دارلکفر سے باب السلام تک

251

یہ سچی آپ بیتی ہے جب دیبل کے مقام پر عرب تاجروں کا قافلہ لٹ رہا تھا اسلام کی بیٹی نے للکارا، اس فریاد کی گونج نے حجاج بن یوسف الثقفی کے سینے میں انگارے بھر دئیے تھے، اس جانباز گورنر نے جو خود مسلم امت کا عظیم شاہکار تھا، اپنی غیرت کو ابن قاسم الثقفی کی صورت میں پیش کیا۔

محمد بن قاسم الثقفی حجاج بن یوسف کے بھتیجے محمد بن قاسم نے لبیک کہتے ہوئے سندھ کی تاریکی چیرکر تکبیر کا نعرہ بلند کیا تھا، یوں سندھ فتح ہوا، لاکھوں مسلمان قیدیوں کو رہائی ملی۔

حجاج بن یوسف نے دارالکفر میں داخل ہوکر عظیم فتوحات کا سلسلہ شروع کیا جس کی تکمیل میں محمد بن قاسم نے پے در پے اپنی ذمہ داری نبھائی۔

باب السلام ایک ایسی تاریخ ہے جس نے سندھ کی مسلم تہذیب کو زندگی بخشی۔

وہ تارا جو تاریکی جا بجا آسمان سے دیکھ رہا تھا، جب ٹوٹ کر ظلمت کا نشان مٹانے گرا تو اپنی لپیٹ میں سندھ کے چپے چپے کو گرماگیا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب 10 رمضان المبارک 93ھ گھمسان کی جنگ کے بعد محمد بن قاسم کے لاؤلشکر نے سندھ کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اسلام کے نور سے منور یہ فرزندِ اسلام عرب کی سر زمین کا مکین تھا طائف کی وادی سے چمکتی کرن محمد بن قاسم نے حجاج بن یوسف کی سرکردگی میں چھ ہزار سپاہ کے لشکر سمیت خشکی کے راستے سندھ کے کثیر علاقے فتح کرڈالے۔

یوم باب السلام اس عہد کی تجدید ہےکہ ہر ظلم و جبر اور باطل کے خلاف سیسہ پلائی دیوار اس بہادر سپہ سالار نے برسوں سے برطانوی سامراج اور ہندو مذہب کے ظلمت کدے سے مسلمانوں کو نجات دلاکر دنیا کے نقشے پر سینہ تان کر کھڑا کردیا۔

شمال سے لے کر جنوب تک ابن قاسم کی اسلامی دعوت نے جب زور پکڑا تو روحِ مسلمانی سے وہ تجلی نمودار ہوئی جس نے اپنی کھوئی شناخت کو پہچان لیا۔

ابن قاسم نے نسلی و خونی امتیازات سے لے کر سندھ کے ہندو رسم و رواج مٹاکر سندھ کی طبقہ واریت کو اسلام کی عدلیہ و انسانی حقوق میں بدل ڈالا۔
اسلام کی اس مشعل نے سندھ کی لٹی بنت حوا کو اس کا مقدس مقام دلایا۔ جبکہ اس انقلابی سرگرمی سے قبل صنف نازک کے ساتھ بد ترین سلوک ہوتا تھا۔
انقلابی فکر سے تعصب کی دھول مٹادی،باب السلام کی بدولت اسلامی طرز حکومت تشکیل دی گئی۔
انسانیت کی رسائی کتابوں تک ممکن ہوئی جس کے لیے علمائے دین نے بھی اپنا مثبت کردار ادا کیا، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان اس بات کا ضامن تھا بتوں کی پوجا کے بجائے اپنے ہاتھ سے بنی أنواع و أقسام بنائی جائیں یوں نوع انسانی کو طرح طرح کی صنعتی تجارت سے لے کر ثقافتی فکر پیدا ہوئی،مختلف شہروں کے باشندوں کی اپنی تخلیق کردہ مصنوعات نے فن و تجارت میں ترقی کی۔ رنگ نسل زبان اور فقیری امیری کے فرق مٹادئیے گئے۔
اس خوبصورت اسلامی انقلاب کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان اسی تاریخ کی ایک کڑی ہے۔ جسے ہمارے عظیم رہنماؤں نے اپنی انتھک محنت سے ہمیں دے تو دیا ہے مگر بدقسمتی ہے کہ عصر حاضر سارے اختلافات مسلم امت میں پھر سے پرورش پاچکے ہیں۔
مسلم امت طاغوت کے شکنجے میں پھر سے اپنی شناخت کھوچکی ہے زبان نسل ذات پات کی تقسیم اور سیاسی قیادتوں کی نا اتفاقی و ذاتی مفاد نے عالم اسلامی کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی خدائی طاقت کو پہچان کر اس کی اطاعت کا حق ادا کریں، مسلم امتوں کا اتحاد عالم کفر کے تمام در بند کرنے کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہے اس کی تکمیل تبھی ممکن ہے کہ مسلمان آپس میں یکجا ہوجائیں۔

حصہ