منشور، کسی بھی سیاسی جماعت کے ان وعدوں، ارادوں اور عزائم کا مجموعہ ہوتا ہے، جو وہ اپنے عوام اور رائے دہندگان کے سامنے انتخابات سے قبل پیش کرتی ہے کہ اگر عوام نے اسے منتخب کر کے اقتدار کے ایوان تک پہنچایا تو وہ ملک کو ان خطوط پر چلائے گی، پاکستان میں اس وقت انتخابات کا غلغلہ ہے، دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں، ان میں نوے دن میں انتخابات آئین کا تقاضا ہے، الیکشن کمیشن نے پنجاب میں 30 اپریل کو انتخابات کروانے کا اعلان کر کے آٹھ اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دیئے ہیں، معاملہ اب ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں زیر سماعت ہے، فیصلہ جو بھی ہو یہ صوبائی ہی نہیں قومی سطح پر بھی انتخابات کا سال ہے، سیاسی جماعتیں اسی کے پیش نظر آپس میں زور آزمائی میں مصروف ہیں لیکن انتخابی منشور کا خیال اب تک کسی جانب سے سامنے نہیں آیا صرف جماعت اسلامی جو جمہوری، انتخابی، تنظیمی، خدمت، امانت و دیانت اور دیگر بہت سے پہلوئوں سے ملکی سیاست میں منفرد مقام رکھتی ہے، منشور کے اعلان میں بھی جماعت نے دیگر تمام جماعتوں پر سبقت حاصل کی ہے، اس مقصد کے لیے ایک نہایت باوقار تقریب لاہور کے ایک قدیمی ہوٹل میں منعقد کی گئی، یہ وہی ہوٹل تھا جس میں نصف صدی قبل جماعت کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی معرکۃ الآرا تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ کی تکمیل پر تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں اپنے وقت کی ممتاز ترین شخصیات جناب اے کے بروہی، مولانا سیاح الدین کاکا خیل اور خود مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن سے متعلق تاریخی خطابات کئے تھے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی زیر صدارت 22 مارچ کو منعقدہ اس تقریب میں دانا، بینا اور جہاندیدہ اہل فکر و دانش کو مدعو کیا گیا تھا تلاوت قرآن حکیم اور نعت رسول مقبولؐ کے بعد جماعت اسلامی کا انتخابی ترانہ پیش کیا گیا، جماعت کے نائب امراء لیاقت بلوچ اور ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے جماعت اسلامی کی انتخابی جدوجہد اور منشور کی تیاری کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالی جب کہ جماعت کے نائب قیم اور منشور کمیٹی کے معتمد محمد اصغر صاحب نے منشور کے نمایاں نکات حاضرین کے سامنے رکھے، آخر میں امیر جماعت سراج الحق صاحب کے جامع خطاب پر یہ یادگار تقریب اختتام پذیر ہوئی۔ تقریب میں پیش کئے گئے منشور کے نمایا نکات قارئین کے استفادہ کے لیے درج کئے جا رہے ہیں:۔
جماعت اسلامی پاکستان کا وژن،پاکستان کو اسلامی، جمہوری، خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست بنانا ۔
(1)اسلامی پاکستان
دستور پاکستان کے مطابق قرآن وسنت کی بالادستی قائم کی جائے گی اور قرآن و سنت سے متصادم تمام قوانین منسوخ کیے جائیں گے۔حضرت محمدﷺکی ختم نبوتﷺ اور تمام پیغمبروںؑ کی ناموس کا ہر قیمت پرتحفظ کیا جائے گا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے حتمی ہوں گے اور اسے بدنیتی سے چیلنج نہ کیا جاسکے گا۔
(2)جمہوری پاکستان
اسلام، آئین،جمہوریت اور سِول حکومت کے تحفظ کے لئے پارلیمنٹ کو بالادست بنایا جائے گا۔پارلیمنٹیرینز ؍قانون سازوں (Legislators)کی استعداد کار بڑھانے (Capacity Building) کے لیے ایک تربیتی اکیڈمی قائم کی جائے گی۔تمام بین الاقوامی معاہدوں (بشمول تزویراتی ،تجارتی اور تعلیمی وغیرہ) کی حتمی منظوری پارلیمنٹ دے گی۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتظامی ،مالی اورعدالتی خودمختاری دی جائے گی۔متناسب نمائندگی کا طریقِ انتخاب اپنانے کے لیے قومی سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ قومی اسمبلی ، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی اہلیت ،دیانت اور شہرت جانچنے کے لیے ایک آزاد ،غیر جانبدار اور خودمختار کمیشن تشکیل دیا جائے گاجو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی نفاذ کو یقینی بنائے گا۔قومی مالیاتی کمیشن وفاق اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر نظرثانی کرے گا۔بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لئے سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے آئین میں ایک نیاباب اورشیڈول شامل کیا جائے گا۔ بلدیاتی اداروں کو مالی اور انتظامی خود مختاری دینے کے لیے قومی و صوبائی مالیاتی کمیشن کے ذریعے مقامی حکومتوں کو مالیاتی اختیارات منتقل کئے جائیں گے۔میڈیا کوناجائز حکومتی اور غیر حکومتی دباو سے آزاد رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔میڈیا کو اسلامی تہذیب وثقافت کا علمبرداربنانے کے لئیترغیب دی جائے گی۔ اُردو کو سرکاری زبان اوربنیادی تعلیم کا ذریعہ بنایا جائیگا۔
(3)مضبوط معیشت اور گورننس
سیاسی جماعتوں ، ماہرین معاشیات اور تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے میثاقِ معیشت تیار کیا جائے گا۔سودی معیشت اور سُودی بنکاری کا خاتمہ کیا جائے گا۔ناجائز منافع خور مافیا ز اور کارٹیلزکا خاتمہ کر کے اشیائے خور و نوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام لایا جائے گا۔ بلاواسطہ( (Directاور بالواسطہ( (Indirectٹیکسوں کا منصفانہ فارمولہ بنایا جائے گا۔ جنرل سیلز ٹیکس کو 5 فیصد سے کم کیا جائے گا۔اندرون و بیرون ملک سے ترسیلاتِ زر پر بنک فیس کم کی جائے گی۔عالمی بنک ،عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اوراندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات کے لئے جامع حکمت عملی تیار کی جائے گی۔سٹیٹ بنک آف پاکستان ایکٹ پرنظرثانی کر کے گورنربنک دولت پاکستان کو پارلیمنٹ اور حکومت کے سامنے جوابدہ بنایاجائے گا۔ زرعی ٹیکس بتدریج نافذ کیا جائے گا جبکہ ای آبیانہ اورای مالیہ سکیموں کا اِجرا کیا جائے گا۔غیر ترقیاتی اخراجات میں 30فیصد کمی کی جائے گی۔سرکاری اداروں میں اسراف کا خاتمہ اور سادگی وقناعت کی روش اختیارکی جائے گی۔ قومی اداروں کی فروخت یانج کاری کے بجائے اُنہیں منافع بخش ادارے بنانے کے لیے اہل انتظامیہ کا تقرر کیا جائے گا۔حاضر اور سابق صدور، وزرائے اعظم ، وزرائے اعلیٰ ،وفاقی و صوبائی وزراء ،اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلی ، چیئرمین سینیٹ ، وفاقی و صوبائی وزرائے کرام ،چیف جسٹس ، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججوں، اعلیٰ سول اور فوجی افسران کو قیمتی لگژری سرکاری گاڑیوں اور مفت پٹرول کی سہولت ختم کی جائے گی۔سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ما لدار ترین اشرافیہ کو حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کر کے 200 ارب روپے سالانہ بچائے جائیں گے۔آئین کے مطابق بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب کے لیے مؤثر احتسابی نظام قائم کیا جائے گا۔احتسابی نظام تشکیل دیاجائے گا تاکہ رشوت ، کمیشن اور کک بیکس سمیت ہر قسم کی بدعنوانی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔قومی احتساب بیورو (نیب)اور ایف آئی اے کا سربراہ اُسے مقرر کیا جائے گا جس کی قابلیت ،اہلیت اور امانت و دیانت مسلمہ ہو۔نیب ،ایف آئی اےسمیت تمام تفتیشی اداروں کی تنظیم نو کی جائے گی اور اس میں سیاسی مداخلت اور انتقامی کارروائیوں پر پابندی عائد کی جائے گی۔
بدعنوان عناصر کو شریعت کے مطابق موت اورعمر قید سمیت سخت سزا ئیں دی جائیں گی۔ پلی بارگین کو ختم کیا جائے گا۔ بجلی اورگیس کے رائج الوقت ظالمانہ سلیب ریٹ ختم کریں گے۔ واپڈااور کراچی الیکٹرک کی تنظیم نو کی جائے گی اور بجلی کی قیمت میں ناروااضافہ سے روکا جائے گا۔ ہائیڈروپاور ،شمسی توانائی کے پینل اور ونڈ ٹربائن کی تیاری میں خود کفالت حاصل کے لیے صنعت کاروں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی۔ سیاحتی مقامات کو آلودگی سے پاک رکھنے، سیکورٹی اورمناسب قیمتوں کے تعین و کنٹرول کا نظام قائم کیا جائے گا۔ سیاحت کے فروغ کے لیے شاہراہیں اور رابطہ سڑکیں تعمیر کی جائیں گی۔ نئے جنگلات لگانے کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری مہمات چلائی جائیں گی اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قوانین پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ سرکاری اداروں کے مکمل ریکارڈ کو دورِحاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈیجٹلائز کیا جائے گا۔ ڈیٹا سائنس اورمصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence)کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
(4) خوشحال صوبے
صوبوں کے قدرتی وسائل پر پہلا حق صوبوں کا ہوگا۔ پورے ملک میں غیر ضروری چیک پوسٹوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔ حقوق دو گوادر کوتحریک اور حکومت بلوچستان کے درمیان تحریری معاہدیپر عمل درآمد کروایا جائے گا۔ ناراض بلوچ قبائل کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں گے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کر کیاحترام دیا جائے گا۔ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں دہشت گردی سے متاثرہ صوبہ خیبرپختونخوا کا حصہ بڑھایا جائے گا۔ سابقہ فاٹاکے ضم شدہ اضلاع کوخصوصی ترقیاتی پیکیج کے ذریعے ترقی یافتہ اضلاع کے برابر لایا جائے گا۔ صوبائی سطح پر رئیل اسٹیٹ اتھارٹی قائم کی جائے گی اور ہاوسنگ سوسائٹیوں اور اسکیموں کے متاثرین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ تمام شہروں سے کچرا کنڈی کو ٹھکانے لگانے کے لیے ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے گی۔خوشحال کراچی کے لیے جامع ترقیاتی منصوبہ پیش کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی کی حقوق دو کراچی کو تحریک اور حکومت سندھ کے مابین معاہدے پر عمل درآمد کروایا جائے گا۔ صوبہ بہاول پور بحال کیا جائے گا۔ جنوبی پنجاب کو انتظامی بنیاد پر الگ صوبہ بنایا جائے گا اور ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لایا جائے گا۔
(5)خوشحال اور محفوظ عورت
خواتین کو میٹرک تک لازمی مفت تعلیم دی جائے گی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے خواتین کومساویانہ مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کو والد اور شوہر کی جائیداد سے وراثت اور ملکیت کے حقوق دلوانے کے لیے فوری اور عملی اقدامات کئے جائیں گے۔ غیر اسلامی معاشرتی رسموں ناجائزجہیز ، قرآن سے شادی، ونی ، وٹہ سٹہ ، سورہ،کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کا سدِ باب کیا جائے گا۔ پبلک سروس کے تمام اداروں میں خواتین کے لئے علیحدہ ڈیسک قائم کئے جائیں گے۔ ماؤں اور بہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے والے اُمیدواروں کے انتخابات میں حصہ لینے اور بیرون ملک سفرپر پابندی عائد کی جائے گی۔
(6)خوشحال نوجوان
طلبہ یونین پر پابندی ختم کرکے تمام تعلیمی اداروں میں انتخابات کروائے جائیں گے۔ گریجویٹس کو آسان شرائط کے ساتھ لیزپر بنجر رقبہ دیا جائے گا۔ یوتھ بنک قائم کر کے نوجوانوں کو کاروبار کے لیے بلاسود قرضے اور پیشہ وارانہ تربیت دی جائے گی۔ پاکستان ڈیجیٹل پروگرام کے تحت نوجوانوں کو خصوصی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ سستے انٹرنیٹ کنکشن ،لیب ٹاپ اورکمپیوٹرز دیئے جائیں گے۔وفاقی و صوبائی بجٹ میں ہر شہر اور ہردیہات میں کھیل کے میدانوں میں اضافہ اور سہولیات کے لیے فنڈز مختص کئے جائیں گے۔اسلامی تہذیب وثقافت کے دائرے میں نوجوان خواتین کے لیے کھیلوں کے الگ میدان اور صحت مند تفریحی سرگرمیوں کے لئے خصوصی فنڈز مختص کئے جائیں گے۔
(7)خوشحال کسان، زرعی و دیہی ترقی
زرعی قرضوں پر سُود ختم کیا جائے گیا۔ کسانوں کو بجلی ،پانی ،ڈیزل ،کھاد ،بیج اور زرعی ادویات سستے داموں فراہم کی جائیں گی۔بے زمین کسانوں اور ہاریوں کو غیرآباد سرکاری زمینیں پانی کی سہولت اور آباد کاری کی شرط کے ساتھ فراہم کی جائیں گی۔ کھاد کی بوریوں پر قیمتیں چھاپی جائیں گی تاکہ کسانوں سیزیادہ قیمت وصول نہ ہو سکے۔ باغات اورزرعی زمینوں پر نئی رہائشی سوسائٹیوں اور کارخانوں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے گی۔ آبادی کے شہروں کی طرف بہاؤ کو روکنے کے لئے جامع دیہی ترقی کامنصوبہ تیار کیا جائے گا جس میں تمام شہری سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ دیہی علاقوں میں ایگروبیسڈ انڈسٹری قائم کی جائے گی۔
(8) خوشحال مزدور
رسول اللہ ﷺ کے فرمودات کے مطابق قومی لیبر پالیسی تشکیل دی جائے گی۔ سرکاری اور نجی اداروں میں یومیہ اُجرت کا خاتمہ کر کے تمام اسامیوں پر مستقل ملازمت دی جائے گی۔ محنت کش کی کم از کم اُجرت اور تنخواہ کا تعین مہنگائی کے تناسب سے کیا جائے گا ۔کارخانوں کے منافع میں مزدوروں کو حصہ دار بنایا جائے گا۔
(9)خوشحال غیر مسلم پاکستانی (اقلیتی) برادری
غیرمسلم آبادی کے لیے اقلیت کی بجائے پاکستانی برادری کی اصطلاح استعمال کی جائے گی۔ غیر مسلموں کو بلاامتیازتعلیم ، روزگار اور دیگرشہری حقوق برابری کی بنیاد پر فراہم کیے جائیں گے۔تمام مذاہب کے پیروکاروں کی جان، مال، عزت، آبرو اور عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جائے گا۔
(10)خوشحال بزرگ شہری اور ملازمین
سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن میں ہرسال مہنگائی کی شرح سے اضافہ کیا جائے گا۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین اور اُن کی بیوہ گان اور بچیوں کو پنشن کی ادائیگی کاخود کار نظام بنایا جائے گا۔معذوروں کو خصوصی تعلیم وتربیت اور ملازمتوں میں کوٹہ یقینی بنایا جائے گا۔
(11)خوشحال سمندر پارپاکستانی
پاسپورٹ ، شناختی کارڈ ز اور دیگر تصدیقی دستاویزات کی تجدید اور پاکستان آمدپرامیگریشن اورکسٹم وغیرہ میں آسانیاں پیدا کی جائیں گی۔
(12)مضبوط دفاع
قومی سلامتی پالیسی سیاسی و دینی جماعتوں ، خارجہ و دفاعی اُمور کے ماہرین اور نمائندہ شخصیات کی مشاورت سے تیار کی جائے گی جس کی منظوری پارلیمنٹ دیگی۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ترقی دی جائے گی اور بیرونی و اندرونی دباؤ پر ایٹمی پروگرام بند کرنے یا ایٹمی اثاثوں سے دستبرداری کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کی بری ، فضائی اور بحری افواج کو جدید ترین اسلحہ اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے گا۔سروسز چیفس کی تقرر ی سنیارٹی اور میرٹ کے اُصول پر ہو گی جس کی منظوری پارلیمنٹ دے گی۔کسی ملک یا بین الاقوامی ایجنسی کو پاکستان کی بری، بحری اور فضائی حدود اور خفیہ معلومات تک رسائی نہیں دی جائے گی۔
(13)آزاد خارجہ تعلقات
اسلام کی بالادستی ،پاکستان کی سلامتی و یکجہتی ، ریاست جموں وکشمیر کی آزادی اورکشمیریوں کاحق خودارادیت خارجہ پالیسی کے اہم ستون ہوں گے۔اسلامی دُنیا اوراسلامی تعاون تنظیم(OIC)سے تعلقات کو مضبوط بنا کر مشترکہ معاشی، تعلیمی اور دفاعی حکمتِ عملی پر زور دیا جائے گا۔سعودی عرب ،ترکی ،ایران اور افغانستان سمیت تمام مسلم ممالک کو خارجہ تعلقات میں پہلی ترجیح حاصل ہوگی۔چین کے ساتھ برادرانہ،دوستانہ، تجارتی اور تزویراتی تعلقات کو مزید مستحکم کر کے پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC)کے تمام منصوبے جلد مکمل کیے جائیں گے۔بھارت کے ساتھ دو طرفہ ،دوستانہ،سفارتی اورتجارتی تعلقات کوکشمیریوں کے حقِ ارادیت کے حصول ،مسئلہ جموں و کشمیر کے حتمی حل اور مقبوضہ ریاست کی سابقہ و خصوصی حیثیت کی بحالی تک زیرغور رکھا جائے گا۔ریاست جموں وکشمیر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر ، لداخ ، اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیراور گلگت بلتستان پر مشتمل متنازعہ علاقہ ہے۔ اس کی تقسیم کو کسی آئینی ترمیم یا خاموش مفاہمت کے ذریعے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ فلسطین کی مقدس سرزمین پر ناجائز اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کسی قسم کے سفارتی تعلقات قائم کئیجائیں گے۔تمام بین الاقوامی معاہدوں کی اسلامی اُصولوں کے مطابق پاسداری کی جائے گی۔
(14)خوشحال پاکستان:ترقی یافتہ پاکستان
٭انصاف سب کے لیے، ٭اَمن سب کے لیے، ٭تعلیم سب کے لیے، ٭خوراک سب کے لیے،٭صحت سب کے لیے،٭چھت سب کے لیے،٭روزگار سب کے لیے۔