ڈاکٹر شاہدہ وزارت پاکستان کی مایہ ناز ماہرِ معاشیات ہیں، انہوں نے معاشیات پر پی ایچ ڈی برٹش کونسل کی اسکالر شپ پر برطانیہ سے کیا۔ ان کے مقالے باہر کے اکنامک جرنلز میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے 80 سے زیادہ ریسرچ آرٹیکل لکھے ہیں جو قومی اور بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوئے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ان کی تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ حالیہ کتاب انہوں نے ’’آئی ایم ایف کے متبادل‘‘ (Alternative to the IMF) کے عنوان سے تحریر کی ہے جس میں انہوں نے تفصیل سے آئی ایم ایف کے کردار کو اجاگر کیا ہے کہ کس طرح اس کی پالیسیاں امیر ممالک کو فائدہ پہنچاتی ہیں اور غریب ممالک کو خطِ غربت سے نیچے اور مزید نیچے دھکیلتی ہیں۔ شاہدہ وزارت ملک کی جامعات میں وزٹنگ فیکلٹی کے فرائض بھی انجام دیتی ہیں، ان میں نیول اسٹاف کالج، انٹروار کالج، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج، سدرن کمانڈ کوئٹہ، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی شامل ہیں۔ آپ مختلف رسائل میں ایڈیٹر کے فرائض بھی انجام دے رہی ہیں۔ ان دنوں انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ (IBM) کے اکنامک اینڈ سوشل ڈپارٹمنٹ کی ڈین کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ہم نے پچھلے دنوں ان سے ملاقات کی اور اپنے قارئین کے لیے ان کی گفتگو ریکاڈ کی جو یہاں پیش کی جا رہی ہے۔
جسارت میگزین: آج کل آئی ایم ایف کے قرض کو دیوالیہ نہ ہونے کے لیے ضروری قرار دیا جارہا ہے اور یہ سلسلہ بہت عرصے سے چل رہا ہے، آپ ہمارے قارئین کے لیے بتایئے کہ آخر معاشی طور پر وطنِ عزیز کس مشکل دور سے گزر رہا ہے؟
ڈاکٹر شاہدہ وزارت: دراصل ہمارا رہن سہن تعیشات پرمبنی ہے۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں مگر ہم ملک کی معیشت کو دائو پر لگا کر ڈالرز لے رہے ہیں تاکہ اپنی تعیشات پوری کرسکیں۔ ہمیشہ حیثیت کے مطابق پائوں پھیلانے چاہئیں۔ ہم بحیثیت قوم آرام طلب ہیں۔ ہر ملک اپنا کوڑا خود اٹھا لیتا ہے مگر ہم نہیں اٹھاتے۔ جانوروں کے لیے کھانا بھی باہر سے منگوایا جاتا ہے۔ چاکلیٹ‘ پھل‘ سبزیاں‘ فرنیچر تک باہر سے منگوائے جاتے ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ جو ماہرینِ معاشیات لائے گئے اُن میں سے بیشتر کا تعلق ملک سے نہیں تھا۔ یہ عالمی مالیاتی اداروں کے وفادار ہوتے ہیں، ملک کے نہیں۔ ان کی ہمدردیاں کہیں اور ہوتی ہیں۔ یہ جو پالیسیاں نافذ کررہے ہیں وہ پاکستان کے لیے بہت نقصان دہ اور امیر ملکوں کے مفاد میں ہیں۔ مثال کے طور پر آپ دیکھیے کہ گزشتہ تیس سال سے ہماری برآمدات روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے نہیں بڑھ سکیں۔ حالانکہ جب برآمدات سستی ہوگی تو کاروباری خسارہ کم ہوگا۔ مگر روپے کی گراوٹ سے ہمارا نقصان ہی ہوا کہ ہماری درآمدات مہنگی ہوگئیں، خاص طور سے خام مال بہت مہنگا ہوگیا، ساتھ ہی لینڈنگ ریٹ بڑھا دیا گیا جس سے مال خریدنا مشکل ہوگیا، نتیجتاً مانگ زیادہ اور مال کم ہوگیا جس سے ہمارے کاروبار کو شدید نقصان ہورہا ہے اور ان کو فائدہ۔ حالانکہ ان تمام اقدامات کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں ملک ترقی کررہے ہوں۔ دوسری بات، لینڈنگ ریٹ بڑھنے سے شرح سود بھی بڑھ جاتی ہے اور ہمارے قرضوں کا بوجھ بھی بڑھ جاتا ہے۔ میرا کہنے کا مقصد یہی ہے کہ یہ جو پالیسیاں لا رہے ہیں ان سے پاکستان مسلسل نقصان کا ہی شکار رہے گا اور کلّی طور پر آئی ایم ایف کو فائدہ ہے۔ ایسا نہیں کہ کچھ لو اور کچھ دو کے تحت کچھ فائدے ہماری جھولی میں آکر گر جائیں۔ آپ دیکھیے کہ اسی گراوٹ کی وجہ سے صرف پچھلے چار سال میں قرضوں کے بوجھ میں 75 بلین ڈالر اضافہ ہوا۔ کُل ملا کر قرضوں کا بوجھ 101 بلین ڈالر ہوگیا، اور یہ محض ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ یہ ملکوں کو اس طرح غریب کرتے ہیں کہ اپنے من پسند افراد ان پر مسلط کردیتے ہیں۔ آج ماہرینِ معاشیات جو پالیسیاں لاگو کررہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ خدانخواستہ کسی ملک نے قبضہ کرلیا ہے۔ یہ لوگ ملک کو غربت میں دھکیل کر کھلواڑ کررہے ہیں۔ یہ غریب سے روٹی چھین رہے ہیں۔ ان کو عوام کا کوئی درد نہیں۔ آج کل معاشی طور پر نئے ورلڈ آرڈر کی تیاری کی جا رہی ہے جس کے تحت پوری دنیا میں یہودیوں اور ہندوئوں کی اجارہ داری بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
جسارت میگزین: جیسا کہ آپ نے کہا، قرض لے کر ہم تعیشات کرتے ہیں۔ لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہمارے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جاتے رہے ہیں اور متوسط طبقہ بھی نیچے جا رہا ہے، تو یہ کتنے فیصد ہوں گے جن کی تعیشات کی بات ہورہی ہے؟
ڈاکٹر شاہدہ وزارت: ایک فیصد سے بھی کم ہوں گے۔ مگر ان کو اوپر سے لایا جاتا ہے‘ ان کے باہر کے ممالک سے روابط ہیں‘ ہم 75 سال سے آزاد ہونے کے باوجود خودمختار نہیں۔ ہماری حکومتیں ان کی مرضی سے آتی اور لائی جاتی ہیں، اور یہ ایسی حکومتیں لے کر آتے ہیں جو پاکستان کے عوام کو غربت میں دھکیل دیتی ہیں۔ یہ پاکستان کی دولت اور ذرائع کو باہر منتقل کرتے ہیں۔ کبھی کرپشن تو کبھی کسی اور ذریعے سے انہی لوگوں کو تراشتے ہیں، پھر مختلف انداز سے فوائد دیتے ہیں اور ایسی پالیسیاں نافذ کرواتے ہیں جن سے پاکستان کا نقصان اور ان کا فائدہ ہو۔
جسارت میگزین: کیا وجہ ہے کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے باوجود ہم پھر وہی چہرے منتخب کر لیتے ہیں؟
ڈاکٹر شاہدہ وزارت: دراصل 90ء کی دہائی سے ہم نے قرضے لینا شروع کیے اور ساتھ ہی ہم پر خرچے کم کرنے کی قدغن لگ گئی۔ جب خرچے کم کیے جاتے ہیں تو غیر ضروری کاموں پر قدغن لگائی جاتی ہے، مگر ان پر لگنے کے بجائے تعلیم‘ صحت‘ ترقیاتی منصوبوں پر قدغن لگا دی گئی، تو اسی لیے ہم نے جاہلوں کی فوج تیار کردی ہے۔ ان بے چاروں کو نہیں پتا کہ سیاست دان ان کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں۔ یہ مخلص چہرے نہیں پہچانتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ غربت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ ایک بریانی پلیٹ یا قیمے بھرے نان کے بدلے ہی ان بے چاروں سے فائدہ حاصل کرلیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں کو سامنے لایا جائے جو مغربی ممالک کے تنخواہ دار نہ ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ اقتدار کی راہ داری میں سب چور نہیں بلکہ اچھے‘ مخلص سیاست دان بھی ہیں۔ ایسے افراد پر مشتمل ادارہ بنایا جائے جن پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ کرپشن کے الزامات جن پر عائد ہیں وہ خود کو احتساب کے لیے پیش کریں اور انہیں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے جب تک ان پر لگے الزامات غلط ثابت نہ ہوجائیں۔ مگر یہ سیاسی طریقۂ کار ہے اسے چلتے رہنا چاہیے، اسی لیے میری تجویز ہے کہ سیاسی جماعتوں میں موجود قابل‘ ایمان دار‘ محب وطن افراد کو اوپر لایا جائے۔ اس ضمن میں سینیٹ میں نشاندہی ہوئی ہے جیسے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد بہت محب وطن ہیں اور لگن سے کام کرتے ہیں، پیپلزپارٹی کی سینیٹر رخسانہ زبیری، اور بھی تمام جماعتوں میں اس طرح کے اچھے لوگ پائے جاتے ہیں۔ عبوری حکومت ایسے لوگوں کو منتخب کرکے بنائی جائے اور ان عبوری حکومتوں کی معاونت پاکستان کے ایسے ماہرین معاشیات کریں جو عالمی مالیاتی اداروں کے ملازم ہوں نہ ہی اُن سے پنشن لے رہے ہوں، بلکہ قابل اور مخلص ہوں۔ ایسا عبوری ڈھانچہ بنا دیں اور چند اہداف متعین کرلیں۔ ترجیحاً یہ کہ ملک کو خراب معاشی صورت حال سے نکالنا ہے، اور یہ چند ماہ میں ممکن ہے۔ مستقل حکومت کے لیے بھی یہی طریقۂ کار رکھیں تو خاطر خواہ نتائج مل سکتے ہیں۔
جسارت میگزین: ایسی کیا معاشی اصلاحات ترتیب دیں کہ آئی ایم ایف سے چھٹکارا مل جائے؟
ڈاکٹر شاہدہ وزارت: دیکھیں، یہ بات جان لیں کہ جو اس وقت نافذ ہیں ان پالیسیوں کے ساتھ آپ پاکستان کے حالات بہتر نہیں کرسکتے۔ آئن اسٹائن نے کہا ہے کہ اگر آپ کسی کام کو بار بار کررہے ہیں اور مطلوبہ نتائج نہیں نکل رہے مگر آپ انہیں کرتے چلے جائیں اور سمجھیں کہ نتائج برآمد ہوجائیں گے تو یہ پاگل پن کی نشانی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے سے چھٹکارے کے متعلق میں اپنی کتاب میں بھی بہت تفصیل سے لکھ چکی ہوں‘ یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ میں نے کتاب میں مشورہ دیا کہ ہمیں تعیشات جیسے پنیر‘ چاکلیٹ‘ پھل کی درآمد وقتی طور پر روکنی ہوگی۔ درآمد کے ضمن میں ہم لاکھوں ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ اسی طرح ضرورت کی اشیا جیسے تیل اور گیس کو بند نہیں کرسکتے مگر لوکل کرنسی میں کاروباری معاملات کیے جاسکتے ہیں۔ لوکل کرنسی سے روزگار بڑھے گا‘ معیشت پنپنے کے راستے نکلیں گے، جب کہ آئی ایم ایف کا ماڈل نہ صرف معیشت کو سیکڑتا ہے بلکہ غربت بھی بڑھاتا ہے اور روزگار کے مواقع کم کرتا ہے۔
یہ ایک اچھا موقع ہے اگر ہمارا روس سے معاہدہ طے پا جائے۔ روس نے پیش کش کی ہے کہ معاہدے کے دوران ادائیگی لوکل کرنسی میں کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک آئیڈیل موقع ہے۔ آپ دیکھیے کہ یورپی یونین کی بہت سی کمپنیاں جن کے برانڈز پاکستان میں ہیں‘ ان کمپنیوں کا سامان بنانے سے لے کر تمام کام ہمارے لوگ ہی کرتے ہیں اور ان کے ٹیگ کے ساتھ مارکیٹ میں لاتے ہیں۔ تو یہ کام ہم خود بھی کرسکتے ہیں۔ خود سامان مہیا کر سکتے ہیں۔ اس طرح روس اور پاکستان کے تعلقات بہت تیزی سے آگے بڑھیں گے۔
جسارت میگزین: موجودہ حالات میں نوجوان مایوس ہیں‘ انہیں کیا مشورہ دیں گی؟
ڈاکٹر شاہدہ وزارت: اوّل تو نوجوانوں میں فہم و فراست پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو مایوسی کی نہج تک کون لایا ہے؟ نوجوان شخصیت پرستی سے نکلیں‘ خود کو کسی کا جیالا نہ بنائیں۔ دیانت داری اور قابلیت کی بنیاد پر پرکھیں اور انہیں ہی منتخب کریں۔ معاشی لحاظ سے میرا خیال ہے کہ موجودہ وقت گلوبل آن لائن کاروبار کے لیے موزوں ہے۔ اگر ہوسکے تو خود کو زیادہ سے زیادہ ہنر سے آراستہ کریں کہ یہ کبھی نہ کبھی کام آجاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کا ’’بنو قابل‘‘ پروگرام اس ضمن میں بہت اچھا پروگرام ہے۔ اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنا سیکھیں‘ مطالعہ بڑھائیں۔ ہمارے لوگوں کو چیلنجز کا ادراک تو کجا، شدبد بھی نہیں ہے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ کیسی غذائیں لینی ہیں۔ ہم شوق سے درآمدی سامان اٹھا تو لیتے ہیں مگر یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ غذا تو نہیں؟ دراصل وہ غذائیں ہمارے ملک میں تجرباتی طور پر بھیجی جاتی ہیں کہ آیا ان کے استعمال سے بیماری تو نہیں ہوئی۔ انہی نتائج کی بنیاد پر ان غذائوں کو ان ممالک میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
جسارت میگزین: ہوشربا مہنگائی میں خواتینِ خانہ گھر کا بجٹ کیسے ترتیب دیں؟
ڈاکٹر شاہدہ وزارت: طرزِ زندگی سادہ بنائیں‘ گوشت کھانے کے بجائے دال‘ سبزیاں کھائیں جن سے پروٹین حاصل کیا جاسکتا ہے۔ گھر کی بالکونی اور صحن میں سبزیوں اور پھلوں کی بیلیں لگائیں، اس سے خالص اور ملاوٹ سے پاک غذا ملے گی اور صحت پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔ تعیشات کو کم کریں۔ غیر ضروری کپڑوں اور کاسمیٹک کے انبار نہ لگائیں‘ اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلائیں۔
جسارت میگزین: آنے والے وقت کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟
ڈاکٹر شاہدہ وزارت: میرا خیال ہے سب کو آزما چکے۔اگر یہی حالات رہے تو پھر لوگوں میں مایوسی برقرار رہے گی اور وہ باہر کا رخ کریںگے حالانکہ بیرون ِملک بھی کوئی زیادہ اچھے حالات نہیں۔
جسارت میگزین: قارئین کے لیے کیا پیغام دیں گی؟
ڈاکٹر شاہدہ وزارت: یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ پڑھیں اور سبق حاصل کریں۔ ہمارے لوگوں کو پتا چلے کہ ان کا دوست اور خیرخواہ کون ہے، اس کے مطابق زندگی کا لائحہ عمل ترتیب دیں۔ دیگر ممالک تاریخ کو بہت اہمیت دیتے ہیں‘ ہم نے اپنی تاریخ یکسر بھلا دی ہے۔ ہمارا نصاب بھی باہر سے تشکیل دیا جاتا ہے اور وہی ہم پڑھا رہے ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے نصاب کا تعین خود کریں‘ اپنے نصاب کو ایسا مرتب کریں کہ جس میں مذہب‘ تاریخ اور معلوماتِ عامہ موجود ہو، تاکہ بچوں میں شعور پیدا ہو اور آگے چل کر وہ خود انحصار بنیں اور فیصلہ سازی کے اہل ہو سکیں۔
جسارت میگزین: آپ کا بہت بہت شکریہ۔