ٔٔٔٔٔٔٔٔٔ٭نزول قرآن :17رمضان 13نبوت جولائی 410سب سے پہلے جبر ئیل ؑنے سورۃ اقرا ء کی ابتدائی پانچ آیتیں حضورﷺ کو پڑھائیں۔
٭حضرت خدیجۃ الکبری بنت خویلدؓ : 1 سب سے پہلے اسلام لائیں۔ آپ کواسلام میں مردوں اور عورتوں میں سب پر سبقت کا شرف حاصل ہے۔وفات 10رمضا ن 10نبوت ) 30 اپریل ۔619ء)
٭سورۃ النجم(قرآن):5نبوت میںآنحضرتﷺپر سورۃ نازل ہوئی۔ آپﷺنے قریش کے بڑے مجمع کے دوران مسجدالحرام میں اس کی آیت سجدہ کے دوران سجدہ کیا ۔اور آپؑ ﷺ کے ساتھ مسلم و کافرجن و انس نے بھی سجدہ کیا البتہ قریش کے ایک بڈھے ا’ میہ بن خلف نے ازراہ تکبر سجدہ نہیں کیا بلکہ کنکری کی ایک مٹھی اٹھا کر اپنی پیشانی کو لگائی اور کہا :مجھے یہی کافی۔جنہوں نے سجدہ کیا تھا اللہ تعالی نے ان سب کو اسلام کا شرف بخشا۔مگر امیہ بن خلف کو اسلام کی توفیق نہ ہوئی۔بلکہ جنگ بدرمیں بحالت کفر جہنم رسید ہوا۔
امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ فلسطین کا سفر :13رمضان المبارک 15ھ کو امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ فلسطین گئے ۔ اس سے پہلے شام کا علاقہ فتح کرنے کے لیے مسلم افواج خوں ریز جنگیں کرچکی تھیں۔ بیت المقدس شہر کے نگراں بطریک، یعنی مذہبی پیشوا نے شہر کی کنجی امیرالمومنین کے حوالے کی۔ آپ نے شہر میں داخل ہوکر، باشندگانِ شہر کو جان و مال کی امان لکھ دی۔
یکم رمضان 20ھ کو امیرالمومنین حضرت عمر فاروقؓ کے عہد ہی میں حضرت عمرو بن العاصؓ کے ہاتھوں مصر فتح ہوا۔
٭غزوہ بد ر :17) رمضان 2ھ ) بمطابق 13مارچ 624ء اس کو غزوہ بدر کبریٰ ،بدر عظمی ،بدر الثانیہ ،بدر القتال اور یوم الفرقان بھی کہا جاتا ہے۔اس میں محمد ﷺ کی قیادت میں صحابہ کی تعداد 313تھی ان میں 84 مہاجرین اور 229انصار تھے۔انصار پہلی بار غزوہ میں شریک ہوئے ۔اس جنگ میں گو کہ مسلمانوں کی افرادی قوت کم تھی لیکن انھوں نے مشرکین پر فتح پائی ’تاریخی حوالوں کے مطابق اس فتح کے اسباب میں ایک اہم سبب عام مسلمانوں کے علاوہ سیدنا حضرت علی ؓ اور سید الشہداء حضرت حمزہؓ کی بالخصوص جانفشانی تھی۔
فطرانہ : رمضان 2ھ میں عیدالفطر سے دو دن پہلے فطرانہ فرض ہوا۔
زینبؓ بنتِ خزیمہ سے شادی : رمضان 4ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین زینب بنتِ خزیمہ سے شادی کی۔ یہ ام المساکین کہلاتی ہیں۔
٭ فتح مکہ : 20 رمضان ۔ 8 ھ (10جنوری 630ء ) قریش کے صلح حدیبیہ معاہدہ امن کی خلاف ورزی کے بعد آنحضرتؑ ﷺ نے دس ہزار پر مشتمل سپہ اسلام کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی ۔یہ غزوہ ، غزوہ مکہ ہے ، یہ ایسی عظیم الشان فتح تھی جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے ہمیشہ کے لئے اپنے دین کو سربلند کردیا ۔دن کے تعین میں اختلاف ہے’’ معروف جمعہ کا دن ہے ‘‘
٭وفات حضرت فاطمہ ؓ :آپ ﷺ کی چہیتی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓالز ہرا کا 3رمضان 11ھ کو شب شبہ(حسنۃ)آنحضرت ؑکے وصال کے چھ مہینے کے بعد انتقال ہوا ۔ان کی عمر میں اختلاف ہے24یا29سال تھی۔
٭سریہ عمیرؓ بن عدی :غزوہ بدر کے بعد24رمضا ن کو حضرت عمیرؓ بن عدی الحظمی کو عصماء بنت مروا ن ز وجہ یزید بن زید بن حصن الخظمیہ کے قتل کیلئے بھیجا یہ بنو امیہ بن زید کے خاندان سے تھی اور سب و شتم وھجویہ اشعار سے ایزا دیا کرتی تھی اور کافروں کوآنحضرت ﷺ ؑکے خلاف آمادہ کیا کرتی تھی ،چنانچہ حضرت عمیرؓ جوکہ اس شاعرہ کے رشتے کے بھائی بھی تھے اور باوجود یہ کہ آنکھوں سے معذورتھے موقع پا کر اسے قتل کردیا ۔اس کے صلہ میں آنحضرتﷺ نے ا ن کا نام ’’بصیر‘‘رکھ دیا۔
٭ سریہ غالب ؓ بن عبد اللہ کلبی :7ھ بنو عوال ،اور بنو عبد بن ثلبہ کی طرف بھیجا گیا۔یہ علاقہ مندینہ منورہ سے نجد کی طرف ہے جس میں 230 افراد شامل تھے ۔اسی سریہ میں ایک شخص سامنے آیا تواسامہ ؓ بن زید نے تلوار اٹھائی تو اس نے فوراً کلمہ طیبہ پڑھامگر حضرت ا’سامہ ؓ نے اسے قتل کردیا ۔حضور ؑ کو جب خبر ہوئی تو آپؑ نے حضرت عرض کیا کہ اس نے تلوار کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا۔تب حضور ؑ نے فرمایا کہ’’تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھ لیا‘‘۔
٭سریہ سعدؓ بن الا شھلی:24رمضان8ھ منات نامی بت کو ڈھانے کے لئے روانہ کیا۔یہ اوس و خزرج کا دیوتا تھا۔ چناچہ وہ بیس سواروں کی معیت میں گئے اور اسے توڑ ڈالا ۔ سعد ؓ جب منات کی طرف بڑھے تو ایک سیاہ برہنہ سی عورت کوستی ہوئی آگے بڑھی تو سعد ؓ نے اسے قتل کردیا
٭سریہ خالدؓ بن ولید :25رمضان 8ھ ا لعزی ٰ نامی بت کو منہدم کرنے کے لئے 30سواروں کے ساتھ روانہ کیا یہ موفع تحلہ میں ،مکہ کی شرقی جانب نصب تھا ۔ آپؓ نے اسے منہدم کر ڈالا ۔واپسی پر آنحضرت ﷺ نے پوچھا کہ تم نے وہاں کچھ دیکھا تو آپؓ نے فرمایا کہ نہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے العزی کو نہیں توڑا ’ واپس جاکر اسے منہدم کرو تو آپؓ دوبارہ واپس گیے تو وہاں کھلے بالوں والی ایک سیاہ رنگ کی عورت ملی اس کے مجاور کے ساتھ ملی لیکن حضرت خالدؓ نے مجاور کو خاطر میں نہ لاتے ہوے عورت کو قتل کرکے جب واپس آیے تو حضور ﷺ فرمایا ہاںیہی ا لعزیٰ تھی ۔
٭سریہ عمرؓو بن عاص :8ھ سواع نامی بت توڑنے کہ لئے بنو ہذیل مکہ کے قریب روانہ فرمایا۔آپؓ نے اسے پیوند خاک کر ڈالا۔
٭سریہ علیؓ بن ابی طالب : 10ھ یمن کی طرف دوبارہ بھیجا گیا۔تین سو سوار ساتھ تھے۔آپ ؓ نے اسلام کی دعوت دی جو انہوں نے قبول نہیں کیاتو پھرقتال کیا۔اسکے بعد دعوت دی تو انہوںنے فوراً قبول کرلی۔اس پر آپ ؓ نے ان سے ہاتھ روک لیا۔اس کے بعد آپؓ نے قیام فرما کر انہیںقرآن کریم اور اسلام کی تعلیم دی اور آپ ؑ سے حجتہ الوداع میں ملے۔
٭قیسؓ بن صر مہ: 1ھ میں اسلام لائے ۔وہ روزہ سے تھے اور افطار ی میں کچھ نہ ملا۔ آپ نے بغیرکھائے دوسرے یوم کا بھی روزہ رکھ لیا ۔اس لئے کہ ان دنوںرات سو جانے کے بعد کھانا پینا حرام تھا اس کی وجہ سے دوسرے یوم ان کو بہت مشقت لاحق ہوئی تو یونہی کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (البقرہ187-) ترجمہ:اور کھاؤ پیو اس وقت تک کہ تم کو سفید خط صبح (صادق) نمایاں ہوجائے سیاہ خط سے۔
٭حضرت حسن ؓ کی ولادت:نصف رمضان 3ھ کو حضرت حسن ؓ بن علی ؓ کی ولادت ہوئی۔
٭رمضان میں قحط پڑا ۔( 6 ھ ) رسول اللہ ﷺ نے لوگو ں کو گڑ گڑانے،تواضع اختیار کرنے اور صدقہ کرنے کا حکم فرمایا ۔بعد ازاںلوگوں کے ہمراہ عید گاہ میںدو رکعت نماز پڑھی، پہلی رکعت میں سورۃ الا علیٰ دوسری میں الغاشیہ پڑھی اور خطبہ دیا ۔لوگ ابھی اپنی جگہ سے نہ ا’ٹھے تھے کہ بادل آئے اور کئی دن تک بارش ہوتی رہی۔
قبیلہ ثقیف : رمضان 9ھ میں ثقیف کا وفد بارگاہِ رسالت مآبؐ میں حاضر ہوا اور قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔
(ایرانیوں) پر مکمل فتح پائی : 23 رمضان 31ھ میں خلیفۂ راشد حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں مسلمانوں نے ساسانیوں (ایرانیوں) پر مکمل فتح پائی۔ ان کا سپہ سالار اور بادشاہ یزدگرد ہلاک ہوا۔
٭امیر المومنین حضرت علی ؓبن ابی طالب کی شہادت :17رمضان 40ھ صبح فجر کے وقت کوفہ میں آپ ؓ کو عبد الرحمن بن ملجم الحمیری(خارجی)نے شہید کردیا۔ اس وقت ان کی عمر 57 سال تھی اور ان کی خلافت چار سال اورچھ دن تھی۔
حضرت حسن بن علیؓ کی خلافت : رمضان المبارک 40ھ میں حضرت حسن بن علیؓ نے اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد خلافت سنبھالی۔
عقبہ بن نافع : 29 رمضان 48ھ میں عقبہ بن نافع نے القیروان شہر تعمیر کرنے کا حکم دیا تاکہ یہ رومیوں اور صلیبیوں کے حملوں سے بچنے کے لیے مسلمانوں کی محفوظ پناہ گاہ بن سکے ۔
٭وفات ام المومنین حضرت عائشہ ؓ: 58ھ آپؓ کی عمر مبارک تقریباً 66یا 67سال ہوئی۔
فتح جبل الطارق کی ابتدا : یکم رمضان 91ھ کو طریف بن مالک البربری نے تنگنائے ہرقل.جو بعد میں جبل الطارق کہلائی،عبور کی اور اپنے مجاہد ساتھیوں کے ساتھ اسپین کے ساحل پر اترا۔ اس کا یہ عمل ان عظیم جنگوں کی تمہید ثابت ہوا جو آئندہ برس موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد کی قیادت میں لڑی گئیں۔
اسپین کے شہر القوط کو فتح: 4 رمضان 92ھ کو مسلمانوں نے طارق بن زیاد کی کمان میں اسپین کے شہر القوط کو فتح کرلیا اور اسپینی کمانڈر مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔
محمد بن قاسم کی فتح : 10 رمضان 96ھ میں محمد بن قاسم نے دریائے سندھ کے کنارے ، راجا داہر کے ہاتھیوں پر مبنی بہت بڑے لشکر پر فتح پائی۔
دمشق پرعباسیوں کا قبضہ : 29 رمضان 132ھ کو عبداللہ العباس نے دمشق پر قبضہ کیا تاکہ وہ اموی سلطنت کے خاتمے اور ایک مضبوط اسلامی حکومت کے قیام کا اعلان کرسکے۔
جامع الازہر کی عمارت کی تکمیل : رمضان 361ھ میں جوہر صقلی نے قاہرہ میں جامع الازہر کی عمارت کی تکمیل کی۔
سپہ سالار یوسف بن تاشفین :9 رمضان 479ھ کو مرابطیوں کے لشکر کے سپہ سالار یوسف بن تاشفین نے فونس ششم شاہ قشتالہ کی زیر کمان فرنگی فوجوں کو شکستِ فاش دی۔ فونس ششم اپنے لشکر کے صرف 9 افراد سمیت جان بچانے میں کامیاب ہوا۔
فخر الدین رازی : 25رمضان 544ھ میں مشہور اسلامی فلسفی، مفسر اور عالم فخر الدین رازی پیدا ہوئے ۔
صلاح الدین ایوبی :25 اور رمضان 584ھ کو صلاح الدین ایوبیؒ نے قلعہ صقر پر قبضہ کیا اور اس میں موجود صلیبیوں کو نکال باہر کیا، اس طرح سلطان نے بیت المقدس کو صلیبیوں کے ناپاک وجود سے پاک کرنے کے لیے راستہ ہموار کردیا۔26رمضان 584ھ کو صلاح الدین ایوبیؒ نے معرکۂ حطین میں صلیبیوں کو شکستِ فاش سے دوچار کرکے ان کے سپہ سالار ارناط کو گرفتار کیا۔ یہ معرکہ، شرقِ اوسط سے صلیبی وجود کے خاتمے کا آغاز ثابت ہوا۔
ابوالفرج بن الجوزی : 13رمضان 597ھ میں متعدد کتب کے مؤلف ابوالفرج بن الجوزی نے وفات پائی۔
(الملک الصالح کی اہلیہ) :10 رمضان 648ھ کو شجرۃ الدّر (الملک الصالح کی اہلیہ) نے معرکہ المنصورہ میں لوئس نہم پر فتح حاصل کی۔ لوئس نہم گرفتار ہوا اور اس کے لشکر کا بڑا حصہ مارا گیا۔
پاکستان معرضِ وجود : 27 رمضان 1366ھ (14 اگست 1947ء) کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ اللہ کرے کہ یہ حقیقی معنوں میں اسلامی مملکت بنے اور قائم و دائم رہے ۔