سین نے تلملا کر کہا۔ ’’یوسیبیا تم خاموش رہو‘‘۔
یوسیبیا نے اپنی آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں ایک شکست خوردہ قوم کی بیٹی ہوں اور مجھے ایک فاتح قوم کے سپہ سالار کے سامنے زبان کھولنے کا کوئی حق نہیں‘‘۔
پھر وہ عاصم کی طرف متوجہ ہو کر بولی۔ ’’عاصم مجھے تم پر فخر ہے۔ لیکن تمہیں اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ تمہاری باتیں میرے شوہر کے عزائم پر اثر انداز ہوسکتی ہیں‘‘۔
سین نے زخم خوردہ ہو کر کہا۔ ’’یوسیبیا! یوسیبیا!! خاموش رہو‘‘۔ اور یوسیبیا اپنے آنسو پونچھتی ہوئی اُٹھی اور بھاگتی ہوئی برابر کے کمرے میں چلی گئی۔
سین نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں دبالیا اور دیر تک بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ بالآخر اس نے عاصم کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’عاصم آج دنیا مجھے صرف کسریٰ کے ایک سپاہی کی حیثیت سے جانتی ہے۔ لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں کہ میں اس جنگ کو روکنے کی کتنی کوشش کرچکا ہوں۔
مستقبل کے مورخ فتوحات کے تذکرے لکھیں گے لیکن یہ کون مانے گا کہ میں رومیوں سے زیادہ اپنے ضمیر کے خلاف لڑتا رہا ہوں۔ اس جنگ کو روکنے کے لیے میں نے قسطنطنیہ جانے کا خطرہ مول لیا۔ اس کے بعد جب میں رومیوں کی قید سے رہا ہو کر واپس آیا۔ تو مجھے یقین تھا کہ فوکاس کی موت کی اطلاع اور نئے قیصر کی طرف سے مصالحت کی پیش کش کسریٰ کو مطمئن کردے گی۔ لیکن میری یہ نیک توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ اس کے بعد میرا اولین فرض یہ تھا کہ میں اپنی بیوی اور بیٹی کو مجوسی کاہنوں کے تعصب سے بچانے کی کوشش کروں اور میرے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ میں اندھا دھند کسریٰ کے حکم کی تعمیل کروں۔ اگر میں کسریٰ کے حکم کی تعمیل سے انکار کردیتا۔ تو بھی یہ جنگ نہیں رُک سکتی تھی۔ اس کا نتیجہ صرف یہ ہوتا کہ مجھے عیسائیوں کا طرف دار ہونے کے جرم میں بدترین سزا دی جاتی اور میری جگہ یہ مہم کسی انتہائی سفاک آدمی کے سپرد کی جاتی۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں بہت زیادہ رحم دل ثابت ہوا ہوں۔ لیکن میں ضرور کہوں گا کہ جہاں تک میرے بس کی بات تھی میں نے اپنے لشکر کو بلاوجہ کشت و خون کی اجازت نہیں دی۔ اگر میری جگہ کوئی اور ہوتا تو آج تم اناطولیہ کی بستیوں اور شہروں میں ایک نصرانی کی زندہ نہ دیکھتے۔ مجوسی کاہنوں اور ان کے زیر اثر امراء کو میرے خلاف سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ میں عیسائیوں کے ساتھ رواداری سے پیش آتا ہوں۔ مجھے کئی وفادار ساتھیوں اور دوستوں نے اس قسم کی اطلاعات بھیجی ہیں کہ بعض مجوسی کھلے بندوں مجھ پر یہ الزام عائد کررہے ہیں کہ میرے ازدواجی تعلق نے مجھے عیسائیوں کا طرف دار بنادیا ہے اور ان کی کوشش یہ ہے کہ قسطنطنیہ فتح کرنے کے لیے میری جگہ کسی ایسے انتہا پسند کو بھیج دیا جائے جس کا دل عیسائیوں کے لیے نرم جذبات سے قطعاً عاری ہو۔ میری آخری اُمید یہ تھی کہ کسریٰ جنگ کی طوالت سے پریشان ہو کر کسی نہ کسی دن صلح کے لیے آمادہ ہوجائے گا۔ لیکن یہ بھی ایک خود فریبی تھی۔ اب بازنطینی سلطنت کا نام و نشان مٹانے کے لیے کسریٰ کو مغرب میں بھی ایک طاقت ور حلیف مل گیا ہے۔ شہنشاہ کا ایلچی آوار قبائل کے خاقان کے پاس پہنچ چکا ہے۔ اور اگر وہ اپنی مہم میں کامیاب ہو کر لوٹا تو قسطنطنیہ پر چڑھائی کرنے کے لیے ہمیں شاید موسم بہار کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے۔ چند دن قبل ہمارے ایک جاسوس نے یہ اطلاع دی تھی کہ آوار اچانک حملہ کرکے قسطنطنیہ کے دروازوں تک پہنچ گئے تھے اور اگر یہ خبر درست ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسریٰ کا ایلچی ہماری توقعات سے زیادہ کامیابی حاصل کرچکا ہے‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’یہ خبر درست ہے۔ لیکن خاقان نے کسریٰ کے حلیف کی حیثیت سے نہیں بلکہ صرف لوٹ مار کے لیے حملہ کیا تھا۔ اور اس حملے سے قبل اس کے آدمی کسریٰ کے ایلچی کو موت کے گھاٹ اُتار چکے تھے۔ ایرج کو ہرقلیہ میں میری آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا تھا‘‘۔
سین ایک سکتے کہ عالم میں عاصم کی طرف دیکھنے لگا۔ یوسیبیا برابر کے کمرے سے نمودار ہوئی اور اس نے عاصم سے پوچھا۔
’’ایرج قتل ہوچکا ہے؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ سین نے اپنے حواس درست کرتے ہوئے سوال کیا۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’جناب وہ لوگ ایک انسان کو موت کے گھاٹ اُتارتے وقت زیادہ سوچ بچار سے کام نہیں لیتے یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ایران سے دور ہیں‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’تمہیں معلوم ہے کہ ایرج کا خاندان ایران کے تمام امرا سے زیادہ بااثر ہے اور جب اس کے قتل ہوجانے کی اطلاع ملے گی تو یہ لوگ سارے ملک کو خاقان کے خلاف مشتعل کردیں گے‘‘۔
’’جناب خاقان کو ان کا اشتعال کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس کے سپاہی کسریٰ کے سپاہیوں سے زیادہ جنگجو اور خونخوار ہیں‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’کاش میں اس بیوقوف کو وہاں جانے سے روک سکتا۔ لیکن میرے بس کی بات نہ تھی۔ اس نے مجھ سے بالا بالا شہنشاہ کے احکام حاصل کرلیے تھے۔ اور اس کا مقصد صرف مجھے نیچا دکھانا تھا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’کیا اب بھی آپ کسریٰ کو یہ نہیں سمجھا سکتے کہ رومیوں کی دوستی آوار کی دوستی سے بہتر ہے‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’ممکن ہے کہ اب میں کسریٰ کی خدمت میں حاضر ہونے کا خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہوجائوں‘‘۔
یوسیبیا اور فسطینہ پُرامید ہو کر سین کی طرف دیکھنے لگیں۔
عاصم نے کہا۔ ’’کیا یہ خطرہ قسطنطنیہ پر ایک ناکام حملے کے نتائج سے زیادہ ہوگا‘‘۔
سین نے مغموم لہجے میں جواب دیا۔ ’’مجھے معلوم نہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر راستے کی ایک آخری منزل ہوتی ہے اور میری آخری منزل شاید یہی ہو۔ لیکن اگر میں کسریٰ کے پاس جانے کے لیے تیار بھی ہوجائوں تو بھی تمہیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ آسان یا نرم شرائط پر صلح کرنے کے لیے تیار ہوجائے گا۔ کسریٰ کو مطمئن کرنے کے لیے رومیوں کو زہر کے کئی تلخ گھونٹ حلق سے اُتارنے پڑیں گے۔ صلح کے لیے کسریٰ کی شرائط وہی ہوں گی جو کسی مفتوحہ یا باجگذار ملک سے منوائی جاتی ہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’مجھے معلوم ہے اور یہ بات میں قیصر سے بھی کہہ چکا ہوں۔ موجودہ حالات میں اگر اسے اس بات کا یقین ہوجائے کہ ایرانیوں کے ہاتھوں اہل قسطنطنیہ کی جان و مال اور عزت کو کوئی خطرہ نہیں تو وہ آپ کے لشکر کے لیے شہر کے دروازے کھول دینے سے بھی پس و پیش نہیں کرے گا‘‘۔
’’نہیں نہیں‘‘۔ یوسیبیا نے بے چین ہو کر کہا۔ ’’جب ایرانی لشکر قسطنطنیہ پر قابض ہوجائے گا۔ تو اس کی باگ ڈور مجوسی کاہنوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ وہاں انطاکیہ، دمشق یروشلم کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ اور میرے شوہر کی حیثیت ایک خاموش اور بے بس تماشائی سے زیادہ نہیں ہوگی‘‘۔
فسطنیہ نے احتجاج کیا۔ ’’امی جان خدا کے لیے آپ خاموش رہیں‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’بیٹی تمہیں احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری ماں درست کہتی ہے‘‘۔ پھر وہ عاصم کی طرف متوجہ ہوا۔ میں قیصر کو اس بات کا یقین نہیں دلا سکتا کہ اگر شہر کے دروازے کھول دیئے جائیں تو میرا لشکر رومیوں کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کرے گا۔ تاہم کسریٰ کے پاس جانے سے پہلے میرے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ قیصر مصالحت کی خاطر کہاں تک جانے کے لیے تیار ہے‘‘۔
’’آپ قیصر کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’قیصر کے ساتھ!‘‘۔
’’جی ہاں، اگر آپ پسند فرمائیں تو ان کے ساتھ آپ کی ملاقات کا انتظام ہوسکتا ہے‘‘۔
’’کس جگہ؟‘‘
’’اگر آپ ان کی حفاظت کی ذمہ داری لے سکیں تو اسی کمرے میں آپ کی ملاقات ہوسکتی ہے‘‘۔
یوسیبیا اور فسطنیہ حیرت سے استعجاب کے عالم میں عاصم کی طرف دیکھنے لگیں اور سین نے اُٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کردیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہ رُک کر عاصم کی طرف دیکھنے لگا۔
’’عاصم اگر میں یہ کہوں کہ میں ہرقل کے ساتھ گفتگو کرنے کے لیے تیار ہوں تو وہ یہاں آجائے گا‘‘۔
’’ہاں‘‘
’’اور تم اُسے یہ اطمینان دلا سکو گے کہ اسے میرے پاس آنے میں کوئی خطرہ نہیں‘‘۔
’’ہاں‘‘
’’اور اگر میں اسے گرفتار کرکے کسریٰ کے پاس بھیج دوں تو؟‘‘۔
’’یہ سوال مجھ سے قسطنطنیہ میں بھی پوچھا گیا تھا۔ میں نے یہ جواب دیا تھا کہ اگر آپ مجھ پر اعتماد کرسکتے ہیں تو آپ کو اس شخص کے متعلق بے اطمینانی نہیں ہونی چاہیے جسے میں ساری دنیا سے زیادہ قابل اعتماد سمجھتا ہوں۔ وہ کسریٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے میری قربانی نہیں دے گا‘‘۔
’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا‘‘۔
’’میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ آپ مجھے یرغمال کے طور پر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ اور قیصر کے ساتھ بدعہدی کی صورت میں آپ کو اس بات کا حق ہوگا کہ آپ میرا سر قلم کردیں‘‘۔
’’مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ایک خواب دیکھ رہا ہوں‘‘۔ سین یہ کہہ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’عاصم‘‘۔ اُس نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔ ’’میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا۔ لیکن میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تمہارے خیالات میں اتنا بڑا انقلاب کیسے آگیا‘‘؟۔
عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں نے آپ کو اپنی تمام سرگزشت نہیں سنائی۔ اور مجھے یقین ہے کہ جب آپ میری پوری داستان سن لیں گے تو آپ کو میری ذہنی تبدیلی پر تعجب نہیں ہوگا‘‘۔
(جاری ہے)