ سب لوگ ان کی اتنی عزت کیا کرتے تھے اکثر اپنے اپنے خاندان تک کے اختلافات کے فیصلے ان سے ہی کر وایا کرتے تھے۔ ان پر اعتماد کا عالم یہ تھا کہ فیصلہ خواہ کسی کے خلاف ہی کیوں نہ جاتا، وہ اسے دل سے تسلیم کر لیا کرتا۔ کل رات ایک ایسے ہی گھرانے سے تعلق رکھنے والے خاندان کے گھر ڈکیتی کی واردات ہوئی جس کی وجہ سے بستی کے درجنوں لوگ ان سے ملنے کیلئے جمع ہونے لگے۔ اتنے میں اطلاع پاکر انسپکٹر حیدر علی بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ بزنس میں سیٹھ رام لال کے بنگلے میں آ موجود ہوئے۔ انھوں نے جب لوگوں کا ہجوم دیکھا تو میگا فون پر لوگوں سے گزارش کی وہ فی الحال اپنے اپنے گھروں پر تشریف لے جائیں۔ جب ہماری تحقیق مکمل ہو جائے اور ہم تمام راہوں کو کلیر کردیں تو وہ بے شک واپس آجائیں۔ ممکن ہے کہ آپ لوگوں کی وجہ سے اگر واردات کرنے والوں نے کچھ نشانات ایسے چھوڑے ہوں جن کی مدد سے پولیس کی وارداتیوں تک رہنمائی ہو سکے، وہ مٹ جائیں۔ حیدر علی کو جمال اور کمال کی بستی ہی والے نہیں، آس پاس کی بستیوں والے بھی بہت اچھی طرح جانتے تھے اور سب کے سب ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ اچھی کارکردگی کی وجہ سے بستی کے ایک ایک فرد کے دل میں یہ بات گھر چکی تھی کہ جس کیس کو حیدر علی اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں وہ بہر صورت حل ہو کر ہی رہتا ہے۔ پولیس کی جانب سے کی گئی حیدر علی کی اس درخواست کو آنے والے سارے لوگوں نے قبول کیا اور وہ سب کے سب سیٹھ رام لال کے بنگلے سے سے کافی فاصلے تک ہٹ گئے۔
دورانِ تفتیش سیٹھ رام لال نے پولیس کو بتایا کہ ڈاکو مکمل ڈکیتی میں کامیاب نہ ہو سکے جبکہ ان کی نیند کے دوران وہ بہت کچھ قیمتی مال و اسباب جمع کر چکے تھے۔ ہوا یہ کہ ان کا بڑا بیٹا اپنے امتحان کی تیاری کے سلسلے میں گھر کی سب سے اونچی چھت پر پڑھائی کر رہا تھا کہ اس نے گھر میں کچھ چہل پہل محسوس کی۔ رات کے اس پہر میں سب گھر والے سوئے ہوئے ہوا کرتے ہیں تو چلنے پھرنے کی یہ آہٹیں کس کی ہیں۔ اس نے دیوار کی اوٹ لیکر جائزہ لیا تو اسے کچھ فاصلے پر چاند ستاروں کی روشنی میں ایک پک اپ کھڑی نظر آئی۔ اس نے محسوس کیا کہ گاڑی کے آس پاس دو ڈھاٹا بردار جدید ہتھیاروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ بنگلے کے اندر جن کی چہل پہل سنائی دے رہی ہے وہ بھی بنا ہتھیاروں کے نہیں ہونگے۔ دنیا جانتی ہے کہ گاؤں دیہات اور چھوٹے شہروں میں رہنے والے زمیندار ہوں یا نزنس مین، سب اپنے اپنے گھروں میں چھوٹے بڑے ہتھیار ضرور رکھتے ہیں۔ ہمارے گھر میں بھی ہتھیار ضرور تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان تک پہنچا نہیں جا سکتا تھا۔ بیٹے کا ذہن تیزی سے کام کرنے لگا اور اس نے ایک بہت بڑا پتھر، اٹھا کر ایک ایسی چھوٹی سی کوٹھڑی کی چھت پر پھیکا جس کی چھت ٹین کی شیٹوں سے بنی ہوئی تھی اور اس میں تین چار خوفناک پالتو کتے رہا کرتے تھے۔ یہ بھاری پتھر جب ٹین کی چھت پر پڑا تو اتنا زور دار دھماکہ ہوا کہ ڈاکوؤں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ ابھی اس دھماکے کی آواز کا اثر بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ خوفناک کتوں کی خوفناک غراہٹوں کی آوازوں نے ڈاکوؤں کے سارے اوسان خطا کرکے رکھ دیئے۔ بس پھر جس کے جو کچھ ہاتھ لگا اور جدھر سینگ سمائے بھاگ نکلا۔ کتوں نے جب باہر کی جانب چھلانگ لگائی تو پک اپ پر کھڑے ڈاکو بھی پوری رفتار سے بھاگ نکلے۔ ممکن ہے ان میں سے کسی کو پک اپ چلانا ہی نہ آتی ہو اس لئے ان سب کو اپنی اپنی جانیں بچا لینے میں ہی عافیت نظر آئی ہو۔
انسپکٹر حیدر علی کی تحقیق کے مطابق سونے کے کچھ زیورات اور نقدی کے علاوہ کوئی اور چیز لے جانے کا ڈاکوؤں کو موقع نہ مل سکا۔ اگر بڑے بیٹے نے جرات مندی کے ساتھ عقلمندانہ قدم نہ اٹھا یا ہوتا تو وہ سارے قیمتی زیورات اور نقد رقم اور دیگر قیمتی اشیا جس کو وہ باندھ چکے تھے، سب کی سب لے جانے میں کامیاب ہو جاتے جس کی وجہ سے سیٹھ رام لال کو بہت بڑا نقصان ہو سکتا تھا۔ گھر اور آس پاس کے راستوں کا جائزہ لینے کے بعد اس بات کی تصدیق ہو چکی تھی آنے والے ڈاکوں پانچ سے زیادہ تھے۔ اس بات کا ثبوت ان کے جوتوں کے نشانات تھے جو کچے راستوں پر بہت واضح طریقے سے نظر آ رہے تھے۔ ٹیم نے گھر کے اندر اور باہر کا بہت بھر پور طریقے سے جائزہ لیا۔ جن جن کمروں کو سیل کرسکتے تھے سیل کر دیا تاکہ مزید تحقیق تک وہاں پائے جانے والے نشانات ختم نہ ہو جائیں۔ پک اپ خالی ملی البتہ وہاں پلاسٹک شاپر میں پیک کسی ڈرائی کلین سے دھلا ایک شلوار قمیص کا جوڑا ضرور ملا جس کو حیدر علی نے کوئی خاص اہمیت تو نہیں دی لیکن پک اپ اور اس جوڑے کو سرکاری تحویل میں ضرور لے لیا گیا۔
(جاری ہے)

حصہ