وقت کا پرندہ ایک بار پھر اپنے پروں میں رحمتیں اور برکتیں سمیٹے در آیا ہے۔ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ سایہ فگن ہے… نیکیوں کی بہار ہے۔ امتِ مسلمہ کے لیے رمضان کا مہینہ نعمت سے کم نہیں۔ ہر ذی شعور ان مبارک ساعتوں سے مستفید ہونے کے لیے بے تاب ہے۔ یہ مہینہ گویا ڈھال ہے جسم و روح کی، اور تقویٰ کی بالیدگی کے ساتھ ساتھ جسمانی افزائش کا باعث بھی۔
روزہ مکمل طور پر جسمانی اور روحانی ورزش کی مانند ہے۔ ماہِ رمضان سے قبل جہاں استقبال کی تیاریاں زور شور سے دکھائی دیتی ہیں، وہیں بہت سے افراد صحت کے مسائل کے سبب مستفید نہیں ہو پاتے بلکہ پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ بعض اوقات محض تکلیف کے بڑھ جانے کا خوف ہی ان دنوں سے محرومی کی وجہ بن رہا ہے، اور اسی شش و پنج میں ازخود اس فرض سے سبکدوشی اختیار کرلیتے ہیں۔ روزہ ازحد مجبوری میں تو چھوڑا جا سکتا ہے مگر قضا کی صورت میں اس کی فرضیت کی اہمیت کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔
روزہ جہاں بہت سی تکالیف کی قدرتی دوا ہے وہیں تندرستی کا ضامن بھی۔ رمضان سے قبل معالج سے رابطے اور رہنمائی سے بہت سے مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ طبی الجھنوں اور مسائل کے پیش نظر ہم نے ماہر فزیشن اور پیما کی ڈاکٹر ناصرہ سہیل سے رابطہ کیا اور گفتگو کا آغاز اسی نقطہ سے کیا کہ شوگر، معدہ، بلند فشار خون اور دیگر امراض میں مبتلا افراد کیا روزہ رکھ سکتے ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ہر مرض اور مریض کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ علامات کے مطابق ہی تجویز دی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں عمر کا تعین بھی بہت اہم ہے۔ یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ مریض زائد امراض میں مبتلا تو نہیں۔ ہائی رسک بیماری کے حامل افراد کو کسی طور بھی روزے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جس سے ان کی تکلیف بڑھنے کا اندیشہ ہو۔ شوگر میں مبتلا افراد کو ہم فوری طور پر روزہ رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ایسے مریضوں کو ہم تین درجوں میں تقسیم کرتے ہیں: اوّل وہ جن کی شوگر ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور مریض کی عمر بھی زیادہ نہیں تو انہیں روزہ رکھنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ مگر وہ افراد جن کی شوگر میں توازن نہیں رہ پاتا یعنی کبھی بہت زیادہ یا بہت کم ہوجاتی ہو، ایسے افراد کو احتیاط کے ساتھ روزے رکھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ عموماً شوگر میں مبتلا افراد کی بڑی تعداد اُن مریضوں کی ہے جو بیک وقت دیگر امراض کا بھی شکار ہوتے ہیں جیسے امراضِ قلب اور گردے کے مسائل وغیرہ۔ ایسے افراد کی شوگر اکثر کنٹرول نہیں رہتی، بارہا شوگر بہت زیادہ یا بہت کم ہونا عام ہے۔ سو انہیں روزے کی ممانعت ہے۔
گفتگو کو جوڑتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ آج کل نامناسب خوراک اور ماحول کی وجہ سے معدے کے امراض میں ہر دوسرا شخص مبتلا نظر آتا ہے۔ طویل روزے میں اکثر معدے کی تکلیف بڑھ جاتی ہے، خاص طور پر جنہیں ہر دو ڈھائی گھنٹے بعد غذا کی ضرورت ہوتی ہے یا زیادہ پیٹ خالی نہیں رکھ سکتے، وہ احتیاط سے روزہ رکھ کر دیکھ لیں۔ اگر کوئی مسئلہ درپیش نہیں تو ضرور رکھیں۔ دراصل معدے کے مریضوں میں خالی پیٹ رکھنے سے گیس اور تیزابیت کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد کے لیے ڈاکٹر صاحبہ کا خیال تھا کہ روزہ جوڑوں کے درد میں اثرانداز نہیں ہوتا، البتہ ایسے مریض معالج کی تجویز کردہ دوا کے مطابق روزہ رکھ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں دل، گردہ، جگر کے امراض میں مبتلا افراد کو ان کی علامات اور حالت کے مطابق ہی مشورے دیے جاتے ہیں۔ بزرگ افراد بھی اکثر کشمکش کا شکار ہوتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ اپنی صحت کا تعین خود کریں۔ اگر نقاہت اور کمزوری سے دوچار نہیں ہیں تو روزہ رکھ سکتے ہیں۔
حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو بھی روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے کہ وہ روزوں کی گنتی بعد میں پوری کرلیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص دیرینہ یا پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہے، پیچیدہ امراض جیسے دماغ ، خون کے امراض… تو وہ اپنے معالج سے مشورہ کرے کہ روزے رکھیں یا نہ رکھیں۔ مختصراً یہ کہوں گی کہ ہر شخص کو اپنی صحت کا بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے، اگر وہ سمجھتا ہے کہ روزے سے تکلیف بڑھ گئی ہے یا بڑھنے کا اندیشہ ہے تو رمضان سے قبل ہی معالج سے چیک اَپ ضرور کروائے۔ مناسب تجاویز اور ڈائیٹ پلان سے روزے کی برکتیں سمیٹی جاسکتی ہیں۔
ایسے مریضوں کو آپ کیا ڈائیٹ پلان دیں گی؟ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا تھا کہ رمضان سے قبل اپنے معالج سے ضرور مشورہ کرلیں تاکہ ڈائیٹ پلان اور دوائی تجویز کی جاسکے۔ غذا میں کاربوہائیڈریٹس کا استعمال کم از کم کریں یعنی چینی اور اس سے تیار شدہ میٹھی اشیا۔ چوں کہ ہمارے ہاں رمضان میں شربت اور بازاری جوس کا استعمال بے دریغ کیا جاتا ہے بلکہ اس کے بغیر افطاری نامکمل تصور کی جاتی ہے حالانکہ یہ سب چٹخاروں کے سوا کچھ نہیں، غذائیت سے خالی ان اشیا کے استعمال سے جسم کو توانائی حاصل نہیں ہوتی بلکہ الٹا نقصان ہی ہوتا ہے۔ ہری سبزیاں، مرغی، انڈے، مچھلی کا استعمال رمضان میں بڑھا دیں۔ شوگر کے مریضوں کے لیے میٹھا زہر ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ روزہ نہ رکھنے والوں میں نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو محض نقاہت کی بنا پر روزہ نہیں رکھ پاتے، اور روزہ چھوڑنا انہیں واحد حل محسوس ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر صاحبہ نے اتفاق کیا اور خیال ظاہر کہا اکثر افراد سے بھوک برداشت نہیں ہوتی اور وہ روزہ نہیں رکھ پاتے، انہیں نقاہت ہونے لگتی ہے۔ نوجوانوں کو سب سے پہلے روزے کی فرضیت کا ادراک ہونا چاہیے۔ ایسا بالکل نہیں کہ محض کمزوری یا نقاہت کی بنا پر روزے کی چھوٹ مل جائے۔ نقاہت کوئی بیماری نہیں، یہ محض ایک حالت ہے جس پہ قابو پایا جاسکتا ہے۔ ذرا سی سمجھ داری اور توجہ سے مناسب ڈائیٹ پلان کے تحت بآسانی روزے رکھے جا سکتے ہیں۔ افطار سے سحری تک پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں۔ زیادہ پانی پینا جسم میں پانی کی کمی کو روکتا ہے، بلڈ پریشر کم ہونے کا خطرہ ہو تو نمک، گلیکسوز ڈی یا او آر ایس لے سکتے ہیں۔ کوشش کریں غذائیت سے بھرپور خوراک لیں۔ دودھ ، دہی، کچی لسی، لیموں پانی غذا میں شامل رکھیں۔ چائے، کافی کا استعمال کم کر دیں۔ چائے یا کافی کے ایک کپ سے تین سے چار بار حاجت درپیش ہوتی ہے جس سے پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ غیر ضروری طور پر بہت زیادہ نمکین اشیا بھی استعمال نہ کریں۔ کچھ افراد کو زیادہ میٹھا کھانے کی عادت ہوتی ہے جس سے زیادہ پیاس لگتی ہے۔
پروٹین، سی فوڈز، انڈے، مچھلی، گوشت، خشک میوہ جات رمضان میں بہترین غذائیں ہیں۔ سحری میں کھجلہ، پھینی، پراٹھے، تلی ہوئی اشیاء نظام ہضم کو خراب کرنے کا باعث بنتی ہیں، سحری میں دہی کو کھانے کا حصہ لازمی بنائیں تاکہ پورا دن آرام سے گزارا جاسکے۔ سادہ خوراک مثلاً پھل، سلاد، سبزیاں، چکی کا آٹا سحری میں استعمال کرنا افطار تک مددگار رہتا ہے اور دن بھر کمزوری کا احساس بھی نہیں ہوتا۔