سوات میں اسکول کھولنے اور اسے کامیابی سے چلانے والی مریم کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ وہ سوات سے تعلق رکھنے والے ظاہر شاہ سے 1992ء میں شادی کے بعد مستقل طور پر سوات منتقل ہوگئیں اور یہاں گاؤں کے بچوں کو تعلیم دینے کے لیے اسکول کھول لیا۔
مریم نے بتایا کہ میں 1970ء میں مسلمان ہوچکی تھی۔ ظاہر شاہ سے شادی کے بعد جب میں سوات اپنے سسرال آئی تو یہاں مجھے میرے سسر نے اراضی تحفے میں دی۔ میری عرصے سے بچیوں کے لیے اسکول بنانے کی خواہش تھی، جب میں نے اپنے سسر صاحب سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے اسکول کے ساتھ مسجد بنانے کا بھی کہا تاکہ لوگوں کو عبادت کرنے میں آسانی رہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ میں نے 1996ء میں ’’اسلامک اسٹڈیز سینٹر‘‘ کے نام سے اسکول کی بنیاد رکھی اور اسی کمرے سے اسکول کا آغاز کیا۔ یوں ہم نے علاقے کے بچوں کے لیے مفت تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور کچھ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی طرح اسکول میں مزید کمرے بن گئے اور آج دسویں تک ہمارے پاس بچے اور بچیاں پڑھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں کے بہت لوگ چاہتے ہیں کہ وہ یورپ جائیں اور وہاں سیٹل ہوں۔ میرے خیال میں یہ درست نہیں، بہتر یہ ہے کہ وہ یہیں تعلیم حاصل کریں اور یہاں اپنی قابلیت استعمال کریں اور اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں، اور یہی میں چاہتی ہوں کہ وہ یہاں رہ کر کامیاب ہوں، انگلینڈ کیوں جائیں؟ اسلام بھی ہمیں دین پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے تو ہم کیوں مغربی کلچر کو اپنائیں؟
انہوں نے کہا کہ پہلے ہی سے ہمارا اسکول گھر کی طرح ہے،‘ اسے میں اسکول کم اور گھر زیادہ سمجھتی ہوں۔ میرے اسکول کے تمام طلبہ و طالبات مجھے مما کہہ کر بلاتے ہیں، وہ یہاں محفوظ ہیں اور ہم ان کے لیے چاہتے بھی یہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران 2009ء کی جنگ بھی آئی تھی، اس کے بعد بھی اسکول چل رہا ہے۔
اسکول کیسے بنا؟
یہ اسکول میں نے نہیں بلکہ میری بہنوں نے جو دبئی میں تھیں، مدد کی اور بن گیا۔ کسی نے فنڈ نہیں دیا، کسی خیراتی ادارے نے پیسے نہیں دیے۔ اسکول میں پڑھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو بچوں کے والدین، میرے کچھ دوستوں اور ان بچوں نے مجھے سپورٹ کیا۔ لیکن 2009ء میں جنگ کے بعد میں نے اکیلے اسکول کو چلایا۔
اللہ کا شکر ہے کہ میری کوششیں کامیاب رہیں۔ اساتذہ کو تنخواہیں وقت پر دیں۔ ہم نے اپنی پوری کوشش کی ہے کہ یہاں ہم بچوں کو بہتر ماحول فراہم کریں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ بچیاں یہاں سے اپنی تعلیم کی شروعات کرتی ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتی ہیں۔ یہ ہماری کامیابی ہے کہ یہاں سے نکلے بچے ڈاکٹر، وکیل اور انجینئر سمیت مختلف اسکولوں میں استاد کی حیثیت سے موجود ہیں۔