ایثار اور اخلاص کا مہینہ

400

حمنہ نے سجدے سے سر اٹھایا تو اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔ شکیلہ نے، جو ماسی جنتے کی بیٹی تھی اور اپنی ماں کا ہاتھ بٹانے اب روز آنے لگی تھی کیوں کہ ماسی جنتے اب بوڑھی ہوچکی تھیں اور زیادہ کام نہ کر سکتی تھیں، بڑے غور سے حمنہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ آسمانی دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ چاند کی مانند چمک رہا تھا۔

شکیلہ بڑی حیران ہوئی کہ اتنی امیر کبیر بیگم صاحبہ کو کس چیز کی ضرورت ہے جو رب سوہنے کے سامنے ایسے روتی ہیں؟ اس کے خیال میں تو رونا صرف غریب کا مقدر ہے پھر چاہے وہ رب سوہنے کے سامنے ہو یا اس کے بندوں کے آگے… مگر وہ دیکھتی کہ بیگم صاحبہ جب نماز پڑھتیں تو روتیں۔ اس نے سوچا: آج اماں سے پوچھوں گی۔

’’اماں! یہ بیگم صاحبہ تو اتنی امیر ہیں، ہر چیز اُن کے پاس ہے، وہ پھر بھی نماز میں ایسے کیوں روتی ہیں؟‘‘ رات کو جب وہ اماں جنتے کے پاس لیٹی تو ساریا دن کی جو باتیں اس کے دماغ میں چل رہی تھی وہ زبان پہ لے آئی۔

ماسی جنتے نے حیرانی سے پوچھا ’’تُو نے کب دیکھ لیا؟چل سو جا… امیروں کے بھی اپنے مسائل ہوتے ہیں، بی بی جی روتی اس لیے ہیں کہ دنیا جہان کی دولت دے کر بھی وہ اولاد جیسی نعمت نہیں خرید سکتیں۔‘‘

شکیلہ نے دل سے دعا کی کہ ’’بی بی جی کو اللہ چاند سا پتر دے۔‘‘

حمنہ جب حمنہ سہیل سے حمنہ عزیر بنی تب سے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، کیوں کہ اس کے آتے ہی عزیر کو کمپنی کی طرف سے اعلیٰ عہدے پر فائز کردیا گیا اور بقول حمنہ کی ساس ’’میری بہو بڑی بھاگوان ہے‘‘۔ مگر شادی کو تین سال ہونے کو آئے، حمنہ کی گود ہری نہ ہوسکی۔
’’بی بی جی! میری سہیلی ہے فضیلت، اُس نے پیر صاحب سے تعویذ لیا تھا اور اس کا پچھلے سال ہی کاکا ہوا ہے، آپ کو بھی لا دوں؟‘‘ شکیلہ نے حمنہ سے پوچھا۔
’’شکریہ شکیلہ! میں نے پہلے ہی اپنا کام سب سے بڑے پیر کو سونپ دیا ہے۔‘‘ حمنہ نے جیسے خود سے کہا۔
’’وہ کون سا پیر ہے جی کہ ابھی تک کیوں نہیں ہوا کچھ بھی؟‘‘ شکیلہ حیران ہوئی۔

’’وہ میرا اور تمھارا رب ہے جس کے اختیار میں ہے سب کچھ… جس کے یہ سب پیر بھی محتاج ہیں، تو کیوں نا اتنے سارے پیروں کے بجائے ایک ہی سچے مشکل کشا کو راضی کرنے کی کوشش کریں… صرف اسی سے مانگیں، کیوں کہ وہ ہم سے بہت محبت کرتا ہے، اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اماں جنتے کیا کرتی ہیں؟‘‘حمنہ نے شکیلہ سے پوچھا۔

’’اماں تو جی جھلی ہوجاتی ہے، پرسوں چھری سے میری انگلی زخمی ہوگئی تو کتنی دیر روتی رہی۔‘‘ شکیلہ نے پیار سے بتایا۔

’’تو دیکھو، اللہ ہم سے ستّر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے، وہ ہمیں تکلیف میں کیوں رکھے گا؟ وہ ضرور ہماری مشکلات کو دور کردے گا۔‘‘ حمنہ کی آواز لرزنے لگی۔

’’بی بی جی! آپ فکر نہ کریں، میں اللہ جی سے اس رمضان بہت دعائیں مانگوں گی آپ کے لیے۔‘‘ شکیلہ کے خلوص پر حمنہ کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ ایک عہد شکیلہ کرکے اٹھی اور ایک عہد حمنہ نے بھی کیا۔

رمضان کے مبارک مہینے کا آغاز ہو چکا تھا، خدا کی رحمتیں ہر گھر پر برس رہی تھیں، ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق افطار کا خاص اہتمام کرتا۔ عجب دن ہوتے ہیں رمضان کے، کہ عبادت بھی معمول سے زیادہ ہوجاتی ہے، سحر و افطار کا خاص انتظام بھی ہوجاتا ہے۔ ہر چیز میں برکت… یہ رب العالمین کی نوازشیں ہیں اپنے بندوں پر کہ پورے سال غلطیوں، کوتاہیوں کے باوجود توبہ استغفار کے دروازے کھول دیتا ہے۔ ہر عمل کا بدلہ دس گنا بڑھا کے دیتا ہے۔ حمنہ اپنا عہد پورا کررہی تھی کہ جب افطار کی تیاری ہوتی اماں جنتے اور شکیلہ کے ساتھ، تو ایک ٹفن باقاعدہ اماں جنتے اور ان کی فیملی کا بھی تیار ہوتا۔ اور شکیلہ اپنا عہد پورا کررہی تھی یعنی باقاعدگی سے افطار کے وقت حمنہ کے لیے دعا کرنا۔ کیوں کہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے روزے دار سے کہ اذانِ مغرب سے پہلے دسترخوان پہ نت نئی نعمتوں کے دسترس میں ہونے کے باوجود اپنے محبوب رب کی اطاعت میں ہاتھ روک کے رکھنے والے کی ہر دُعا قبول ہوگی۔

حمنہ کا ایثار اور شکیلہ کا خلوص اللہ رب العزت کے دربار میں مقبول ہوا اور اِدھر عید کے چاند کی نوید ملی اور اُدھر حمنہ کے لیے خوش خبری سامنے آگئی۔

حصہ