جماعت اسلامی حلقہ خواتین ضلع شرقی نے یوم خواتین کے حوالے سے نجی ہال میں ’’تُو رازِ کن فکاں ہے‘‘ کے عنوان سے پروگرام کا اہتمام کیا۔ پروگرام کا آغاز اسماء طاہر کی میزبانی اور سورہ النساء کی آیات کی تلاوت سے ہوا۔
’’عورت مختلف ادوار میں‘‘ پروگرام کا پہلا حصہ تھا جو کہ خاکے کی صورت میں تھا۔ بہترین انداز میں تین تاریخی حالات سے گزرتی عورت کی کیفیات ملٹی میڈیا، پلے کارڈز اور اسٹیج پُرفارمنس کے ذریعے بیان کی گئیں۔
بعدازاں ’’محفوظ عورت… مضبوط معاشرہ‘‘ کے عنوان سے مذاکرہ ہوا جس کی میزبانی کے فرائض صائمہ عاصم اقصی رضوانہ قطب نے انجام دیے۔
مذاکرے کا آغاز پروفیسر درشہوار صدیقی سے کیا گیا جس میں انہوں نے بحیثیت استاد طالب علم کی شخصیت کی تعمیر میں تعلیم، تعلیمی اداروں، استاد، نصاب اور والدین کے کردار کے حوالے سے تجزیاتی گفتگو کی اور توجہ طلب امور کی نشاندہی کی کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بچے منشیات اور دیگر اخلاقی زوال کا شکار ہورہے ہیں۔ اس کے ذمہ دار عناصر کون کون سے ہیں؟ اس کے علاوہ اب ہر تعلیم یافتہ جوان ملک سے باہر جانے کی فکر میں گھلا جارہا ہے، اس ذہنیت کا سدباب اساتذہ کیسے کرسکتے ہیں؟
اس کا جواب درشہوار صدیقی نے دیتے ہوئے کہا کہ ایک بچے کی تربیت میں ساتھی، والدین، اساتذہ، تعلیمی ادارے کا ماحول اور تعلیمی نصاب بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ تربیتی پینٹاگون ہیں۔ اب اکثر تعلیمی اداروں میں ہراسمنٹ اور میوزک ایونٹ پر مخلوط ماحول کے انعقاد میں ادارہ خود بھی ذمہ دار ہے۔ آج کے اساتذہ صرف کمرشل ذہن رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تعلیم کمرشلائزڈ ہے جو اخلاقی تربیت کے لیے تباہی کا باعث ہے۔
ایڈووکیٹ طلعت یاسمین صاحبہ نے کہا کہ اس وقت روزانہ کی بنیاد پر خلع و طلاق کے کیسز اس بات کی علامت ہیں کہ نکاح کے معاہدے کو عام زندگی کے کسی بھی معاہدے سے کم اہمیت دی جارہی ہے اور خاندان جیسی بڑی عمارت کی بنیادیں ہی کھوکھلی ہورہی ہیں۔ والدین اور نوجوان دونوں کو یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے کیے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک فتنہ انگیز رجحان ہے جوخاندانی نظام پر کاری ضرب ہے اور اسلام کے قوانینِ وراثت و زوجیت کے قطعی منافی۔ اسے روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی ہونی چاہیے جس کے لیے ہم نے سینیٹر مشتاق احمد صاحب کو سفارشات بھی بھیجی ہیں جو سینیٹ میں زیر بحث ہیں۔
ڈاکٹر زریں تحسین نے بتایا کہ اس وقت معاشرے کی ترجیحات بدل گئی ہیں جس سے گھر، بچے، عورت، مرد سب ہی متاثر ہیں۔ تاخیر سے شادیاں کئی معاشرتی اور جسمانی پیچیدگیوں کا باعث بن رہی ہیں۔ اپنی بیٹیوں کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد بروقت شادی اور بروقت بچوں کی پیدائش معاشرے کی بقا اور خاندان کے استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے۔ میڈیا عورت کو جس طرح کارپوریٹ کلچر کی ایک پروڈکٹ بنا کر پیش کرتا ہے اس سے عورت کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے یا کمی؟؟
صحافی فہمیدہ یوسفی نے کہاکہ ڈراموں اور مارننگ شوز کی ریٹنگ سے ہم معاشرے کی اکثریت کو مطمئن نہیں کرسکتے۔ یہ ریٹنگز اور پروگرام کی مقبولیت عوام کی سوچ کی عکاس نہیں کہلائی جاسکتی۔ کمرشلزم کی وجہ سے آج عورت بھی ایک پروڈکٹ بن چکی ہے۔ ہمارا دین تو ہمیں عورت کی حیثیت میں پہلے ہی مکمل حقوق دیتا اور مضبوط بناتا ہے۔ آزادی ہمیں ہماری بنیادی ضروریات کے حصول میں ملنی چاہیے۔ گھر ہو یا کام کی جگہ… عورت کو معاشرے میں ایک فعال اور مثبت کردار ادا کرنے کی آزادی ملنا ضروری ہے۔ لیکن عورت اپنی فطری ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرکے کون سی آزادی چاہتی ہے؟ وقت کے فتنوں سے خود کو بچانے کے لیے بھی والدین اور بچوں کے مابین بات چیت کا ماحول قائم رہنا چاہیے۔ عورت مارچ جیسی فتنہ انگیز سرگرمیاں کبھی بھی عورت کے حقیقی مسائل کو اجاگر نہیں کرتیں۔
مذاکرے کی آخری مہمان طاہرہ فاروقی نے ورکنگ وومن کے مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بے شک عورت ہراسمنٹ کا سامنا کرتی ہے، لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں رب کریم کی عطا کردہ کتاب پر چلنا ہے جو ہمیں تحفظ کا احساس فراہم کرتی ہے۔ ہم نے خدائی قانون کو چھوڑ کر مرعوبیت اور اندھی تقلید میں دنیا کو پکڑ لیا جس کے باعث عورت غیر محفوظ ہوگئی ہے۔
ناظمہ ضلع ندیمہ تسنیم نے پروگرام کی شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ عورت کمزور نہیں ہے، یہ تو نسلوں کی تربیت کرتی ہے، فاتح بناتی ہے، معاشرے سنوارتی ہے، لیکن آج کی عورت دھوکا کھا گئی جس کے باعث کبھی کنٹینر سے کچلی جارہی ہے تو کبھی سائن بورڈز پر سج گئی۔ عورت کو پناہ اسلام کی دی ہوئی عزت اور مقام کے سوا کہیں نہیں مل سکتی۔